یہ 30 مئی 1593 کی شام ہے اور نوجوان ولیم شیکسپیئر انگلینڈ کا سب سے بڑا زندہ ڈراما نگار بننے والا ہے کیوں کہ اس کا چوٹی کا حریف کرسٹوفر مارلو ڈیپ فورڈ علاقے کے ایک بورڈنگ ہاؤس میں خنجر کی لڑائی ہار رہا ہے۔ 12 پنی کے خنجر کا بلیڈ مارلو کی کھوپڑی میں دائیں آنکھ سے دو انچ اوپر داخل ہو کر دماغ کے اندر دو انچ گہرائی تک اتر جاتا ہے جس سے الزبیتھن عہد کو اپنے سحر میں مبتلا کرنے والا شاندار تخیلاتی دماغ آن کی آن میں بجھ کر رہ جاتا ہے۔
کرسٹوفر مارلو مر چکا ہے۔ اس کی لاش کے پاس تین خون آلودہ شخص کھڑے ہیں۔ ان کے نام انگرم فریزر، نکولس سکیرس اور رابرٹ پولی ہیں اور اس وقت سے آج تک آنے والے مورخین کی بڑی تعداد ان کے درمیان اس وقت ہونے والی بات چیت سننا چاہے گی کیوں کہ یہ الزبیتھن عہد کی جاسوسی کے گھناؤنے انڈر ورلڈ کے چہرے سے نقاب نوچ ڈالے گی۔ اس میں شاید ہی شبہے کی گنجائش ہو کہ اپنے قاتلوں کی طرح مارلو بھی ایک جاسوس تھا۔
اگر قتل کی یہی واردات ایک سال پہلے وقوع پذیر ہوتی تو ممکنہ طور پر فریزر، سکیرس اور پولی کو اچھی خاصی مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا۔ کبھی مارلو کو انگلینڈ کے طاقتور ترین افراد کا تحفظ حاصل تھا لیکن گذشتہ چند ماہ کے دوران وہ عزت و تکریم کے آسمان سے زوال کی گہرائیوں میں آ گرا تھا۔
اپنی موت کے وقت کرسٹوفر مارلو الحاد کے الزام میں چلنے والے مقدمے کی سماعت کا منتظر تھا، ایک ایسا سنگین جرم جو جسمانی تشدد سے پھانسی کے پھندے تک پہنچا سکتا تھا۔ کبھی انٹیلیجنس کا انتہائی قیمتی اثاثہ مارلو اب ایک شرمناک بوجھ بن چکا تھا۔
فریزر، سکیرس اور پولی جانتے تھے کہ اگر وہ اپنے اعصاب برقرار رکھتے ہوئے منطقی غلطی کیے بغیر بات بنا لیتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ انہیں جیل کاٹنا پڑے۔ بعد میں اس قتل کی تفتیش کرنے والے پولیس افسر ولیم ڈینبی نے واقعے کی تمام تفصیلات ویسے ہی من و عن قبول کر لیں جیسے ان تینوں نے بیان کی تھیں۔
یہ تفصیلات کچھ یوں ہیں: بدھ 30 مئی کو دن ایک بجے مکان پر اکٹھے ہونے کے بعد چاروں دن بھر ساتھ رہے جہاں انہوں نے مل کر دوپہر کا کھانا کھایا، باغات کی سیر کی اور پھر شام کو پیٹ کی آگ بجھائی۔ شام کے ایک غیر متعین وقت ان کے درمیان اس بات پر بحث چھڑ گئی کہ دن بھر کے کھانا کا بل کسے ادا کرنا چاہیے، بستر میں لیٹا ہوا مارلو اٹھ کر فریزر کا 12 پنی والا خنجر پکڑ لیتا ہے اور اس کے دستے سے فریزر کے سر اور چہرے پر حملہ کر دیتا ہے۔ اسی ہاتھا پائی کے دوران پولی اور سکیرس خنجر چھینے کے لیے مداخلت کرتے ہیں اور فریزر مارلو کو ایک کاری ضرب لگاتا ہے۔
مارلو کو ڈیپ فورڈ کے چرچ کے احاطے میں دفن کیا گیا اور چند ہفتوں کے اندر اندر فریزر کی یہ بات تسلیم کر لی جاتی ہے کہ یہ قتل اپنا دفاع کرتے ہوئے سرزد ہو گیا، اسے شاہی معافی مل گئی اور کم از کم سرکاری طور پر معاملہ وہیں داخل دفتر ہو گیا۔
