اس فلم کی کہانی رام گوپال ورما کے ذہن میں برسوں سے تھی، یہ ان کے کالج کے دنوں کا کردار رمیش تھا، ایک آوارہ مزاج اور غنڈا ٹائپ کا ناکام طالب علم رمیش، جس کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ ایک ایسی لڑکی کی محبت میں گرفتار تھا جو کسی اور دولت مند نوجوان کے عشق میں مبتلا تھی۔
یعنی پیار کی یہ ٹرین یکطرفہ چل رہی تھی۔ کئی بار رام گوپال ورما اور ان کے ساتھیوں نے رمیش کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی داداگیری سے اس لڑکے کی دھنائی کر کے اپنی یک طرفہ محبوبہ کی زندگی سے اسے دور کر دے لیکن وہ چپ رہتا۔ بہت زیادہ اصرار بڑھا تو ایک موڑ وہ بھی آیا کہ رمیش نے بے ساختہ کہا کہ اس کے پیار کا جس پر دل آیا ہے، وہ اس سے زیادہ خوبصورت اور صاحب حیثیت ہے، یقینی طور پر وہ اگر خوش ہے تو اس میں وہ خوش ہے اور یوں رمیش کی یہ پریم کہانی ایک مقام پر آ کر اپنے اختتام کو پہنچی۔ رام گوپال ورما کو رمیش کا یہ جذبہ اور ایثار ساری زندگی ذہن میں نقش ہو کر رہ گیا۔
ہدایت کار رام گوپال ورما عام طور پر رومانی فلمیں بنانے کے قائل نہیں تھے۔ ان کی زیادہ تر تامل اور تیلگو فلمیں، ایکشن یا ہارر فلمیں رہی تھیں۔ ہدایت کار منی رتنام کے دفترمیں جب انہوں نے ’روجا‘ کے مدھر اور رسیلے گیت سنے تو بے اختیار انہوں نے پوچھا کہ یہ کس نے ترتیب دیے ہیں۔
جب انہیں پتہ چلا کہ یہ نئے موسیقار اے آر رحمٰن کی دھنیں ہیں تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی اب کوئی رومانی فلم بنائیں گے لیکن عام طور پر بننے والی فلموں سے ذرا مختلف موضوع ہو گا اور اس میں اے آر رحمٰن کی مدھر موسیقی استعمال کی جائے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل وہ موسیقار اسماعیل دربار کی دھنوں سے متاثر ہوئے تھے اور انہیں موقع دینے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن ’روجا‘ کے گانے سننے کے بعد انہوں نے اپنا یہ فیصلہ بدل دیا تھا۔
اب یہ رام گوپال ورما کی خوش قسمتی ہی کہیے کہ 1995 میں پروڈیوسر جمو سوگند نے انہیں اپنی دو فلموں کے لیے منتخب کیا۔ رام گوپال ورما نے جب انہیں بتایا کہ وہ موسیقی کے لیے اے آر رحمٰن کو یہ ذمے داری دیں گے تو انہوں نے اعتراض کیا۔ یہ وہ دور تھا جب ہر جانب یا تو ندیم شروان کا راج تھا یا پھر انو ملک کا۔ پروڈیوسر جمو سوگند بضد تھے کہ انو ملک کو ہی بطور موسیقار سائن کیا جائے۔
رام گوپال ورما اور جمو سوگند کے درمیان بحث و مباحثہ ہونے لگا۔ رام گوپال ورما کی خواہش تھی کہ اے آر رحمٰن ہی موسیقار ہوں لیکن طے یہ ہوا کہ ایک فلم کے انو ملک تو دوسرے کے لیے رحمٰن گیت ترتیب دیں گے، لیکن فلم پہلے وہ بنے گی، جس کے موسیقار انو ملک ہیں۔
