اس انوکھے، اچھوتے اور منفرد ملاکھڑے کو دیکھنے کے لیے آس پاس کے گاؤں اور دیہات کے باسی جوق در جوق پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔
ایک طرف مراد علی خاں صاحب تھے تو دوسری جانب جانو جرمن۔ امتحان یہ تھا کہ کون سب سے اچھی انگریزی بولتا ہے۔ مراد علی کی قابلیت اور اہلیت پر گاؤں کے ایک گروہ کو شک تھا کہ انہیں انگریزی آتی ہی نہیں۔ اسی لیے اس ملاکھڑے کا اہتمام کرایا گیا تاکہ دو دھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔
قصہ ہے 1987 کے اختتامی عرصے میں پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز سے نشر ہونے والے مختصر دورانیے کے ڈراما سیریل ’چھوٹی سی دنیا‘ کا جسے عبدالقادر جونیجو نے تحریر کیا تھا جبکہ ہدایت کاری کے فرائض ہارون رند نے انجام دیے تھے۔
یہ ڈراما سیریل پہلے سندھی زبان میں نشر ہوچکا تھا، جسے اب اردو زبا ن میں منتقل کر کے پورے پاکستان کے لیے پیش کیا جا رہا تھا۔
ڈرامے کی کہانی بہت سادہ اور آسان تھی۔ مراد علی خاں اندرون سندھ کا رہنے والا ایک عام سا باشندہ، جو ایک گورے صاحب کی جان بچاتا ہے تو وہ اس کی بہادری سے اس قدر متاثر ہوتا ہے کہ چھوٹے سے گاؤں کے اس شخص کو اپنے ساتھ سات سمندر پار لے جاتا ہے۔ وہاں وہ ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد واپس اپنے گاؤں کا رخ کرتا ہے۔ لیکن اب اس کا رہن سہن بول چال سب کچھ بدل چکے ہوتے ہیں۔
انگریزی اسے فر فر آتی ہے لیکن ایک مرحلے پر گاؤں کا ایک گروہ اس سے بدظن ہو جاتا ہے ۔ کچھ تو اسے ’جعلی انگریز‘ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ ایسے میں منصوبہ یہ بنایا جاتا ہے کہ مراد علی کی قابلیت کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے ملاکھڑے کا انتظام کیا جائے اور یہ ملاکھڑا، کشتی یا پہلوانی کا نہیں بلکہ انگریزی زبان کا ہوتا ہے۔
مراد علی خاں کے مقابلے میں کسی ایسے شخص کی کھوج ہوتی ہے، جس کا اوڑھنا بچھونا انگریزی ہو، جو فراٹے بھرتی انگریزی بولے، جس کے لبوں سے یہ بدیسی زبان پانی کی طرح بہتی ہو اور یہ شخص کوئی اور نہیں جانو جرمن ہی ہوتا ہے۔ اسے مراد علی خاں کے مقابل لاکھڑا کر دیا جاتا ہے۔ ہر ایک کو انتظار ہوتا ہے کہ کون انگریزی کے اس ملاکھڑے کا فاتح ٹھہرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سندھی ڈرامے میں ولایت پلٹ مرادعلی کا کردار قربان جیلانی نے ادا کیا تھا جبکہ جانو جرمن ماجد جہانگیر بنے تھے۔ اردو زبان میں جب اسے پیش کیا گیا تو مراد کا کردار یوسف علی کے پاس آیا جبکہ ڈرامے کے دیگر نمایاں ستاروں میں انور سولنگی، نور محمد لاشاری، سکینہ سموں، صلاح الدین تینو، قیصر نقوی اور روشن عطا شامل تھیں۔
ماجد جہانگیر امریکہ منتقل ہو چکے تھے۔ کئی فنکاروں نے جانو جرمن کے اس کردار کے لیے معذرت محض اس لیے کر لی تھی کہ کیونکہ پورے ڈراما سیریل میں گنتی کے تین سے چار مناظر تھے۔ بھلا کون چھوٹے سے کردار کے لیے اپنی توانائی ضائع کرتا۔ اسی لیے ہدایت کار ہارون رند کو جانو جرمن کے لیے کسی نئے اداکار کی تلاش تھی۔
اب اس ساری کہانی سے بےخبر ایک اداکار آفتاب عالم بھی تھے جو میمنی زبان کے سٹیج ڈراموں میں اداکاری کرتے تھے۔ جن کی بڑی خواہش تھی کہ کسی طرح پی ٹی وی کی سیر کی جائے۔ اس آرزو کو وہ ٹی وی کے کئی ساتھی فنکاروں کے سامنے بیان کر چکے تھے لیکن ہر کوئی ٹال مٹول سے کام لیتا۔
اسی عرصے میں ان کے میمنی زبان کے ڈرامے ’وکیل ٹمبکٹو‘ میں یوسف علی نے کام کیا جبکہ حاظرین میں پروڈیوسر ہارون رند بھی تھے۔ انہیں آفتاب عالم کی اداکاری پسند آئی تو یوسف علی کی بھی ہمت ہوئی کہ ’چھوٹی سی دنیا‘ میں ان کے لیے کردار کی بات کر سکیں۔
گرین سگنل ملتے ہی آفتاب عالم ایک دن اس ٹی وی سٹیشن پہنچ گئے، جسے اندر سے دیکھنے کی ان کی دلی تمنا تھی لیکن اب وہ سیر سپاٹے کے لیے نہیں بلکہ اداکاری کے لیے آئے تھے۔ آفتاب عالم کے سامنے جانو جرمن کا سکرپٹ لایا گیا تو اسے پڑھ کر ہی وہ حیران رہ گئے۔ مختصر سا کردار تھا، جس میں مکالمے بھی نہ ہونے کے برابر، لیکن آفتاب عالم نے اس کردار کو چیلنج سمجھ کر ادا کرنے کی ٹھان لی۔
آفتاب عالم کا ڈرامے میں پہلا ہی منظر وہ تھا، جس میں ان کے مکالمے ہی نہیں تھے۔ بس وہ اشاروں سے دل کا حال بیان کرتے۔ سر پر چھوٹی سی ٹوپی، ٹی شرٹ اور گلے میں مفلر نما رومال یہی جانو جرمن کا گیٹ اپ تھا۔ ان کے انداز کو دیکھ کر ناظرین کو یہی لگا کہ وہ واقعی مراد علی خاں کو اپنی انگریزی سے مات دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔
جب جانو جرمن کی باری آئی تو انہوں نے انگریزی کے تین الفاظ ڈیٹ، وائی اور ویئر وقفے وقفے سے بولے۔ مراد علی خاں پر انکشاف ہوا کہ انگریز ی بولنے کا دعویٰ کرنے والا جانو جرمن دراصل اس زبا ن سے واقف ہی نہیں ہے۔
گاؤں والوں کی طرح ناظرین کو بھی اس قسط کا انتظار تھا جب ’انگریزی کا ملاکھڑا‘ ہونا تھا اور پھر وہ دن بھی آ ہی گیا۔ ڈھول کی تھاپ بج رہی تھی۔ جج صاحبان بھی تھے اور ادھر جانو جرمن اور مراد علی خاں ایک چھوٹی سی میز پر آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ اس ملاکھڑے میں دونوں فریقین پر لازم تھا کہ وہ ایک دوسرے سے تین تین سوال پوچھیں گے لیکن انگریزی زبان میں اور پھر انگریزی ہی میں کوئی قصہ بھی بیان کریں گے لیکن شرط یہی تھی کہ اردو کا ایک بھی لفظ اس میں نہیں آنا چاہیے۔
ہر کوئی پہلو بدل کر بے چینی اور بے تابی سے انتظار کر رہا تھا۔ سب سے پہلے جانو جرمن کی باری آئی تو انہوں نے ایک ادا اور ایک منفرد انداز میں یکے بعد دیگرے انگریزی کے تین الفاظ ڈیٹ، وائی اور ویئر وقفے وقفے سے بولے۔ اب مراد علی خاں پر تو یہ انکشاف ہو جاتا ہے کہ انگریز ی بولنے کا دعویٰ کرنے والا جانو جرمن دراصل اس زبا ن سے واقف ہی نہیں ہے لیکن گاؤں والے جانو جرمن کے اس پراعتماد لہجے اور انداز پر انہیں داد دینے میں دیر نہیں لگاتے۔
قصہ مختصر کہ انگریزی سے بالکل نابلد جانو جرمن ہی دیہاتیوں کے نزدیک اس عجیب و غریب ملاکھڑے کے چیمپیئن ٹھہرتے ہیں اور انگریزی سے واقف مراد علی کو شکست ہو جاتی ہے۔
گو کہ ’چھوٹی سی دنیا‘ میں آفتاب عالم کا یہ مختصر سا کردار تھا لیکن انہوں نے اس میں اپنی آنکھوں اور چہرے کے تاثرات سے خوب کام لیا اور پھر جب مکالموں کی ادائیگی کی بات آئی تو وہ یہاں بھی چھا گئے ۔ صرف ایک ڈرامے سے وہ ’جانو جرمن‘ کے نام سے آج تک مقبول ہیں۔