اگر مارلو کے دوستوں میں سے کسی کو مارلو کے قتل میں کسی سوچی سمجھی سازش کی بو آتی تب بھی وہ اپنا منہ بند رکھتا کیوں کہ اس زمانے کا لندن پیشہ ور مخبروں اور جاسوسوں کے جال سے اٹا پڑا تھا جو بظاہر سرکار کے لیے کام کر رہے تھے۔
مورخین الزبیتھن عہد کی انگلینڈ کی ہنگامہ خیزی کا موازنہ 1950 کی دہائی میں امریکہ کے اندر میکارتھی ازم کی سرخ لہر کے خوف سے کرتے ہیں۔ جیسے امریکہ اپنے ملک کے کمیونسٹوں کو سوویت یونین کے حملے کے لیے راستہ ہموار کرنے والے ’اپنی صفوں میں شامل دشمن‘ سمجھتا تھا ویسے ہی ملکہ الزبتھ کی ریاستی پولیس کیتھولک سازشوں کے متعلق بدگمانی رکھتی تھی اور ان کے پاس ایسا سوچنے کی معقول وجوہات بھی تھیں۔
ایک اصلاح شدہ پروٹیسٹنٹ قوم کے طور پر کیتھولک سپر پاور سپین کے زیر تسلط یورپ میں انگلینڈ الگ تھلگ رہ گیا تھا۔ سپین کا عسکری حملہ تو پسپا ہو سکتا تھا لیکن کیتھولک شورش ایک جیتا جاگتا خطرہ تھی جیسا کہ ایک دہائی بعد رابرٹ کیٹسبی کی جانب سے برطانوی پارلیمان کو بارود سے اڑا دینے کی سازش نے ثابت کیا۔
ایک ایسے ملک میں جہاں کیتھولک چرچ سے ہمدردی رکھنے والے سینکڑوں افراد پر نظر رکھنے کے لیے ریاست نے مخبروں کی ایک پوری غیرمنظم فوج چھوڑ رکھی تھی وہاں جاسوسی ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی صنعت تھی۔
خفیہ معلومات ایسی ضروری چیز تھی کہ الزبتھ کے جاسوسی نظام کے ماسٹر مائنڈ فرانسس والسنگم کی موت کے بعد لارڈ برگلی اور ارل آف ایسکس نے انٹیلی جنس کے حریف نیٹ ورکس قائم کر لیے جو ایک دوسرے کی جاسوسی کرتے تھے۔
مارلو کی زندگی میں مذہب کا بہت اہم کردار رہا۔ کینٹربری کیتھڈرل کے سائے میں جنم لیا، یہاں تک کہ کیمرج کے لیے مارلو کو ملنے والا سکالرشپ بھی پروٹیسٹنٹ کی ڈوری سے بندھا تھا۔ اس سکالرشپ کے تحت تعلیم کی سہولت کے بدلے آرچ بشپ پارکر سکالرز سے گریجویشن کے بعد پادریوں میں شامل ہونے کی توقع کی جاتی تھی لیکن صاف نظر آتا تھا کہ مارلو اس ڈھب کا آدمی نہیں۔
مارلو کو نہ صرف یہ کہ یونیورسٹی میں رہتے ہوئے تھیئٹر سے دلچسپی پیدا ہو گئی بلکہ اس نے اپنے لیے ایک خطرناک کام بھی چن لیا۔ جدید دور کے بہت سے جاسوسوں کی طرح مارلو کو کیمبرج میں دوران تعلیم بطور جاسوس بھرتی کر لیا گیا تھا۔ طلبہ کے کھانے پینے کے حساب والے مخصوص رجسٹر میں پراسرار طور پر طویل غیر حاضریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ 1584 کے بعد سے جب اسے کارپس کرسٹی کالج میں اپنی ماسٹرز کی ڈگری مکمل کرنی چاہیے تھی تب کہیں اور غائب تھا۔ جب مارلو، جو ایک موچی کا بیٹا اور وظیفے پر پلنے والا نوجوان تھا، واپس لوٹ تو اس کی جیبیں بھری ہوئی تھیں۔
1587 میں یونیورسٹی نے مارلو کی ڈگری روکنا چاہی کہ وہ گریجویشن کے بعد رائمز جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
