جب حسینہ معین نے زندگی کے پہلے ایوارڈ کو واپس کرنے کی دھمکی دی

حسینہ معین کے ڈراموں کی پہچان ان کی ہیروئن ہوتی تھی جو عموماً آفت کی پرکارہ ہوتی اور اپنے برجستہ اور بے ساختہ جملوں سے سب کی ناک میں دم کر دیتی۔

حسینہ معین کے ڈرامے تنہائیاں کا ایک منظر (پاکستان ٹیلی ویژن)

شوخ و شنگ، کھلنڈری، سماجی روایات کے خلاف اور اوٹ پٹانگ حرکتیں کرکے چہروں پر مسکراہٹیں لانے والی دوشیزہ، یہی تو پہچان تھی حسینہ معین کے ڈراموں کی ہیروئن کی، جو سادگی اور بھولپن میں کچھ ایسا کرجاتی کہ ہر کوئی اس پر فدا ہونے کو تیار رہتا۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ حسینہ معین نے جہاں اپنے ڈراموں کے ذریعے صنف نازک کے وجود کو بھرپور انداز اور موثر روپ دیا، وہیں ان کے ڈراموں میں کہیں حسنات بھائی، کہیں ماموں اور کہیں قباچہ جیسے کردار ہوتے جو یہ باور کراتے کہ مرد بھی زندگی کی خوبصورتی اور تازگی لبریز ہیں، جن کے اندر حس مزاح کوٹ کوٹ کر رچی بسی ہوتی ہے۔

اسی طرح ان کے ڈراموں میں مردوں کی اصول پسند اور مہذبانہ فطرت کی جھلک بھی ملتی۔

حسینہ معین کا کہنا تھا کہ ان کے ڈراموں کے بیشتر کرداروں کا تعلق کسی نہ کسی طرح ان کی زندگی میں آنے والے افراد سے رہا ہے جو صنف نازک کے لیے مسائل نہیں بلکہ ان کے معاون بنتے۔ بھارتی شہر کانپور میں آنکھ کھولنے والی حسینہ معین کا خاندان تقسیم ہند کے بعد پاکستان آ کر آباد ہوا۔

مختلف شہروں میں ہجرت کی اور اس خاندان کو کراچی اس قدر پسند آیا کہ مستقل طور پر یہیں بس گیا۔ یہیں سے حسینہ معین کا قلمی سفر بھی شروع ہوا۔ بچوں کے اخباراور جرائد میں چھوٹی موٹی تحریریں شائع ہوتی رہتیں۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے رکھتے وہ ایک منجھی ہوئی رائٹر کا روپ دھار چکی تھیں۔

کالج میگزین میں اکثر و بیشتر ان کی نگارشات زینت بنتی رہتیں۔ سکینڈ ایئر میں زیر تعلیم تھیں تو اسی دوران ریڈیو پاکستان کراچی مرکز نے سبھی کالجوں کے درمیان ڈراما لکھنے کے مقابلے کا اہتمام کیا۔

حسینہ معین کی اردو کی ٹیچر مسز شان الحق حقی نے ان پر زور دیا کہ وہ بھی اپنے کالج کے لیے ڈراما لکھیں۔ حسینہ معین نے کوئی دو ڈھائی دن میں یہ ڈراما لکھ کر ریڈیو پاکستان کے اس مقابلے کے لیے جمع کرادیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حسینہ معین کے لکھے ہوئے اسی ڈرامے نے پہلی پوزیشن حاصل کی اور ان کے کالج کو ایوارڈ بھی ملا۔

حسینہ معین کے اس ریڈیو ڈرامے کو آغا ناصر نے پروڈیوس کیا تھا۔ حسینہ معین کو ایوارڈ تو مل گیا لیکن اصل تنازع کا آغاز بھی اسی ڈرامے پر شروع ہوا۔ کئی لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ ڈراما کسی صورت کوئی طالبہ نہیں لکھ سکتی صرف حسینہ معین کا نام دیا گیا ہے، ڈراما کسی اور نے لکھا ہے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ اس میں اتنے پرتاثر مکالمات ہیں جنہیں کوئی کم عمر لڑکی لفظوں کا روپ نہیں دے سکتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی ڈرامے پر تنقید جب زیادہ بڑھی تو ریڈیو حکام نے تحقیقات کرانا شروع کیں۔ آغا ناصر، رضی اختر شوق اور ذاکر حسین کی صورت میں ریڈیو کا ایک وفد حسینہ معین کے کالج آیا۔

پرنسپل کے دفتر میں پہلے مسز شان الحق حقی سے پوچھ گچھ ہوئی تو انہوں نے حسینہ معین کے حق میں گواہی دی اور بتایا کہ وہی بہترین لکھاری ہیں جن کی تحریریں مختلف جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں اور انہی سے خاص طور پر یہ ڈراما تحریر کروایا گیا تھا۔

پھر حسینہ معین کو طلب کیا گیا، جنہیں دیکھ کراس وفد کو گمان ہونے لگا کہ واقعی جو وہ سو چ رہے ہیں وہ درست ہے۔ یہ چھوٹی سی لڑکی کیسے اس قدر حساس موضوع کا ڈراما لکھ سکے گی۔ حسینہ معین سے یہ دریافت کیا گیا کہ کیا واقعی انہوں نے یہ ڈراما لکھا ہے۔

اس پر حسینہ معین کا پارہ بھی اپنے ہی ڈرامے کی کسی تنک مزاج ہیروئن کی طرح چڑھ گیا۔ انہوں نے تنگ کر دھمکی دی کہ ’اگر کسی کو یہ لگتا ہے کہ انہوں نے یہ ڈراما نہیں لکھا تو ایوارڈ سامنے رکھا ہے، اسے لے جاسکتے ہیں۔‘

