مری پچھلے ہفتے نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی میڈیا کا بھی موضوع بنا رہا۔ برفانی طوفان سے ہونے والی ہلاکتوں کا ایک سبب ہوٹل مالکان اور مقامی آبادی کی بے رخی بھی تھی۔ حتیٰ کہ ایک سوشل میڈیا کے صارف نے لکھا: ’ہمیں مری کی سردی نے نہیں مری والوں کی سرد مہری نے مارا۔‘ اس سے پہلے بھی سوشل میڈیا پر ’بائیکاٹ مری‘ کی مہم چلتی رہی ہے۔
ایک عمومی تاثر ہے کہ مری کے لوگ بے رحم ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اور اس خوبصورت سیاحتی مقام کی تاریخ اس بارے میں کیا کہتی ہے؟
کیا مری کی وجہ تسمیہ حضرت مریم ہیں؟
مری کو مری کیوں کہتے ہیں، اس بارے میں مختلف روایتیں مشہور ہیں۔
مسعود الحسن نے اپنی تصنیف ’مری گائیڈ‘ میں لکھا ہے کہ ’مری‘ ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی چراگاہ کے ہیں۔ ترک جب فاتح بن کر ہندوستان میں آئے تو ہزارہ اور مری کی پہاڑیاں ان کی اقامت گاہ قرار پائیں۔ (ترکی لغت کے مطابق مری تو نہیں البتہ لفظ ’میرا‘ ترکی میں چراگاہ یا گھاس کے میدان کو کہتے ہیں۔)
ایک اور روایت جسے لطیف کاشمیری نے اپنی کتاب ’خیابان مری‘ مطبوعہ 1971 میں لکھا ہے کہ مری میں جہاں آج پنڈی پوائنٹ ہے کبھی اس جگہ ایک بزرگ عورت کی مڑھی ہوا کرتی تھی جس کی وجہ سے اس کا نام پہلے ’مڑھی‘ پڑا جو بدلتے بدلتے مری ہو گیا۔
ایک اور محقق خواجہ نذیر احمد نے تو اپنی تصنیف ’جیسس آن ارتھ اینڈ ہیون‘ میں یہاں تک قیاس کر دیا ہے کہ وہ بزرگ خاتون جو صدیوں سے یہاں محوِ خواب ہیں وہ حضرت مریم ہیں جو حضرت عیسیٰ کی تلاش میں کشمیر جا رہی تھیں کہ مری کے مقام پر فوت ہو گئیں۔
ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ پانڈو اپنے ایام جلاوطنی میں جب کشمیر سے واپس آ رہے تھے تو وہ مری میں بھی ٹھہرے تھے اور جس جگہ وہ ٹھہرے تھے وہ جگہ پنج پانڈو کے نام سے کشمیر پوائنٹ کی پہاڑی پر آج بھی واقع ہے۔ یہاں تقسیم سے پہلے ہندوؤں کا سالانہ میلہ بھی اکتوبر میں لگتا تھا جس میں دور دراز سے ہندو اور سکھ بڑی تعداد میں شریک ہوتے تھے۔
مری میں تقسیم سے پہلے دو گوردوارے، دو مندر اور چار چرچ بھی ہوا کرتے تھے۔ اس سے بہت پہلے یہ جوگیوں کا مسکن بھی رہا۔ پتریاٹہ کے قریب قدیم زمانے کی تراشیدہ چٹانیں اب بھی موجود ہیں جن کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ بدھ مت کے عروج کے دور کی ہیں۔ سانجا کس کے مقام پر ایسی ہی ایک چٹان کو مقامی لوگ ’رام دیو کی چٹان‘ کہتے ہیں۔
کشمیر کے مہاراجہ نے مری سے کیوں جان خلاصی کروا لی؟
مری کی قدیم تاریخ کشمیر سے جڑی ہوئی ہے۔ پھر ایک ہزار سال پہلے جب ترک النسل گکھڑ سلطان کائی گوہر پوٹھوہار میں مقیم ہوا تو اس نے مری کا علاقہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا جس کی اس وقت سرحدیں دریائے سندھ سے دریائے جہلم تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس وقت مری میں گھنے جنگلات تھے جن میں خونخوار جانوروں کی بہتات تھی اس لیے یہاں آبادی بھی برائے نام تھی۔
مغل عہد میں یہ علاقہ نیم خودمختار رہا۔ سکھ عہد میں سردار ملکھا سنگھ تھئے پوریہ نے 17ویں صدی کے اواخر میں راولپنڈی کو گکھڑوں سے چھین لیا اور یوں عملاً یہاں ملکھا سنگھ کی حکومت رائج ہو گئی لیکن عملی طور پر مری، مانسہرہ اور ہری پور کے قبائل خودمختار ہی رہے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ نے راولپنڈی کو 1820 میں اپنی عملداری میں لیا تو اس کے جرنیل ہری سنگھ نے مری اور مانسہرہ کے قبائل پر دس سال میں دو بار لشکر کشی کی کیونکہ وہ اس کے لیے مشکلات کا باعث بنتے تھے۔ بعد ازاں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے یہ علاقہ مظفر آباد کے سکھ گورنر گلاب سنگھ کو دے دیا، جس نے مقامی قبائل پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے ہر باغی کے سر کے بدلے اپنے فوجیوں کو ایک روپے انعام کا اعلان کیا۔
جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کا 1839 میں انتقال ہوا تو مقامی قبائل نے سکھ حکومت کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا جس کو کچلنے کے لیے لاہور سے فوج روانہ کی گئی۔ پنڈی پوائنٹ پر سکھوں کے عہد کا ایک قلعہ ہوا کرتا تھا، جو 1968 تک موجود رہا۔ بعد میں اسے مسمار کر دیا گیا وہاں اب پی ٹی وی کا براڈ کاسٹنگ ٹاور ہے۔
انگریزوں اور سکھوں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ نو مارچ 1846 کو لاہور میں ہوا، جس کی رو سے انگریزوں کے خلاف جنگ کی پاداش میں کشمیر اور ہزارہ کے علاقے ایک کروڑ روپے کے عوض گروی رکھے گئے، مگر 16مارچ 1846 کو انگریزوں اور کشمیر کے مہاراجہ گلاب سنگھ کے درمیان معاہدہ امرتسر ہوا جس کی رو سے انگریزوں نے دریائے راوی اور سندھ کے درمیان کشمیر اور ہزارہ کے علاقے مہاراجہ کو 75 لاکھ روپے کے عوض پٹے پر دے دیے۔
اس فیصلے کے خلاف کشمیر اور ہزارہ کے قبائل نے مزاحمت کی، جس کے جواب میں مہاراجہ نے انگریزوں کو ہزارہ کا علاقہ دے دیا اور اس کے بدلے جموں کا لے لیا۔ انگریزوں نے 1850 میں ہزارہ کے 309 دیہات انتظامی سہولت کے لیے راولپنڈی کے ضلع میں شامل کر دیے جن میں مری، پھلگراں، کری، مغل، چراہاں، دیول، کوٹلی، کرور، جسگام، کہوٹہ، کایرو، ہرو، کرال وغیرہ شامل تھے۔ تاہم جب 1901 میں شمال مغربی سرحدی صوبہ بنایا گیا تو ڈھنڈ بکوٹ، بوئی، کرال اور لورا کو راولپنڈی ضلع کی بجائے ہزارہ میں شامل کر دیا گیا۔
انگریزوں نے مری 1940 روپے میں خریدا
ایک مقامی روایت ہے کہ انگریزوں نے مری کا ہل سٹیشن راجگان سے 1940 روپے کے عوض خریدا اور جو انگریز یہ خریداری کرنے آیا تھا اسے مقامی راجہ نے اس رقم میں سے دس روپے یہ کہہ کر واپس کر دیے کہ ’تمہاری بیگم کے کپڑے پورے نہیں اسے کپڑے خرید دینا۔‘ وہ انگریز عورت اس وقت سکرٹ پہنے ہوئے تھی۔
مری کا ہل سٹیشن راولپنڈی سے 39 میل کے فاصلے پر واقع تھا، جسے اس وقت انگریزوں نے اپنی فوج اور انتظامیہ کے گرمائی کیمپ کے طور پر ترقی دی تھی۔ مری کے علاوہ اس دور میں ہمالیہ کے دامن میں واقع شملہ، مزوری اور نینی تال کو اسی پس منظر میں ترقی دی گئی تھی۔ مری میں سرکاری دفاتر سنی بینک کے علاقے میں 1853 میں بنائے گئے۔ 1857 میں یہاں چرچ بنایا گیا، مال روڈ بھی 1860 میں بنایا گیا جس پر چہل قدمی کی اجازت شروع میں صرف انگریز خاندانوں کو دی گئی تھی۔
اس زمانے میں مال روڈ کے صرف ایک طرف عمارات بنانے کی اجازت دی گئی تاکہ سیاح قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اس ضابطے پر اگلے 130 سال سختی سے عمل کیا گیا لیکن 1990 کے بعد اس سڑک کے دونوں اطراف عمارتیں بنانے کی اجازت دے دی گئی۔ چرچ کے بلمقابل پوسٹ آفس اور انگریزوں کی ضروریات زندگی کی اشیا کے لیے مارکیٹ بھی بنائی گئی۔