رائمز شمالی فرانس کا وہ قصبہ تھا جہاں ایک کیتھولک مدرسے نے مذہبی پابندیوں کے سبب بھاگ کر آنے والے نوجوان انگریزوں کے لیے باقاعدہ رکن بننے کی سہولت کا بندوست کر رکھا تھا۔
اس موقعے پر ایک غیر معمولی مداخلت ہوئی اور انگلستان کی طاقتور مشیروں کی اسمبلی پریوی کونسل نے یونیورسٹی کو یقین دلاتے ہوئے لکھا کہ رائمز میں مارلو ایسے ’معاملات میں الجھا رہا جو ہمارے ملکی مفاد میں تھے‘ اور اس نے ’اچھی خدمات‘ سرانجام دی ہیں۔ اس بات کا مطلب واضح ہے کہ کیتھولک مذہب اختیار کرنے کا ڈراما رچاتے ہوئے مارلو کیتھولک مذہب اختیار کرنے والوں اور ملک کے لیے ممکنہ طور پر خطرہ بننے والوں کی جاسوسی کر رہا تھا۔
بڑے بڑے عہدوں پر فائز اپنے دوستوں کی بدولت مارلو نے بہت جلد ایم اے کی ڈگری حاصل کر لی۔ عملی طور پر متحرک ایک تجربہ کار جاسوس اور کیتھولک بن کر ان کی سازشوں کا پردہ چاک کرنے والے فرد کے طور پر کیمبرج چھوڑنے کے بعد لندن جا کر مشہور شاعر اور ڈراما نویس بننے وقت مارلو نے جاسوسی کی دنیا میں سرکاری خدمات جاری رکھیں۔
سکیورٹی سروسز نے تھیئٹر کمیونٹی کو ایسے ناقابل قبول مراکز کے طور پر دیکھا جہاں سے انقلابی اور آزادانہ سوچ کی نشوونما ہو رہی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان حلقوں میں اٹھنے بیٹھنے سے مارلو ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوتا۔ لارڈ سٹرینج اور سر والٹر رالی جیسے معروف مفکرین اور انقلابیوں سے اس کی دوستی جزوقتی ملازمین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتی۔
لیکن لندن کے سٹیج پر اس کی ابتدائی کامیابیاں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مارلو کے الجھے اور بگڑے ہوئے تعلقات کو ظاہر کرتی ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب سماجی خواہشات کو برا سمجھا جاتا تھا مارلو کے کرشماتی ’ہیروز‘ صاحب اقتدار لوگوں کی نسبت زیادہ پرعزم اور اقتدار کو حقارت سے دیکھنے والے تھے۔
مارلو کا طاقتور تیمور لنگ دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی جستجو میں ایک چرواہے کے معمولی سماجی پس منظر سے اٹھتا ہے۔ پوری دنیا پر اپنا سکہ چلانے کی خواہش اسے فارس، ترکی اور یورپ پر حملہ کرنے کے لیے اکساتی ہے۔ ایک منظر میں تیمور اس طرح سٹیج پر نمودار ہوتا ہے کہ اس کا رتھ مفتوح بادشاہ کھینچ رہے ہوتے ہیں۔ ایک اور معزول بادشاہ پنجرے میں بند کر کے اسے پاؤں کی چوکی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
’تیمور لنگ‘ ڈرامے نے اتنی بڑی تجارتی کامیابی حاصل کی کہ اس کے ایک سیکوئیل کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی جو ایک ناقابلِ تسخیر عروج کا مترادف بن کر ابھرا، ایک طاقت جس کے سامنے بند باندھا مشکل تھا۔ حکومتی سینسر شپ کے اس دور میں جب تھیئٹر کے سامعین ہر طرف سے نگرانی کرنے والے جاسوسوں میں گھرے ہوئے تھے، جن کا کام سامعین کے درعمل میں ممکنہ بغاوت کے خطرے کو بروقت نوٹ کرنا تھا، وہاں مارلو ایک خطرناک کھیل کھیل رہا تھا۔