اس فلم کے ہیرو سنجے دت تھے، جو اسی دوران اسلحہ رکھنے کے الزام میں عدالتی پیشیاں بھگت رہے تھے۔ جبھی یہ تعطل کا شکار ہوتی چلی گئی اور ایک وقت وہ بھی آیا کہ اسے بند کرنا پڑا۔
اب رام گوپال ورما کو بھرپور موقع مل گیا کہ وہ اے آ ر رحمٰن کی خدمات کا فائدہ اٹھائیں۔ اس موقعے پر انہیں اپنے کالج کے زمانے کے رمیش کی ادھوری پریم کہانی یاد آئی، جسے انہوں نے معمولی ردعمل کے ساتھ پیش کرنے کا ارادہ کر لیا۔
اس میں دل ہی دل میں محبت کرنے والے آوارہ مزاج اور لاپروا نوجوان کی کہانی بیان کی گئی تھی جو طاقت کے بل بوتے پر بھی حسینہ کو پا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کرتا۔ طے یہ ہوا کہ کلائمکس میں اس پر انکشاف ہو گا کہ جس سے وہ یکطرفہ محبت کرتا تھا۔ وہ دنیا کے عیش و عشرت اور شہرت کو چھوڑ کر اس کے ساتھ زندگی گزارنے کا تو کب کا فیصلہ کر چکی تھی اور اسی بات سے یہ نوجوان انجان تھا اور غلط فہمی کا شکار رہتا ہے۔
رام گوپال ورما نے عامر خان کو جب یہ کہانی سنائی تو وہ فوری طور پر تیار ہو گئے۔ دیکھا جائے تو عامر خان بھی رام گوپال ورما کی پہلی ترجیح نہیں تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے شاہ رخ خان سے رابطہ کیا تھا، جنہوں نے یہ کہہ کر خود کو فلم سے الگ کر لیا کہ کیریئر کے عروج پر آوارہ مزاج لڑکے کا کردار ان کے امیج کو متاثر کر سکتا ہے۔
ہیروئن کے انتخاب کے لیے بھی کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا۔ پہلے روینہ ٹنڈن اور پھر سری دیوی کو بطور ہیروئن پیش کرنے کا ارادہ ہوا تو انہوں نے بھی معذرت کر لی۔ رام گوپال ورمانے ایسی صورتحال میں ارمیلا ماتونڈکر کا انتخاب کیا جو ان کے ساتھ تیلگو اور تامل زبان کی فلموں میں کام کر چکی تھیں۔
سائیڈ ہیرو کے لیے پہلے سلمان خان اور انل کپور تک رسائی ہوئی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ ایسے میں جیکی شروف نے آگے بڑھ کر اس کردار کو قبول کیا۔
رام گوپال ورما نے چونکہ یہ فلم موسیقار اے آر رحمٰن کی دھنیں سن کر بنانے کا فیصلہ کیا تھا، اسی لیے ان پر واضح کر دیا کہ وہ دلوں کو چھو لینے والے گانے بنائیں۔ اس اعتبار سے یہ رحمٰن کی پہلی بالی وڈ فلم تھی، اسی وجہ سے انہوں نے بہترین رومانی دھنوں کے ساتھ کچھ نئے تجربات بھی کیے۔ فلم کی کہانی ’منا‘ یعنی عامرخان کے گرد رہی، جو بچپن کی دوست ’ملی‘ سے یکطرفہ محبت کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملی فلمی رقاصاؤں کے گروپ میں شامل ہوتی ہے اور قسمت ایسا ساتھ دیتی ہے کہ وہ رقاصہ سے ہیروئن بن جاتی ہے۔ اس موقعے پر سپر سٹار راج کمل (جیکی شروف) سے دوستی بڑھتی ہے اور پھر وہ اس سے پیار کرنے لگتا ہے۔ کلائمکس میں اس پیا ر کو وہ یہ جان کر کہ ’ملی‘ تو اس سے اس قدر دوستانہ مراسم اس کے عزت و احترام اور شہرت کی وجہ سے کرتی تھی، اور اس کی اصل محبت تو منا ہے، اپنے پیار کی قربانی دے دیتا ہے۔
فلم میں چونکہ عامر خان کو آوارہ مزاج دکھانا تھا تو ان کا انداز گفتگو بھی بازاری رہا، ایک ایسے نوجوان کا کردار جو سینیما ہاؤس کے باہر ٹکٹ بلیک کرتا ہے۔ فلم میں عامر خان کی پہچان ان کا رنگ برنگا لباس اور سر پر ٹوپی بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ فلم کا نام ’رنگیلا‘ رکھا گیا۔
فلم کے لیے بیشتر عام سے ملبوسات عامر خان کے اپنے یا پھر یار دوستوں کے تھے۔ ارمیلا کے مغربی ملبوسات کے لیے مشہور ڈیزائنر نیتا لولا سے رابطہ کیا، جنہوں نے مصروفیات کی بنا پر یہ کام اپنے اسسٹنٹ مہنیش ملہوترہ کو دیا۔ انہوں نے پوری فلم میں ایسے حسین وجمیل مغربی لباس تیار کیے کہ ’رنگیلا‘ کے بعد سے ان کی اپنی انفرادی پہچان قائم ہوئی۔
ادھر موسیقار اے آر رحمٰن نے نغمہ نگار محبوب کے لکھے ہوئے سات گیت تیار کیے۔ جنہیں سننے کے بعد رام گوپال ورما کو لگا کہ رحمٰن کو موسیقار بنانے کا فیصلہ ان کا غلط نہیں تھا۔ بالخصوص گلوکارہ آشا بھونسلے کی آواز میں گائے گئے دو گیت ’تنہا تنہا‘ اور ’رنگیلا رے‘ نے رام گوپال ورما کو بہت زیادہ متاثر کیا۔
فلم ’رنگیلا‘ آٹھ ستمبر 1995 کو جب سینیما گھروں کی زینت بنی تو اپنے سریلے گیتوں اور پھر منفرد اور اچھوتی رومانی کہانی کی بدولت تہلکہ مچا گئی۔ بزنس کے اعتبار سے یہ اس سال کی پانچویں سپر ہٹ فلم تصور کی گئی۔
عامر خان کا ’ٹپوری‘ سٹائل، جس سے دوسرے ہیرو کنی کترا گئے تھے، سب سے زیادہ پسند کیا گیا۔ وہیں موسیقار اے آر رحمٰن نے اپنے گیتوں سے متاثر کیا۔ اگلے سال فلم فیئر ایوارڈز کا میلہ سجا تو ’رنگیلا‘ نے سب سے زیادہ 14 نامزدگیاں حاصل کیں۔ جیکی شروف بہترین معاون، اے آر رحمٰن بہترین موسیقار، رام گوپال ورما، کہانی، بہترین کوری گرافر کے لیے احمد خان، بہترین ڈریس ڈیزائنر کے لیے مہنیش ملہوترہ اور خصوصی ایوارڈ آشا بھونسلے کے حصے میں آیا، جنہوں نے ’رنگیلا رے‘ اور ’تنہا تنہا‘ گائے تھے۔
درحقیقت یہی ’رنگیلا‘ وہ فلم تھی جس کے لیے عامر خان کو یقین تھا کہ انہیں بہترین اداکار کا ایوارڈ ملے گا لیکن ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ کے لیے شاہ رخ خان بازی لے گئے۔
اس پر عامر خان ایسے دل برداشتہ، رنجیدہ اور دل شکستہ ہوئے کہ ایک طویل عرصے تک کسی بھی ایوارڈ تقریب میں شرکت نہ کرنے کی روش اختیار کی۔
جہاں ’رنگیلا‘ سے اے آر رحمٰن کا بالی وڈ کیریئر بلندی کو چھونے لگا، وہیں ارمیلا کا شمار بھی بہترین اداکاراؤں میں ہونے لگا۔ رام گوپال ورما نے کہانی ہی نہیں بلکہ سکرین پلے بھی لکھے لیکن اس سپر ہٹ میوزیکل رومنٹک فلم کے علاوہ عامر خان، رام گوپال ورما اور ارمیلا کی یہ مثلث پھر کبھی ایک ساتھ کسی فلم میں نظر نہیں آئی۔