آفتاب عالم کا کہنا ہے کہ انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ انہیں اس قدر پذیرائی ملے گی۔ یہاں تک کہ ناظرین نے ڈرامے کی آخری قسط تک جانو جرمن کا انتظار کیا لیکن ان کا قصہ ملاکھڑے کے بعد ختم ہی ہو گیا تھا۔
جانو جرمن کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو کے لیے ’چھوٹی سی دنیا‘ کا انگریزی میں ملاکھڑے والی سچوئشن کو میر پور خاص میں خصوصی طور پر سٹیج پر پرفارم کیا گیا۔ جب جانو جرمن کی انٹری ہوتی ہے تو وہ وزیراعظم سے مصافحہ بھی کرتا ہے اور پھر ہاتھ ہلاتا ہوا کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔
اس سچوئشن کے لیے محمد خان جونیجو کو پہلے سے اس لیے بھی بتادیا گیا تھا کہ کہیں ان کا سکیورٹی سٹاف کوئی فوری ردعمل نہ دے۔ محمد خان جونیجو کو آفتاب عالم کی اداکاری ایسی پسند آئی کہ وہ بعد میں برجستہ بولے کہ ’جانو جرمن نے میرا آج کا دن خوشگوار بنا دیا ہے۔‘
صرف محمد خان جونیجو ہی نہیں اس وقت کے وزیراعلیٰ سید غوث علی شاہ اور ان کی کابینہ کے لیے کراچی کی لیاقت لابرئیری میں ملاکھڑے کو لائیو سٹیج کیا گیا۔ جس پر وہ اس قدر خوش ہوئے کہ مرکزی کرداروں کو ڈنر پر مدعو کیا۔
آفتاب عالم کا کہنا ہے کہ ’چھوٹی سی دنیا‘ کی مقبولیت اسلام آباد میں موجود صدر ضیاء الحق تک پہنچی، جن کے لیے خصوصی شو کا اہتمام کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ نہ ہو سکا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط بھی نہ ہو گا کہ بہروپیوں یا دھوکے باز کے لیے ’جانو جرمن‘ ایک استعارے کی علامت بنا۔عام طور پر ایسے افراد کو اسی نام سے مخاطب کیا جاتا۔
اس ایک مختصر سے کردار کے بعد آفتا ب عالم پر کئی اور ڈراموں کے لیے ٹی وی کے در کھلے۔ انہوں نے بعد میں ’باادب ملاحظہ ہوشیار‘ اور ’چاند گرہن‘ جیسے شہرہ آفاق ڈراموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے لیکن جانو جرمن تو جیسے ان کا ٹریڈ مارک بن گیا۔ جس نے انہیں عمر شریف اور معین اختر کے ساتھ سٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا بھی موقع دیا۔
ڈرامے کے رائٹر مرحوم عبدالقادر جونیجو نے اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ اس ڈرامے پر ایک جرمن سکالر ڈاکٹر ہیلن پاسو نے جرمن زبان میں ’سمال ورلڈز‘ کے نام سے ایک مقالہ بھی لکھا تھا۔
آفتاب عالم کا کہنا ہے کہ ’چھوٹی سی دنیا‘ کی چھوٹی سی سچوئشن کو وہ دنیا بھر میں پرفارم کر چکے ہیں۔ آج بھی وہ کہیں سے بھی گزریں تو ان کے اصل نام کے بجائے ’جانو جرمن‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ اپنے کردار کی اس قدر شہرت میں وہ جہاں اپنی اداکاری اور محنت کو اس کا کریڈٹ دیتے ہیں، وہیں ڈرامے کے ہر اداکار کو جنہوں نے ان کی ہمت بندھائی۔
پی ٹی وی کے اس اچھوتے اور منفرد ڈراما سیریل کے بیشتر فنکار، مصنف اور معاون ہدایت کار اور ہدایت کار اب اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن آج بھی یہ ڈراما ’چھوٹی سی دنیا‘ کے بجائے ’جانو جرمن‘ کے ڈرامے کی بنا پر شناخت کیا جاتا ہے۔