یہ 21 اور 22 دسمبر 1977 کی درمیانی رات تھی۔ جاگیرداروں نے بلوچستان کے میر گل موسیانی گاؤں کا محاصرہ کرلیا۔ رات کو بھی فائرنگ ہوتی رہی۔ دونوں طرف سے گولیاں چلتی رہیں اور آس پاس کے علاقوں میں خوف کا عالم رہا۔
اگلے روز جاگیرداروں نے کسانوں پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں پانچ کسان مارے گئے، جب کہ متعدد زخمی ہوئے۔
یہ واقعہ بلوچستان کے ضلع نصیر آباد کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی میں پیش آیا، جس کے بعد کسانوں نے جاگیرداروں کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیا اور ان کی جانب سے اپنی زمینیں ہتھیانے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا۔
یہ واقعہ آج بھی اس لیے بلوچستان کے عوام کے دلوں میں تازہ ہے کہ یہ مزاحمت اس دور میں ہوئی جب مارشل کا دور تھا اور جنرل ضیا الحق کے سخت قوانین بھی لاگو تھے۔ جس وقت قانون کی خلاف ورزی کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اس وقت کسانوں کا طاقت ور جاگیرداروں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا مزاحمت کی علامت بن گیا۔
اہم سنگِ میل
ممتاز محقق، دانشوراور مختلف کتابوں کے مصنف ڈاکٹر شاہ محمد مری اس تحریک کو ایک اہم سنگِ میل سمجھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تحریک ایک غریب اور پسے ہوئے طبقے کی تحریک تھی۔
ڈاکٹر مری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس زمانے میں جاگیردار کو جواب دینے کی کسی میں ہمت نہیں دی لیکن ان کسانوں نے نہ صرف جواب دیا بلکہ مقابلہ کیا۔
وہ اپنی کتاب ’پیپلز ہسٹری آف بلوچستان‘ کی جلد نمبر تین ’قبائلی اور جاگیرداری عہد‘ میں لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 20 مارچ 1972 کو مارشل لا ریگولیشن 115 کے ذریعے ملک میں زرعی اصلاحات کا اعلان کیا، جس میں اراضی کی حدِ ملکیت خاندان کے بجائے فرد کی بنیاد پر مقرر کی گئی۔
کتاب کے مطابق: ’زرعی اصلاحات کے لیے مارشل لا ریگولیشن ایکٹ 1973 کے نفاذ کے فوری بعد پٹ فیڈر کے جاگیردار خاندانوں نے پٹ فیڈر کی زمینوں پر آباد قبائل ہاری خاندانوں کو بے دخل کرنے کی کارروائیاں شروع کر دیں۔ انہوں نے دھونس دھمکی، کیسوں میں پھنسا کر گھروں کو آگ لگا کر نہروں میں شگاف ڈالنے کے علاوہ قبائلی لشکر کشی کے حربے بھی استعمال کیے۔‘
اس وقت کی صورت حال کی منظر کشی کرتے ہوئے ڈاکٹر مری لکھتے ہیں کہ ’شیر محمد چانڈیو نامی ایک کسان کی درخواست پر ریفارم انچارج جاوید اشرف ایک گاؤں پہنچے، جہاں انہوں نے سب کو بلایا۔ دہشت کی فضا تھی۔ لوگ آنے سے کترا رہے تھے، صرف چند لوگ ہی آئے۔‘
کتے کی گواہی قبول ہوگئی
ڈپٹی کمشنر جاوید اشرف نے شیر محمد کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: ’اسے پہچانتے ہو؟‘ تو لوگوں نے نظریں چرا کر اسے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ شیر محمد نے کہا: ’یہ جاگیردار سے ڈرتے ہیں۔‘
ڈی سی نے کہا: ’میں سمجھتا ہوں کہ یہ زمین تمہاری ہے، لیکن مجھے قانونی طور پر دو گواہوں کی ضرورت ہے، لیکن تمہارے ساتھ رعایت کرتا ہوں، صرف ایک آدمی گواہی دے دے کہ تم یہاں رہتے تھے۔‘
شیر محمد نے لوگوں کو خدا کے واسطے دیے۔ وہ کھڑے ہوئے لوگوں کو نام لے کر پکارتے رہے، لیکن لوگوں نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔
بعد میں شیر محمد نے ڈی سی کو کہا کہ ان میں سے کوئی انسان میری گواہی دینے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ تھوڑی دیر کے بعد شیر محمد چانڈیو کا کتا پل کے نیچے سے دوڑتا آیا اور اس کے پیروں میں لوٹنے لگا۔
ڈپٹی کمشنر جاوید اشرف نے کہا: ’افسوس کی بات ہے کہ کوئی انسان گواہی دینے کے لیے نہیں بڑھا، لیکن اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ تم واقعی یہاں رہتے تھے۔ میں اس کتے کی گواہی کو قبول کرتا ہوں اور یہاں کے پلاٹ تمہارے خاندان کے نام کرتا ہوں۔‘
مزاحمت کا آغاز
58 سالہ گل محمد مستوئی پٹ فیڈر کے علاقے علی آباد بلیدی کے رہائشی ہیں۔ ان کا گاؤں بلوچستان اور سندھ کی سرحد کے قریب واقع گاؤں گل موسیانی سے 30 سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو خصوصی انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب ان کی عمر 14 سال تھی اور وہ چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے۔
گل محمد مستوئی کو یاد ہے کہ کسانوں کی ہلاکت کی خبر پورے علاقے میں جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی۔ وہ کہتے ہیں:
’ہمارے گاؤں کےساتھ پٹ فیڈر نہر سے سیراب ہونے والا علاقہ اس دور میں لڑائیوں کی زد میں تھا۔ کسانوں اور جاگیرداروں کے درمیان کشمکش کے باعث سب لوگ متاثر ہو رہے تھے۔ جب یہ لڑائیاں طوالت اختیار کرنے لگیں تو ہمارے خاندان نے یہاں سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا اور ہم جیکب آباد چلے گئے، جہاں میں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ ان واقعات کے بارے میں خاندان والوں اور بعد میں کمیونسٹ پارٹی کے ساتھیوں نے تفصیلات سے آگاہ کیا۔‘
’یہ زمین ہمیں سرکار نے دی ہے‘
گل محمد مستوئی کمیونسٹ پارٹی کے صوبائی کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’اس واقعے میں کسانوں کا جانی نقصان ضرور ہوا لیکن انہوں نے جاگیرداروں کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔‘
قصہ کچھ یوں تھا کہ 1972 میں حکومت نے زرعی اصلاحات نافذ کیں، جس کے تحت بے زمین کسانوں میں زمینیں تقسیم کی گئیں جو 16 اور 32 ایکڑ کے حساب سے تھیں۔ بعد میں جاگیرداروں نے پہلے تو کسانوں کو ڈرا دھمکا کر یہ زمینیں اپنے اور اپنے لوگوں کے نام کروانے کی کوشش کی جبکہ بعض کسانوں نے خوف کی وجہ سے زمینیں واپس کر دیں۔
یہاں پر پٹ فیڈر کا ایک گاؤں جو قیدی شاخ جھڈیر میں واقع ہے، جسے میر گل موسیانی کہتے ہیں اور یہ لہڑی قبائل کی ملکیت ہے۔ اس گاؤں کے کسانوں نے جاگیرداروں کو زمینیں دینے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ زمین انہیں سرکار نے دی ہے اور وہ یہ واپس نہیں کریں گے۔
گل محمد کے بقول: ’اس علاقے میں لہڑی قبائل کے علاوہ جاموٹ، جمالی اور رخشانی قبیلے کے لوگ آباد ہیں۔ جمالی خاندان کے جاگیرداروں نے پہلے وڈیروں اورجاننے والوں کے ذریعے زمین واپس لینے کی کوشش کی۔
’جب وہ ہر طرح سے ناکام ہوئے اور لہڑی قبائل کسی طرح راضی نہیں ہو رہے تھے تو اس پر مخالف فریق نے گاؤں پر مسلح دھاوا بولنے کا فیصلہ کرلیا۔‘
’یہ وہ وقت تھا کہ مارشل لا لگ چکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت ختم ہو چکی تھی۔ ضیا الحق نے مارشل لا لگا دیا تھا۔ یہ جاگیردار جو پیپلز پارٹی میں شامل تھے، بعد میں ضیا الحق کے حمایتی بن گئے تھے۔‘
’یہ 21 اور 22 دسمبر 1977کی رات تھی کہ جاگیرداروں نے میر گل موسیانی گاؤں کا محاصرہ کر لیا۔ رات کو بھی فائرنگ ہوتی رہی۔ دونوں طرف سے گولیاں چلتی رہیں اور آس پاس کے علاقوں میں خوف کا عالم رہا۔‘