اس کے باوجود جنوری 1592 تک کے زمانے میں مارلو پریوی کونسل کی مدد پر بھروسہ کر سکتا تھا تاکہ اسے اس کی خطرناک مہم جوئی سے نکال سکے۔ جب اسے جعلی سکے بنانے کے الزام میں نیدرلینڈز کے شہر فلشنگ میں پکڑ کر ملک بدر کر دیا گیا تو اسے غداری کے سنگین الزامات کا سامنا تھا لیکن ایک بار پھر پریوی کونسل نے کہا کہ وہ ’سرکاری کام پر‘ ہے۔
لیکن موت سے ایک سال قبل جب مارلو کے بارے میں الحاد کی افواہیں نظر انداز کرنا ناممکن ہوچکا ہوگا تب اس کے قابل اعتماد اثاثہ ہونے کے حوالے سے خدشات بڑھ چکے ہوں گے۔
1592 کے اوائل میں پہلی مرتبہ پیش کیے گئے ڈرامے ’جیو آف دی مالٹا‘ کے پیش لفظ میں سماجی کنٹرول کے لیے مذہب کا بطور آلہ استعمال مسترد کرنے کے لیے مارلو نے اپنے دل کی باتیں اطالوی فلسفی میکیاولی کی زبان سے کہیں۔ ’میں مذہب کو ایک بچگانہ قصے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا، اور یاد رکھو سب سے بڑا گناہ جہالت ہے۔ ایسی فضولیات سن کر مجھے شرم آتی ہے۔‘ مارلو کا ممکنہ طور پر ملحد ہونا اتنے وسیع پیمانے پر مشہور ہو گیا کہ ستمبر 1592 میں شائع ہونے والے مشہور پمفلٹ میں اسے اشتعال انگیزی پھیلانے کے الزام کے طور پر پیش کیا گیا۔ رابرٹ گرین کی کتاب ’گروٹس ورتھ آف وٹ‘ میں شیکسپیئر کے ساتھ ساتھ مارلو کو بھی خوب برا بھلا کہا گیا تھا۔ شیکسپیئر کو طنزیہ طور پر ’upstart crow‘ کہا جانے لگا جب کہ جبکہ مارلو کو میکیاولی کا ملحد پیروکار قرار دیا گیا۔
مارلو کی موت سے کچھ ہفتے پہلے یہ شک مزید پختہ ہو رہا ہو گا کہ عملی طور پر متحرک بہت سے کاؤنٹر انٹیلی جنس افسران کی طرح مارلو بھی شتر بے مہار ہو چکا ہے۔
مارچ 1593 میں مارلو کے خلاف پہلا سخت ثبوت سامنے آیا۔ رچرڈ کولمیلی کے بارے میں تحقیقات نے مارلو کو ایک ملحد کے طور پر پھنسا دیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اس نے آزاد خیال مفکرین اور انقلاب پرستوں کی ایک مجلس میں خطاب بھی کیا تھا۔
لیکن یہ سماج میں بڑھتی ہوئی بدامنی کے خدشات تھے جنہوں نے مارلو کے زوال کی بنیاد رکھی۔ اپریل میں لندن کی سڑکوں پر ہالینڈ سے آنے والے احتجاجی تارکینِ وطن کے خلاف تشدد پر اکسانے والے اولین پلے کارڈ دکھائی دینے لگتے ہیں۔ پریوی کونسل ان ’اشتہاروں‘ کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کرنے پر بہت فکرمند تھی جنہیں امن و امان کے لیے ایک سنگین خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔
پانچ مئی کو براڈ سٹریٹ میں واقع ڈچ چرچ کے باہر ڈچ پناہ گزین مظاہرین کے خلاف تشدد پر اکسانے والا اشتہار چسپاں کیا گیا۔ اس میں مارلو کے ڈراموں کی طرف اشارے موجود تھے اور نیچے دستخط تیمور لنگ کے کیے گئے تھے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے تارکین وطن غیر ملکیوں کے خلاف نفرت کے جذبات کو کیتھولک فسادات سے الگ کرنا اور فوری طور پر عملی اقدامات کرنا مشکل ہو رہا تھا جس کا مطلب ہے وہ لندن کی سڑکوں پر اختیار کھو دینے سے خوفزدہ تھے۔
12 مئی کو حکام نے مارلو کے سابق روم میٹ اور معاصر ڈراما نگار ٹامس کِڈ کے گھر پر چھاپہ مارا۔ وہاں سے ایسی مجرمانہ دستاویزات برآمد ہوئیں جو ’مسیح کی الوہیت‘کی منکر تھیں۔ ان میں حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ پر الزامات لگائے گئے تھے۔ ان میں وہ بدنام زمانہ جملہ بھی درج تھا کہ ’جو لوگ تمباکو نوشی اور لڑکوں کو پسند نہیں کرتے وہ پرلے درجے کے احمق ہیں۔‘ تشدد کی وجہ سے کڈ نے مارلو کو ملحد اور ان دستاویزات کا مالک قرار دے دیا۔
مارلو کو الحاد کے الزام میں گرفتار کر کے 20 مئی کو پریوی کونسل کے سامنے پیش کیا گیا۔ اسے جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ روزانہ عدالت میں اپنی حاضری لگوائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انٹیلی جنس سروسز میں سابق کولیگ رچرڈ بینز نے 27 مئی کو پریوی کونسل کے سامنے ایک مختصر دستاویز پیش کی جس میں مارلو کی گستاخیاں مزید تفصیل سے درج تھیں۔ تین دن بعد مارلو مبہم وجوہات کی بنا پر اپنے تین انٹیلی جنس کے دوستوں کے ساتھ ڈیپ فورڈ سٹریٹ میں دن گزارتا اور پھر موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔
یہ ایک اچھی طرح سے بُنی ہوئی کہانی ہے جس میں ہماری معلومات کی نسبت رخنے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ جاننا آسان ہے کہ اس کے گرد اس قدر کثرت سے سازشی نظریات کا جال کیوں بنا گیا۔ ممکنہ طور پر الحاد کے الزامات پر تحقیق کے دوران مارلو کو تشدد بھی سہنا پڑا ہو گا۔
کیا سکیورٹی سروسز کو خدشہ تھا کہ وہ انقلابیوں کے سامنے کچھ راز نہ اگل ڈالے؟ کیا اسے سر والٹر رالی کے ملحد ہونے کے بارے میں شہادت دینے سے انکار کی وجہ سے مار دیا گیا؟ کیا اسے محض اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا کہ اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا؟
مارلو کی موت کے بارے میں سب سے عجیب و غریب نظریہ یہ پیش کیا گیا کہ مرا ہی نہیں تھا بلکہ اسے چھپ چھپا کر ملک سے نکال کر یورپ پہنچا دیا گیا تھا جہاں بیٹھ کر خفیہ طور پر وہ ڈرامے لکھتا رہا جو بعد میں شیکسپیئر سے غلط طور پر منسوب کر دیے گئے۔
لیکن بے بنیاد نظریہ سازوں کو غالباً یاد رکھنا چاہیے کہ ایسی بھدی اور بےڈھنگی وارداتیں سازشی نظریات کی نسبتاً زیادہ کثرت سے رونما ہوتی رہتی ہیں اور یہاں تک کہ فریزر، سکیرس اور پولی جیسے پیشہ ور جھوٹے بھی بعض اوقات سچ بولتے ہیں۔ بہرحال اگر انہوں نے مارلو کو ٹھکانے لگانے کا پہلے سے تہیہ کر رکھا ہوتا تو اس کام سے کسی اور جگہ زیادہ خاموشی سے نمٹا جا سکتا تھا۔
