پاکستان اور جرمنی کے اشتراک سے بنی کمپنی ایپ ٹیک (EPTeck) نے ایک ایسا آلہ بنایا ہے جس کے ذریعے کسان گھر بیٹھے یا کھیتوں سے دور رہ کر بھی بس ایک ایپ کے ذریعے ٹیوب ویل کا کنٹرول اور زمینوں کو پانی کی مناسب فراہی یقینی بنا سکتے ہیں۔
ایپ ٹیک نے گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر (ایف اے او) کے زیر انتظام ’گلوبل ایگری اینو چیلنج 2021‘ کے عالمی مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔
کمپنی کے شریک بانی اور سی ای او عامر ظہور نے بتایا کہ اس مقابلے میں 37 ملکوں کے انجینیئرز اور اداروں نے 157 منفرد آئیڈیاز پیش کیے۔
ان کا آئیڈیا کیا تھا؟ اس حوالے سے بتاتے ہوئے عامر ظہور نے کہا کہ ان کی کمپنی نے کسانوں کو آب پاشی سے جڑے روز مرہ مسائل کے حل کے لیے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے سادہ، منفرد اور انتہائی مفید ٹیوب ویل کا عملی آئیڈیا پیش کیا۔
ریموٹ ویل ہے کیا؟
عامر ظہور نے بتایا کہ ریموٹ ویل (Remotewell) انٹرنیٹ سے منسلک ایک خودکار ڈیوائس ہے جو سوئچنگ (چلانے اور بند کرنے)، شیڈولنگ (خودکار طریقے سے چلانے اور بند کرنے کے اوقات مقرر کرنے)، کنٹرولنگ اور بجلی سے متعلق مختلف مسائل کے حل کے لیے ٹیوب ویل اور ڈرپ اریگیشن سسٹم کے لیے بنایا گیا ہے۔
یہ سسٹم موٹر کی حفاظت، بجلی کی بچت، ہوا اور پانی کے معیار کی نگرانی سمیت بہت سی اضافی خوبیوں کا حامل ہے اور مجموعی نظام کی کارکردگی کی نگرانی کے ساتھ ساتھ پانی اور بجلی کے استعمال کی نگرانی کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔
ان کے مطابق یہ پانی اور توانائی کے تحفظ کے لیے مفید آلہ ہے اور کسان، سرکاری اور غیر سرکاری ادارے متعدد سطحوں پر اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
عامر ظہور کا کہنا تھا کہ کوئی بھی کسان صرف 22 ہزار روپے میں یہ ڈیوائس حاصل کر سکتا ہے۔
’اس کے لیے 200 روپے مہینہ انٹرنیٹ پیکیج ملے گا جو بہت سستا ہے۔ اس ڈیوائس سے کسان انرجی پیٹرنز دیکھ سکے گا اور تحفظ، اور پانی اور بجلی کے بچاؤ کو یقینی بنا سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس ڈیوائس کو چھوٹا کسان، جو دو ایکڑ پر کاشت کاری کرتا ہے وہ بھی لے سکتا ہے، اور اس ڈیوائس کی ایک موبائل ایپ بھی ہے۔
’کسان اپنا پورا ریکارڈ رکھ سکتا ہے جس سے ہمارے پاس پورا ڈیٹا آ سکتا ہے کہ کتنا پانی استعمال ہو رہا ہے، بجلی کتنی خرچ ہو رہی ہے اور حکومت کس طرح پالیسی بنا سکتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ریموٹ ویل اس وقت پاکستان کے سات اضلاع لاہور، فیصل آباد، گجرانوالہ، پاکپتن، اوکاڑہ، لودھراں اور بہاولپور میں لگائے جا چکے ہیں اور کسان اس نظام کو بہت پسند کرر ہے ہیں۔’
عامر ظہور کی کمپنی 2022 میں اس منصوبے کو پورے پاکستان میں پھیلانے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ اس کے بعد اسے ترکی، مراکش اور پولینڈ میں لانچ کرنے کا ارادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف اے او کے مقابلے میں حصہ لینے سے پاکستان کو دنیا بھر میں پہچان ملی ہے اور اس آلے سے نہ صرف پاکستان میں ریوینیو آئے گا بلکہ اس سے روزگار بھی پیدا ہوگا۔
مقابلہ ہوا کیسے؟
عامر ظہور نے بتایا کہ اقوام متحدہ عالمی مسائل پر بہت کام کر رہا ہے اور پوری دنیا میں کوشش کی جارہی ہے کہ پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) کو حاصل کیا جائے۔
’ان اہداف میں خوراک کا تحفظ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ انہی چیلنجز کو دیکھنے کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ ایف اے او کام کر رہا ہے۔‘
ان کے مطابق اقوام متحدہ نے زراعت میں ڈیجیٹلائزیشن کو دنیا میں فروغ دینے کے لیے قدم اٹھایا کہ وہ مصنوعات جن سے پوری دنیا کو فائدہ ہو سکے انہیں شارٹ لسٹ کیا جائے اور پھر انہیں پوری دنیا میں مقبول بنایا جائے۔
عامر ظہور نے بتایا کہ اس مقابلے کا اعلان ستمبر 2021 میں ہوا تھا اور امیدواروں کو اکتوبر کے آخر تک اپنی بنائی ہوئی ڈیوائسز یا مصنوعات کی تفصیلات جمع کروانی تھی۔
دنیا کے 37 ملکوں سے 157 پراڈکٹس نے اس مقابلے میں حصہ لیا اور چار ہفتوں کے بعد نو ماہرین نے ان میں سے 10 بہترین کو منتخب کیا۔
ان کے مطابق اس کے بعد اقوام متحدہ نے 36 گھنٹوں کا ایک پروگرام منعقد کیا جس میں ٹرینرز اور جانچ پڑتال کرنے والوں نے ہمارے ساتھ وقت گزارا اور ہماری پراڈکٹ کی مختلف طریقوں سے جانچ کی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے بعد ان 10 میں سے بھی تین بہترین کو منتخب کیا گیا، جس کے بعد نو دسمبر کو ایف اے او نے زی جیانگ یونیورسٹی اور چین کی وزارت زراعت کے تعاون سے ایک ورچوئل تقریب کا انعقاد کیا۔
تقریب میں شارٹ لسٹ ہوئی تین پراڈکٹس میں سے پہلی پوزیشن گھانا، دوسری پاکستان اور تیسری پوزیشن چین نے حاصل کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہمیں بہت فخر ہے کہ پاکستانی انجینیئرز اور کمپنیز بین الاقوامی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور ان کی مصنوعات پوری دنیا میں کمرشلائز ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس مقابلے میں جیتنے والے اب جینیوا جائیں گے اور انہیں اپنی تخلیق کے لیے فنڈز ملیں گے اور اس کے علاوہ انہیں اپنی مصنوعات کو عالمی اور بین الاقوامی مارکیٹ تک پہنچانے کا بھی بھرپور موقع ملے گا۔
کیا حکومت پاکستان اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا سکتی ہے؟ اس حوالے سے عامر ظہور کا خیال ہے کہ حکومت چاہے تو زراعت کے شعبے کو سہولت فراہم کرنے اور پانی اور توانائی کے تحفظ کے لیے اس ڈیوائس کو پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ساتھ مل کر ہر ٹیوب ویل پر لگا سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایپ ٹیک آٹومیشن اور سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ کی کمپنی ہے جس کی قیادت جرمنی اور پاکستان میں مقیم پاکستانی انجینیئر کرتے ہیں۔
اس کا ایک دفتر فرینکفرٹ جرمنی میں اور دوسرا فیصل آباد اور ایک دفتر سوئٹزرلینڈ میں ہے۔