’اگلے روز جاگیرداروں نے کسانوں پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں چار مقامی کسان اور ایک دوسرے گاؤں کا رہنے والا کسان ہلاک ہو گیا، جب کہ متعدد کسان زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ معمولی نہیں تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس کی خبر پورے علاقے میں جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی۔‘
محاصرہ کرنے والوں کا محاصرہ
جس وقت جاگیردار میر گل موسیانی گاؤں کا محاصرہ کرکے ان سے زمین ہتھیانے کی کوشش کر رہے تھے، تو دوسرے گاؤں کے لوگوں کو خبر ہوگئی اور انہوں نے کسانوں کی مدد کا فیصلہ کر لیا۔ وہ ایک بڑے ہجوم کی شکل میں یہاں آ گئے اور انہوں نے جاگیرداروں کا محاصرہ کر لیا۔
’اس طرح گاؤں والے جاگیرداروں کے محاصرے میں تھے اور جاگیردار دوسرے گاؤں والوں کے محاصرے میں آ گئے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ اب بچنے کا کوئی راستہ نہیں تو انہوں نے حکومت سے مدد طلب کی۔‘
’چونکہ اس وقت حکومت بھی جاگیرداروں کی حمایتی تھی، اس لیے فورسز ان کی مدد کو آ گئیں اور وہ ان کو یہاں سے بچ بچا کر نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔‘
’چونکہ اس وقت دو قبائل آمنے سامنے تھے، جن میں ایک لہڑی اور دوسرا جمالی تھا، فائرنگ سے لہڑی قبائل کے ہلاک ہونے والے افراد میں تین بھائی بھی شامل تھے، جن میں بڑے بھائی رحمت اللہ، عبداللہ اور ان کا بھانجا زرق جان شامل تھا۔ عبدالکریم رخشانی قریبی گاؤں کا تھا، جو ان کی مدد کے لیے آیا تھا۔‘
ڈاکٹر شاہ محمد مری اپنی کتاب ’پیپلز ہسٹری آف بلوچستان‘ کے قبائلی اور جاگیرداری عہد میں لکھتے ہیں کہ زخمی ہونے والوں میں 12 سالہ بچہ خیر محمد اور جوانوں میں خدا بخش اور حمدان شامل تھے۔ پانچ افراد لاپتہ ہوئے۔ دوسری جانب خان آف قلات کی سربراہی میں ہونے والے جرگے میں جاگیرداروں نے اپنے لشکر کے ایک شخص کے زخمی ہونے کا اعلان کیا۔
کسانوں کی مددگار کمیونسٹ پارٹی
گل محمد کہتے ہیں کہ معاملہ یہاں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ شروعات تھی۔ اگر یہاں پر ان کسانوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا تو شاید یہ مزاحمت ناکام ہو جاتی، اسی خدشے کو مد نظر رکھتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی نے قدم بڑھانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ جب فائرنگ کا یہ واقعہ ہوا تو جاگیرداروں نے اسے کسانوں اور اپنی لڑائی کے بجائے قبائلی رنگ دینا شروع کیا کہ یہ لہڑی اور جمالی قبائل کا مسئلہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دوران سندھ کمیونسٹ پارٹی کا کراچی میں اجلاس ہوا، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ کسانوں کی مدد کے لیے وفد بھیجا جائے۔ اس کے تحت کامریڈ جاوید کی قیادت میں ایک وفد رمضان میمن، حمیدہ گانگھرو، آصفہ رضوی، ڈاکٹرجبار خٹک اور نذیر عباسی کے ہمراہ ڈیرہ مراد جمالی آیا۔
گل محمد نے بتایا کہ ’یہ وفد جب یہاں پہنچا تو حالات کشیدہ تھے اور لہڑی قبائل اپنے لوگوں کے مرنےکی وجہ سے غم میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انہوں نے پہلے حالات کا جائزہ لیا اور پھر متاثرہ گاؤں جانے کا فیصلہ کیا، جس کی تنظیم کے ساتھیوں نے مخالفت کی۔
’چونکہ وفد نے متاثرین سے ملنا تھا، اس لیے انہوں نے منع کرنے کے باوجود گاؤں کا دورہ کیا اور جب وہ گئے تو اس وقت وہاں ایک قیامت کا منظر تھا۔ چار لاشیں اٹھائی گئی تھیں۔ خواتین دھاڑیں مار مار کر رورہی تھی۔
’وفد نے جب گاؤں والوں سے تعارف کرایا تو انہوں نے ان کو جگہ دی اور خواتین کو اندر بھیجا اور انہیں بتایا کہ یہ ہمارا قبائلی جھگڑا ہے، اسے ہم خود لڑیں گے۔‘
گل مستوئی کہتے ہیں کہ وفد نے حالات کا جائزہ لینے کے بعد گاؤں کے سرکردہ لوگوں سے بات کی کہ وہ اس کو قبائلی جھگڑا نہ بنائیں بلکہ یہ کسانوں اور جاگیرداروں کی لڑائی ہے اور قبائلی رنگ دینے کی کوشش مخالف فریق کی ہے۔
اس دوران میر گل موسیانی جو واقعے کے روز گاؤں میں نہیں تھے اور سندھ کے علاقے شہداد کوٹ میں تھے، وہ واپس آ گئے۔ وفد نے ان کو بھی سمجھایا کہ وہ اس کو قبائلی نہ بنائیں۔ بہت کوششوں اور سمجھانے کے بعد یہ لوگ راضی ہوگئے کہ وہ اسے تحریک کی شکل دیں گے، قبائلی جھگڑا نہیں بنائیں گے۔
کمیونسٹ پارٹی کے وفد نے بعد میں بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا اور انہوں نے ڈیرہ مرادجمالی کے ڈی سی یا لیویز چوک پر کیمپ لگایا۔
گل محمد کہتے ہیں کہ یہ دور انتہائی سخت دور تھا اور مارشل لا کی حکومت تھی، جس پر ان کے خلاف کارروائی ہونی تھی اور یہی ہوا کہ فورسز نے کیمپ بند کروا کر ان سب کو گرفتار کرلیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے ارکان کو خواتین سمیت مچھ جیل بھیج دیا گیا، جسے اس وقت سب سے خطرناک جیل سمجھا جاتا تھا۔ یہ لوگ تین مہینے تک جیل میں بند رہے۔
گل محمد نے بتایا کہ اس واقعے میں کمیونسٹ پارٹی کی خواتین ارکان جن میں آصفہ رضوی اور حمیدہ گانگھرو شامل تھیں، نے نہ صرف ماتم کرتی خواتین کی ڈھارس بندھائی بلکہ انہیں اس بات پر قائل کیا کہ وہ اپنے غم اورغصے کو ایک طاقت بنا کر جاگیرداروں کے خلاف لڑیں گے۔
ان کے بقول: ’ایک ایسے وقت میں جس گھر سے تازہ تازہ لاشیں اٹھائی گئی ہوں وہاں کسی کو قائل کرنا مشکل کام ہے، تاہم انہوں نے یہ کام کر دکھایا۔‘
انہوں نے بتایا کہ جیل میں قید کے دوران آصفہ رضوی اپنے انٹرویو میں بتاتی ہیں کہ ’جب ہم لوگ دن کو الگ الگ ہوتے تھے۔ جب کبھی رات کو اکٹھے کر دیے جاتے تو حمیدہ گانگھرو انقلابی گیت گاتی تھی۔ اس سے نہ صرف ہمارا وقت گزرتا بلکہ جوش اور ولولہ بھی پیدا ہوتا۔‘
تحریک ابھی ختم نہیں ہوئی!
گل محمد کہتے ہیں کہ تحریک ختم نہیں ہوئی کیوں کہ کسان اور جاگیردار کی لڑائی جاری ہے اور آج بھی کسان مشکل حالات میں ہیں۔ ان کو اپنی فصل سے وہ سب کچھ نہیں ملتا جتنی وہ محنت کرتے ہیں۔ یہ لڑائی تو جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیونسٹ پارٹی اپنے قربانی دینے والے کسانوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے اور گذشتہ 44 سالوں سے ہر سال یہ دن منایا جاتا ہے۔ ان کی جدوجہد اور محنت کو سلام پیش کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس بار اس دن کو منانے کی خاص بات یہ ہے کہ ہم ان کسانوں کی قبروں پر کتبے لگا رہے ہیں تاکہ ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے۔
ان کے مطابق مختلف قباٸل کا ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا ایک طویل جنگوں کا سلسلہ جاری تھا، پھر اس جنگ و جدل کے پیش نظر اور حصول تعلیم کے سلسلے میں میرا خاندان جیکب آباد سندھ ہجرت کرگیا۔ وہاں پھر ہماری پڑھاٸی کے دوران کمیونسٹ پارٹی کی بچوں کے حوالے سے کام کرنے والی ذیلی تنظیم ساتھی بارڑا سنگت میں شمولیت سے اس واقعے کی ساتھیوں سے مزید تفصیلات ملتی رہیں۔