اسلام آباد ہائی کورٹ میں سانحہ مری کی تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے دائر درخواست پر جمعرات کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ڈسٹرکٹ پلان ہوتا، کوارڈینیشن ہوتی تو کوئی ہوٹل والا زیادہ پیسے نہیں لے سکتا اور نہ ایسا واقعہ رونما ہوتا۔ سب لگے ہیں کہ مری کے لوگ اچھے نہیں، ان کا کیا قصور ہے۔ یہ این ڈی ایم اے کی ناکامی تھی۔ مری والوں کا اس میں کیا قصور؟‘
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے این ڈی ایم اے کو وزیراعظم کو اجلاس بلانے کے لیے خط لکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ’اس قانون میں جتنے لوگ ہیں اور پوری ریاست مری میں مرنے والوں کی ذمہ دار ہے۔‘ اس کمیشن میں ریاست کا ہر طاقتور شخص موجود ہے ان کو کام کرنے دیں۔
سماعت کے آغاز میں وکیل اشراق عباسی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مفاد عامہ میں پٹیشن فائل کی گئی ہے اور درخواست گزار خود 7 جنوری کو مری گئے تھے۔
جب ٹول پلازہ سے سیاح مری جا رہے تھے تو کسی نے ان کو نہیں روکا نہ خدشے سے آگاہ کیا گیا۔ اس پر چیف جسٹس ریمارکس دیے کہ ’سیاح تو ہر سال اسی طرح مری جاتے ہیں۔‘
اسی دوران عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ کو روسٹرم پر طلب کیا اور نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) سے متعلق قوانین پڑھنے کی ہدایت کی۔
این ڈی ایم اے سے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اتنا بڑا انتظامی ڈھانچہ ہےجس میں سارے متعلقہ لوگ موجود ہیں اپوزیشن بھی ہے۔ کیا اتنے بڑے انتظامی ڈھانچے کا کبھی بھی کوئی اجلاس ہوا ہے؟
عدالت کے سوال کا ڈپٹی اٹارنی جنرل جواب نہ دے سکے تو عدالت نے این ڈی ایم اے حکام کو طلب کر لیا لہذا سماعت میں وقفہ کر لیا گیا۔
دن 11 بجے دوبارہ شروع ہونے والی سماعت میں عدالت نے رکن این ڈی ایم اے سے کہا کہ اپنا قانون بتائیں، یہ عدالت سمجھنا چاہتی ہے کہ ان 22 لوگوں کی ہلاکت کا ذمہ دار کون ہے؟
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر آپ سب پہلے سے تیار ہوتے تو وہ 22 لوگ جن میں نو بچے شامل ہیں جان سے نہیں جاتے۔
انہوں نے مزید استفسار کیا کہ این ڈی ایم اے کی کبھی کوئی میٹنگ ہوئی ہے؟ نومبر 2010 کے بعد کون سے اجلاس ہوئے ہیں وہ بتائیں؟
این ڈی ایم اے حکام کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ گذشتہ 11 سالوں میں این ڈی ایم اے کمیشن کے صرف دو اجلاس ہوئے ہیں۔ یہ سن کر چیف جسٹس نے کہا کہ کسی لیڈر آف دی اپوزیشن نے 2018 کے بعد آپ کو اجلاس طلب کرنے کی درخواست کی ہے؟
نمائندہ این ڈی ایم اے نے جواب دیا کہ 2018 کے بعد کسی بھی اپوزیشن رہنما نے ہمیں اجلاس بلانے کے لیے کوئی درخواست نہیں دی۔
اس پر چیف جسٹس نے مزید پوچھا کہ اتنا بڑا اور مضبوط ادارہ ہے کیا ڈائریکٹر این ڈی ایم اے نے کبھی وزیراعظم کو اجلاس طلب کرنے کے لیے لکھا؟
ریاست کا یہ حال ہے کہ 2010 سے 2021 تک صرف دو اجلاس ہوئے ہیں؟
مکالمے کے دوران نمائندہ این ڈی ایم اے نے جواب دیا کہ کرونا کے دنوں میں ڈی جی این ڈی ایم اے نے وزیراعظم کو میٹنگ بلانے کے لیے درخواست کی تھی۔
چیف جسٹس نے مزید پوچھا کہ آپ نے کوئی نیشنل پلان بنایا ہے؟ اتنا زبردست قانون ہے کہ ہر ضلعے کے ذمہ داروں پر ذمہ داری ڈالتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس ادارے کے اجلاس ہوں اور قانون پر عمل درآمد ہو۔ اگر قانون پر عمل درآمد ہوتا تو ایک بھی موت نہ ہوتی۔ کیا صوبائی اداروں کے کبھی اجلاس ہوئے ہیں؟
چیف جسٹس نے سوال در سوال میں مزید پوچھا کہ 2010 کے بعد ضلع راولپنڈی کا مری کے لیے کوئی پلان ہے؟
’آپ کا ادارہ بنایا ہی اسی لیے کہ آپ اس قانون پر عمل درآمد کرائیں لیکن آپ عدالت کے سامنے صوبوں پرسارا الزام لگا رہے ہیں۔ اس کیس میں تو کسی انکوائری کی ضرورت ہی نہیں۔ قانون پر عمل درآمد کرانا آپ کا کام تھا۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ نے این ڈی ایم اے کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ جس کی ذمہ داری بنتی ہے اس کےخلاف سخت ایکشن لیا جائے، کیا آپ کے چیئرمین نے یہ قانون پڑھا ہے؟ این ڈی ایم اے کمیشن کا ہر بندہ اس واقعے کا ذمہ دار ہے جنہوں نے قانون پر عمل درآمد نہیں کرایا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئندہ ہفتے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کا اجلاس طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئےسماعت 21 جنوری تک ملتوی کر دی۔
درخواست کا متن
مری کے رہائشی حماد عباسی نے بدھ کو دانش اشراق عباسی ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر درخواست میں موقف اپنایا کہ سانحہ مری میں ہلاک ہونے والے اے ایس آئی نوید کے اہل خانہ نے اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا لیکن وزیراعظم، وزیر داخلہ، پولیس حکام نے اطلاع کے باوجود کوئی ایکشن نہ لیا۔
25 ہزار سیاح کی گنجائش والے مری میں ایک لاکھ سے زائد سیاحوں کی اجازت کیوں دی گئی؟
تمام اعلیٰ حکام کا ایکشن نہیں لینا مجرمانہ غفلت ظاہر کرتا ہے۔ لہذا سانحہ مری کے تمام ذمہ داروں کے خلاف مجرمانہ غفلت کی کارروائی کی جائے۔
سانحہ مری کے بعد کیا ہوا؟
سات اور آٹھ جنوری کی درمیانی شب صوبہ پنجاب کے سیاحتی مقام مری میں شدید برفباری ہوئی تھی جسے دیکھنے کے لیے آنے والے ہزاروں سیاح برف میں پھنس گئے تھے۔ پھنس جانے والے سیاحوں میں سے کم از کم 22 گاڑیوں میں دم توڑ گئے تھے جن میں بچے بھی شامل تھے۔
وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے واقعے کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے تھی۔
حکومت پنجاب کی جانب سے جاری کیے جانے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق کمیٹی کے کنوینئر پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری ظفر نصراللہ جبکہ ارکان میں پنجاب حکومت کے دو سیکریٹریز علی سرفراز اور اسد گیلانی کے ساتھ ایڈیشنل آئی جی پنجاب فاروق مظہر ہوں گے اور مزید ایک رکن کو بھی مشاورت سے شامل کیا جا سکتا ہے۔
کمیٹی کو ان آٹھ سوالات کے جواب تلاش کرنے ہیں کہ کیا محکمہ موسمیات کی جانب سے متعدد موسمیاتی وارننگز جاری کیے جانے کے باوجود متعلقہ اداروں نے جن میں ضلعی انتظامیہ، پولیں، ٹریفک پولیس، قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے، کمیونیکیشن اینڈ ورکس اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی وغیرہ شامل ہیں بحرانی صورت حال سے بچنے کے لیے کوئی مشترکہ منصوبہ بنایا گیا تھا۔
آٹھوں سوالات کے جوابات تلاش کر کے تحقیقاتی کمیٹی کو سات دن میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’اس سانحے پر انتظامیہ کا جو ابتدائی تحقیقاتی موقف سامنے آیا ہے اس کے مطابق ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ ٹریفک کاؤنٹ رکھا جا رہا تھا، یہ کاؤنٹ ایک حد سے بڑھنے کے بعد اسے روکا بھی گیا۔ داخلی راستے بھی سیل کیے گئے۔ اس کے علاوہ برف ہٹانے والی مشینری بھی کام کر رہی تھی۔ لیکن یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ ان سارے انتظامات میں کہیں کوئی غفلت برتی گئی؟ اور اس کا ذمہ دار کون تھا؟ یہی جاننے کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب نے پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنائی ہے۔‘
مری میں برفباری کے نتیجے میں ہلاکتوں کے بعد مری کو ’آفت زدہ‘ قرار دے کر ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی۔
پنجاب پولیس نے ایک ٹویٹ میں بتایا تھا کہ مری کی بڑی شاہراہوں پر شدید برفباری، برفانی طوفان کی وجہ سے 20 سے 25 بڑے درخت گرے، جس سے راستے بلاک ہو گئے تھے۔
پاکستان کے سیاحتی مقام مری اور اس سے ملحقہ علاقوں میں گذشتہ دنوں پیش آنے والے حادثے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اتوار کو اعلان کیا تھا کہ مری کو پنجاب کا 37 واں ضلع بنانے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے حکم دیا تھا کہ مری میں ایس پی اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر فوری طور پر تعینات کیے جائیں۔
بعض حلقے مری کو ضلع کا درجہ دینے کے فیصلے کو اچھا قرار دے رہے ہیں جبکہ کچھ کو خدشہ ہے کہ اس سے اس سیاحتی مقام کی آبادی مزید بڑھے گی جس سے مزید مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ عثمان بزدار نے مری میں دو نئے پولیس سٹیشنز قائم کرنے کی بھی منظوری دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ سنی بینک اور جھیکا گلی میں دو پارکنگ پلازے قائم کیے جائیں گے تاکہ مری میں سیاحوں کے ہجوم کو کنٹرول کیا جاسکے۔