1857 کی جنگ آزادی جسے انگریز بغاوت کا نام دیتے ہیں، اس میں مری اور ہزارہ کے لوگوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مری میں موجود انگریز فوجوں پر حملے جاری رکھے جو 1875 تک جاری رہے۔ مری 1864 تک پنجاب کا گرمائی دارالحکومت بھی رہا، اس کے بعد یہ شملہ منتقل کر دیا گیا جس کی وجہ یہاں پانی کی کمی تھی۔ مقامی لوگ جوہڑوں اور چشموں کا پانی استعمال کرتے تھے۔ اس سے اکثر ہیضے کی وبا پھوٹ پڑتی تھی جس کی وجہ سے کافی ہلاکتیں ہوتی تھیں۔ انگریزوں نے ڈونگہ گلی سے ایوبیہ تک ساڑھے چار کلومیٹر پائپ لائن بچھا کر یہاں پانی پہنچایا۔
1867 میں مری کو میونسپلٹی کا درجہ ملا۔ 20ویں صدی کے اوائل میں انگریزوں نے مری اور اس کے گرد و نواح جن میں کلڈنہ، گھڑیال، اپر اور لوئر ٹوپہ، نتھیا گلی میں بیرین اور کالا باغ کے مقام پر فوجی تنصیبات قائم کیں، جس کے بعد مری کو ناردرن کمانڈ کے گرمائی مرکز کی حیثیت ملی۔ اسی عہد میں مری میں انگریز بچوں کے لیے کئی سکول قائم کیے گئے جن میں لارنس کالج بھی شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دور میں مری میں فوج کی بیرکوں سمیت انگریز افسروں کے لیے جو گھر بنائے گئے وہ وکٹورین سٹائل کے تھے اس لیے اسی ’منی انگلینڈ‘ بھی کہا جاتا تھا۔ گرمیوں میں مری میں انگریزوں کے علاوہ پنجاب سے آنے والے سیاحوں کی بھیڑ بھاڑ ہو جاتی تھی۔ اس کے علاوہ جو یورپی سیاح سری نگر جاتے تھے وہ بھی مری میں ضرور قیام کرتے تھے۔ انگریز دور میں مری تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بھی بنا مگر زیادہ لاگت کی وجہ سے اس پر عمل نہیں ہو سکا۔
راولپنڈی کے گزیٹیئر 94-1893 میں درج ہے کہ ’مری سطح سمندر سے 7517 فٹ کی بلندی پر واقع ہے، جس کی آبادی 1768 افراد پر مشتمل ہے جس میں مئی سے نومبر تک سیاحوں کی وجہ سے خاصا اضافہ ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ پنجاب میں سب سے قریب ترین پہاڑی مقام ہے جو راولپنڈی سے تانگوں کے ذریعے پانچ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ یہاں گرمیوں میں دس ہزار کے قریب سیاح آتے ہیں۔‘
آج لوگ اسلام آباد سے پونے گھنٹے میں مری پہنچ جاتے ہیں مگر کبھی یہ فاصلہ تانگوں کے ذریعے طے ہوتا تھا۔ لطیف کشمیری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’پہلی جنگ عظیم سے پہلے انگریز سپاہی بھی مری پیدل ہی آیا کرتے تھے یا بیل گاڑیاں استعمال کرتے تھے۔ کچھ لوگ تانگوں پر آتے تھے اور راولپنڈی سے ایک پارسی سیٹھ دھنجی بائی کی تانگہ سروس چلتی تھی، ڈاک کا ٹھیکہ بھی اسی کے پاس تھا۔‘
کیا سانحۂ مری کی ذمہ داری مری والوں پر ڈالنا مناسب ہے؟
مری کے حالیہ واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر مری والوں کو خوب لعن طعن کی گئی اور لوگوں نے واقعات سنا کر تمام علاقے کی فطرت ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ یہ خبریں بھی آئیں کہ ہوٹل والوں نے پانچ ہزار روپے والے کمرے کے 60 ہزار روپے لے کر مجبور لوگوں کو لوٹا۔
لیکن دراصل مری اور گلیات کے علاقوں کے اکثر ہوٹل مری والوں کے نہیں بلکہ دوسرے علاقوں کے لوگوں کے ہیں، اس کا الزام مری والوں کو نہیں دیا جا سکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جہاں لوگوں سے زیادہ پیسے وصول کرنے کی مثالیں آئیں، وہیں یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ دیہات کے لوگوں نے اپنے دروازے پھنسے ہوئے مسافروں کے لیے کھول دیے اور مسجدوں میں لاؤڈ سپیکروں پر اعلان کرکے لیے ان کی مدد کے لیے مقامی لوگ سامنے آئے۔
اب بھی اصل سوال یہی ہے کہ شدید برفانی طوفان کی پیش گوئی کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں سیاحوں کو مری اور گلیات میں داخلے کی اجازت کیوں دی گئی؟