دراصل واقعات کا سرکاری روپ ان لوگوں کے لیے درست ہو گا جو مارلو کے کردار اور حالات کو سمجھتے ہیں۔ ایک ہی کام کے سلسلے میں اکٹھے چار دوست جن کا آپس میں کوئی بہت گہرا تعلق نہیں تھا وہ دن بھر شراب پینے کے بعد شام کو آپس الجھتے اور رقم کی خاطر جھگڑ پڑتے ہیں۔
جہاں تک معمولی رقم کے لیے مہلک لڑائی کی بات ہے تو مارلو اس کا عادی تھا۔ مارلو اور اس کے ساتھی ڈراما نگار ٹامس واٹسن نے ولیم بریڈلی کو قرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے قتل کر ڈالا تھا۔ ذاتی دفاع کے عذر پر ضمانت ملنے سے قبل 1589 میں 12 دن تک مارلو کو نیوگیٹ جیل کی ہوا کھانا پڑی تھی۔ اس کے علاوہ محض چند ماہ قبل کینٹربری میں خنجر کی ایک لڑائی کے بعد مارلو کو پرامن رہنے کے وعدے پر ضمانت نامہ بھرنے کے بعد چھوڑا گیا تھا۔
مارلو کی ایک تصویر ایک چڑچڑے اور جذباتی نوجوان کے طور پر ابھرتی ہے جو شراب کے نشے میں دھت ہو کر دنگا کرتا رہتا ہے۔ لیکن کرسٹوفر مارلو کی زندگی میں جو موضوع مستقل رہا وہ ہے غربت۔ کیمبرج میں سکالرشپ کے دنوں سے موچی کا بیٹا مارلو امیر لوگوں میں گھل مل تو گیا لیکن اس کے پاس کبھی بھی اپنی جائیداد یا قابل قدر وسائل نہیں تھے۔
اپنی نسل کے کامیاب ترین ڈراما نگار ہونے کے باوجود مارلو کی حیثیت معمولی ہی رہی۔ مارلو پیشہ ور ڈراما نگاروں کی اس پہلے پیڑھی کا حصہ تھے جو غربت میں مر گئے کیونکہ وہ ابھی تک ڈراما پیش کرنے والی کمپنیوں کے حصہ دار نہیں بنے تھے۔ حصہ داری والا بزنس ماڈل بعد میں شیکسپیئر نے اختیار کیا جس نے اس کی زندگی آسان کر دی۔
یہاں تک کہ اپنی زندگی کے آخری دو برسوں میں تھیئٹر سے حاصل ہونے والی تھوڑی بہت رقم سے بھی مارلو محروم رہا کیوں کہ طاعون پھیلنے کے سبب اس دوران زیادہ عرصہ تھیئٹر بند ہی رہے۔
مارلو شہرت اور بدنامی سے تو واقف تھا لیکن دولت سے کبھی نہیں۔ ممکنہ طور پر فلشنگ میں سکوں کی جعل سازی فوری دولت مند ہونے کی ایک اور حکمت عملی تھی جو ناکام ثابت ہوئی۔ دولت مند سرپرست حضرات وقتی طور پر قرض دہندگان کو دور رکھنے کے لیے تعاون کرتے ہوں گے لیکن مارلو الزبتھن عہد کے عدم تحفظ کا شکار طبقے کا حصہ تھا جس وجہ سے اسے کبھی کبھار سکیورٹی سروسز کی ملازمت کرنا پڑتی تھی۔ جاسوسی کوئی مسحور کن کھیل نہیں تھا جسے شوقین افراد کھیلتے ہوں، یہ معمولی معاوضے والی غیر مستقل ملازمت تھی جس کی وجہ سے آپ کو ایسے معمولی افراد کی صحبت اختیار کرنا پڑتی جیسے ڈیپ فورڈ میں مارلو کو اس دن کرنا پڑی تھی۔
اس سب ناانصافی کا تصور کیجیے۔ پیسہ خرچ کرتے ہوئے جو عمدہ ترین تعلیم حاصل کی جا سکتی تھی اس سے مالا مال بدقسمت مارلو ایک ایسے طبقاتی معاشرے میں پیدا ہوا جو ایک ذہین نوجوان کو آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ وہ امیر اور طاقتور ترین لوگوں کے ساتھ گھل مل گیا اور اب ذلت و رسوائی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ 29 سال کی عمر میں مارلو اب تیمور لنگ جیسا طبقاتی سیڑھی چڑھنے والے مہم جو نہیں رہا بلکہ ایک گندے کمرے میں پھنس چکا ہے، وہ ان بھوکے ساتھیوں کی ہنسی سن رہا ہے جنہیں بیک گیمن کے کھیل میں جوا کھیلتا دیکھ کر وہ نفرت کرتا ہے۔ غالباً وقتاً فوقتاً وہ اس کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ مارلو وہ سابق سنہرا نوجوان تھا جو مشکل وقتوں میں مالی تنگی کا شکار ہو گیا تھا۔
پہلے ہی مسلسل پریشانیوں کے سامنے خود کو بے بس تصور کرتا مارلو سمجھ جاتا ہے کہ فریزر، سکیرس اور پولی اس سے رقم زبردستی نکلوانا چاہتے ہیں۔ وہ جیسے ہی بستر سے اس آخری توہین کا بدلہ چکانے کے لیے اٹھتا ہے وہ ایک اور کاری ضرب لگا دیتے ہیں۔
اس بات کا امکان تو نہیں کہ انٹیلی جنس کمیونٹی نے مارلو کی موت کا غم منایا ہو لیکن لندن میں پیوست تھیئٹر کی دنیا یقینی طور پر ایسے صفِ اول کے دماغ کے بجھنے پر سوگ میں ڈوب گئی ہو گی۔
مارلو کی پرتشدد موت نے ہزاروں بے بنیاد نظریات کو جنم دیا، لیکن شاید سازشی نظریہ سازوں کو رومیو جولیٹ اور خاص طور پر شیکسپیئر کے عجیب و غریب ترین کرداروں میں سے ایک مرکیوشیو کے کردار پر گہری نظر ڈالنی چاہیے، ایک بالکل انوکھا تجسس، جسے کسی مخصوص درجہ بندی میں کھپانا آسان نہیں۔
جیسا کہ اس کے نام سے لگتا ہے مرکیوشیو اپنے نام کی طرح پارہ صفت (مرکری) ہے، مجسم پارہ، غیر مستحکم بے ترتیب انداز میں گردش کرنے والا، حیرت انگیز صفات سے مملو، خود پسندی کا بے رحمی سے مذاق اڑانے والا، اشتعال انگیز، شراب نوشی میں جھگڑے پر اتر آنے والا، ایک لاجواب دماغ، ایک نمائش پسند جو مرکزی مقام حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن دوستوں کا بھی زبردست خیال رکھتا ہے۔ مرکیوشیو دیوانہ وار اور دل چسپ نرالی باتوں کا مجموعہ ہے، گویا کم و بیش شیکسپیئر ایک ایسے کردار کو تخلیق کر رہا ہے جسے سامعین میں بہت سے لوگ پہچانیں گے اور پیار کریں گے۔
مرکیوشیو کا بے ضرر سا زخم بظاہر معمولی خراش ہے جو حادثاتی طور پر جھگڑے میں پہنچا ہے۔ مرکیوشیو کی موت صدمہ انگیز لیکن دل کو چھو لینے والی ہے بالکل جیسے شیکسپیئر لندن کی تھیئٹر کمیونٹی کو اپنے خامیوں سے بھرپور لیکن متاثر کن دوست کے لیے شاندار الوداع کرنے کا موقع فراہم کر رہا ہو۔
مارلو کو مارکیوشیو کے طور پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے امر کرنا شاید شیکسپیئر کی سب سے باغیانہ کا تھا لیکن اصل اشارہ اس نام میں پوشیدہ ہے: مارلو کے کئی لقب مشہور تھے لیکن اس نے ہمیشہ اپنے دوستوں سے اصرار کیا تھا کہ اسے ’مرکری‘ کہہ کر پکارا جائے۔
© The Independent