حسینہ معین کے پراعتماد لیکن جلالی انداز کو دیکھ کر وفد نے تسلیم کیا کہ ان کی سوچ غلط تھی، یہ ڈراما حسینہ معین نے ہی لکھا ہے۔

اس واقعے کے بعد حسینہ معین نے ریڈیو کے لیے کئی اور ڈرامے لکھے جنہوں نے ان کی شہرت میں اضافہ کیا۔ اسی دوران 1964 میں جب ٹی وی نشریات کا آغاز ہوا تو حسینہ معین کو بھی بلا کر کہا گیا کہ وہ عید کے لیے کوئی ڈراما لکھے، جبھی انہوں نے ’ہیپی عید مبارک‘ لکھا جو طنز و مزاح سے بھرپور تھا۔ اس میں نیلوفر علیم اور شکیل احمد نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔

یہ ڈراما خاصا مشہور ہوا اور جب پی ٹی وی کے ایم ڈی کراچی آئے تو انہوں نے فنکاروں کے ساتھ ساتھ حسینہ معین کو بھی ایک لفافے میں دو سو روپے بطور انعام دیے۔ حسینہ معین نے یہ لفافہ ایک طویل عرصے تک سنبھال کر رکھا۔

حسینہ معین کی شہرت اور کامیابی کا اصل سفر 70 کی دہائی سے شروع ہوا جب ’شہزوری،‘ ’انکل عرفی‘ اور ’کرن کہانی‘ نشر ہوئے۔ ان ڈراموں نے جیسے حسینہ معین کو نئی شناخت دی اور پھر حسینہ معین جیسے ٹی وی ڈراموں کی ضرورت بن گئیں۔

بھلا ’تنہائیاں،‘ ’دھوپ کنارے،‘ ’بندش،‘ ’پڑوسی‘ اور ’کسک‘ کو کون بھول سکتا ہے؟ حسینہ معین کے ڈراموں میں کام کرنے والی فنکارائیں راتوں رات شہرت پاتیں، چاہے وہ نیلوفر علیم ہوں، روحی بانو، شہلا احمد، شہناز شیخ یا پھر مرینہ خان۔

حسینہ معین صرف ڈراما لکھنے میں ہی اپنی توانائی صرف نہیں کرتی تھیں بلکہ اپنے کرداروں کے لیے فنکاروں کی تلاش بھی خود کرتیں۔ فنکاروں کے انتخاب کے معاملے میں پروڈیوسر حسینہ معین کی رائے کو خاص اہمیت دیتے۔

یہاں تک کہ بعض دفعہ ان کے لکھے ہوئے ڈراموں کے پروڈیوسر تک ان کی پسند کے مطابق ہوتے، اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی وی کے پہلے رنگین ڈرامے ’پرچھائیاں‘ کی پہلی پائلٹ قسط جب انہوں نے دیکھی تو انہیں اس بات کا افسوس ہوا کہ ان کے سکرپٹ کے ساتھ پروڈیوسر نے انصاف نہیں کیا۔

جبھی حسینہ معین کے احتجاج پر پی ٹی وی حکام نے پروڈیوسر کر تبدیل کر کے محسن علی کو ہدایت کاری کے لیے چنا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے انکار نہیں کہ حسینہ معین کے ڈراموں میں رشتوں کی مٹھاس ملتی تو وہیں زمانے کی تلخی بھی۔ کرداروں کی نوک جھوک بھی ہر ایک کا دل موہ لیتی۔ بالخصوص ان کی ہیروئن آفت کی پرکارہ ہوتی جو برجستہ اور بے ساختہ جملوں کی بہار لے آتی۔

حسینہ معین کا یہ قلمی سفر صرف ڈراموں تک محدود نہیں تھا۔ بلکہ انہوں نے پاکستانی فلموں ’یہاں سے وہاں تک،‘ ’نزدیکیاں‘ اور ’کہیں پیار نہ ہو جائے‘ کے لیے بھی سکرین پلے اور مکالمات لکھے۔

حسینہ کے ڈراموں نے سرحد پار بھی مقبولیت حاصل کی۔ جبھی تو آنجہانی راج کپور نے اپنی فلم ’حنا‘ کے مکالمات بطور خاص حسینہ معین سے لکھوائے۔ حسینہ معین کے مشورے پر زیبا بختیار کو اس فلم میں شامل کیا گیا۔

 حسینہ معین نے ٹی وی ڈراموں میں کمرشل ازم آنے کے بعد لکھنا کم کر دیا تھا۔ انہیں اس بات کا گلہ رہتا کہ ڈراموں میں اب ہیروئن کو صرف شو پیس کے طور پر دکھایا جا رہا ہے اور ڈراموں کی کہانیاں صرف ڈرائنگ روم تک قید ہو کر رہ گئی ہیں۔ وہ کہتیں کہ اب ڈراما، ڈراما نہیں رہا جسے پورے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جائے۔

حسینہ معین تو اس بات پر دل گرفتہ اور دل برداشتہ ہو گئی تھیں جب انہوں نے اپنے شہرہ آفاق ڈرامے ’تنہائیاں‘ کا دوسرا سیزن نجی ٹی وی چینل پر دیکھا۔ حسینہ معین نے یوں تو بے شمار ملکی اور غیر ملکی ایوارڈز حاصل کیے لیکن ان کا کہنا تھا کہ جب انہیں 1987 میں حکومت کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا تو انہیں پہلی بار محسوس ہوا کہ ان کے اب تک کے کاموں کو صلہ اس ایوارڈ کی صورت میں مل گیا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی