آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ: جب پاکستان نے بھارت کو ’سرپرائز‘ دیا

پلوامہ حملے کے بعد بھارت کی بالاکوٹ کے قریب بمباری اور اس کے پاکستانی جواب کی کہانی۔

27 فروری 2020 کی اس تصویر میں’آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ‘ کا ایک سال پورا ہونے پر کراچی میں پاکستانی فضائیہ کا ایف 16 طیارہ ایک تقریب کے دوران پرواز کرتے ہوئے(اے ایف پی)

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے معاملے پر کشیدگی تو کہیں دہائیوں سے جاری ہے لیکن آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ ایک ایسا موقع تھا جب دونوں ممالک کی فضائیہ آمنے سامنے آئیں، یہ معاملہ یہاں تک کیسے پہنچا، اس تمام صورت حال کا ایک جائزہ۔ 

14  فروری 2019

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے علاقے پلوامہ میں سی آر پی ایف کے کاروان پر ایک خود کش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں 40 اہلکار ہلاک اور آٹھ زخمی ہو گئے۔ 1989 کے بعد یہ انڈین سکیورٹی فورسز پر دوسرا بڑا حملہ تھا۔

ایک ایسا متنازع علاقہ جہاں لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوج موجود ہے وہاں ایسا حملہ بہت حیران کن تھا کہ خود کش حملہ آور، گاڑی اور باردوی مواد کہاں سے آ گیا۔

15 فروری  2019

بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اس حملے کا بدلہ لینے کا اعلان کیا اور بنا ثبوت الزام پاکستان پر عائد کر دیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’پاکستان بھارت کو تباہ کرنے کے خواب دیکھنا چھوڑ دے، اور یہ کہ ’جنہوں نے یہ حملہ کیا ان کو بھاری قیمت چکانا ہو گی۔‘

15 فروری کو پاکستان کے وزارت خارجہ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت اور میڈیا کے الزامات بے بنیاد ہیں۔

16 فروری 2019

بھارتی میڈیا نے اس حملے کا ذمہ دار عبد الرشید غازی اور عادل ڈار کو قرار دینے میں دیر نہیں لگائی۔ جس وقت بھارت کے نیوز چینلوں نے عبد الرشید پلوامہ کے ماسٹر مائنڈ کی تصاویر جاری کی تو مجھ سمیت سوشل میڈیا صارفین نے ان کی تصحیح کی کہ جس شخص کو پلوامہ حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دے رہے ہیں وہ لال مسجد آپریشن میں 2007 میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد بھارتی میڈیا نے یہ خبر ڈیلیٹ کر دی۔

بھارتی میڈیا نے حملہ آوروں میں عادل ڈار کا بھی نام لیا جن کا تعلق کشمیر کے علاقے کاک پورہ سے تھا۔ بھارتی حکام کے مطابق وہ ایک سال پہلے گھر سے چلے گئے تھے اور جیش محمد میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ تاہم ان کی بھی جو تصویر شئیر کی گئی وہ بھی فوٹوشاپ کی گئی تھی۔ عادل ڈار کی تصویر ایک برازیلین گارڈ کے ساتھ جوڑ کر میڈیا پر پھیلائی گئی۔

18 فروری 2019

18 فروری کو پاکستان نے دہلی سے اپنے ہائی کمشنر کو بلا لیا تاکہ صورت حال کے حوالے سے مشاروت کی جائے۔

18 فروری ہی کو بھارت نے کلبھوشن کیس میں دلائل دیے۔ اس موقعے پر بھارتی مندوب نے پاکستانی مندوب سے ہاتھ نہیں ملایا اور نمستے پر اکتفا کیا۔

19 فروری 2019

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کو فوجی اہلکاروں پر ہونے والے خود کش حملے میں تحقیقات میں تعاون کا عندیہ دیا، تاہم انہوں نے ساتھ یہ بھی کہا کہ پاکستان کی سرزمین پر اگر کوئی حملہ کیا گیا تو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

20  فروری 2019

اقوام متحدہ نے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پر تحفظات کا اظہار کیا۔

تحریک انصاف کے رہنما اور وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ بھارتی فورسز پر حملہ 130 کلومیڑ دور شہر کے اندر کیا گیا حملے کی گاڑی اور 360 کلوگرام باردوی مواد پاکستان سے تو نہیں بھیجا گیا۔

دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی برقرار ہی اور حالات مزید بگڑتے چلے گئے۔ بھارتی سیاسی جماعت کانگریس نے اس بات پر ضرور دیا کہ پلوامہ پر سیاست نہیں کی جائے، تاہم مودی سرکار نے بدستور پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے کا سلسلہ جاری رکھا۔

22 فروری 2019

پاکستانی فوج کے ترجمان جنرل آصف غفور نے کہا کہ بات چیت مسائل کا حل ہے، جنگ مسائل کا حل نہیں، تاہم پاکستان ہرطرح کی جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت کو پیغام دیا کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

آپریشن بندر  2019

بھارت نے پلوامہ حملے کا ذمہ دار جیش محمد کو قرار دیا گیا۔ جیش محمد مولانا مسعود اظہر نے 2000 میں بنائی تھی۔ پھر پرویز مشرف کی حکومت نے بھی اس تنظیم پر پابندیاں عائد کر دی۔

پلوامہ حملے میں نامزد ہونے کے بعد یہ سوال اٹھا کہ کیا یہ تنظیم کشمیر میں اتنی بڑی کارروائی کرسکتی ہے؟ پاکستان میں دفاعی تجزیہ نگار پلوامہ حملے کو فالز فلیگ آپریشن قرار دیتے رہے۔

بھارت کی حکومت نے بدلہ لینے کا ارادہ کیا اور آپریشن بندر 26 فروری کو لانچ کیا۔  اس کا نام بندر اس کو خفیہ رکھنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس کے تحت بھارتی ایئر فورس نے پاکستان میں جیشِ محمد کا ہیڈ کوارٹر تباہ کرنا تھا۔

26 فروری 2019 کی رات

رات گئے پاکستانی فضائیہ نے بہالپور، لاہور اور سیالکوٹ سیکٹر کی طرف بھارتی ایئر فورس کی نقل و حمل دیکھی۔ بروقت کارروائی کی وجہ سے وہاں سے بھارتی جہاز داخل نہیں ہو سکے، تاہم ان کی ایک فارمیشن بن الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول کی طرف سے پاکستان داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ فارمیشن پانچ ناٹیکل میل تک پاکستان کی حدود میں آئی۔

صبح سویرے پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ جنرل آصف غفور نے کہا کہ رات بھارتی طیارے پاکستانی حدود کے اندر چلے آئے تھے۔ جیسے ہی پاکستانی طیارے ان کے تعاقب میں آئے تو یہ بالا کوٹ کے مقام جابہ پر اپنا پے لوڈ گرا کر واپس بھارت چلے گئے۔

دوسری طرف بھارت نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پاکستان میں جیش کا ہیڈ کوارٹر تباہ کر دیا ہے، اور اس مشن میں میراج 2000 طیاروں کی فارمیشن نے حصہ لیا۔ بھارتی ایئر فورس نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے نہ صرف جیش کا ہیڈ کوارٹر تباہ کیا بلکہ وہاں متعدد لوگ بھی مارے گئے۔

26 فروری کی صبح

آئی ایس پی آر میڈیا ٹیم کو لے کر جابہ گئی۔ جو صحافی سرکاری طور پر نہیں جا سکے، وہ اپنے طور پر وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے رپورٹ کیا کہ وہاں جیش کا ہیڈ کوارٹر نہیں تھا نہ کوئی تین سو لاشیں تھیں۔ کچھ کووں اور درختوں کے سوائے وہاں کچھ تباہ نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد سفارتی مشنز بھی وہاں گئے لیکن ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے پتہ چلتا کہ بھارت کی ایئر فورس نے کوئی تباہی پھیلائی یا دہشت گرد مارے۔ اس جگہ پر کوئی ہیڈ کوارٹر موجود نہیں تھا بس وہاں جنگل تھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس میں بھارت کو پیغام دیا کہ ’اب ہمارے جواب کا انتظار کریں، ہم آپ کو سرپرائز دیں گے۔‘

27 فروری

آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستانی فضائیہ نے دن کی روشنی میں لائن آف کنٹرول کے اس پار ٹارگٹ لاک کیے۔ یہ ملٹری ٹارگٹ تھے، سویلین آبادی کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ پونچھ سیکٹر، راجوڑی سیکٹر، اور نوشیرا سیکٹر میں ٹارگٹ لاک کیے گئے۔ انڈین فوجی تنصیبات اور اسلحہ ڈپو کے پاس بم گرائے گئے۔

پاکستانی ایئر فورس کی فارمیشن نے اس حملے کی تصاویر اور فوٹیج بھی بنائیں اور انہیں یوم فضائیہ پر جاری کیا۔

پاکستانی فضائیہ کی فارمیشن میں جے ایف 17 تھنڈر، ایف 16 اور میراج طیارے شامل تھے۔ جب ڈاگ فائٹ میں بھارتی اور پاکستانی طیارے مدمقابل آئے تو آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان نے بھارت کے دو طیارے تباہ کر دیے۔ ایس یو 30 طیارے کا ملبہ مقبوضہ کشمیر میں گرا اور ابھی نندن کے جہاز مگ 21 کا ملبہ آزاد کشمیر میں گرا۔ ابھی نندن پیراشوٹ کے ذریعے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے میں گرے اور انہیں جنگی قیدی بنا لیا گیا۔

27 فروری کے دن بھارت کے دو جنگی طیارے پاکستان ایئرفورس نے تباہ کیے اور ان کا ایک ہیلی کاپٹر خود کریش ہو گیا۔ میڈیا پر آیا کہ بھارتی ایم آئی ہیلی کاپٹر کو خود بھارت نے غلطی سے نشانہ بنا ڈالا جس کی وجہ سے آن بورڈ تمام افراد ہلاک ہو گئے۔

 اس دن ایئر ٹریفک کنٹرول پر موجود منٹی اگراول کو بھارتی حکومت کی طرف سے بعد میں تمغہ ملا۔

ایئر کموڈور خالد چشتی جو خود فائڑ پائلٹ رہے ہیں، ان کے مطابق ’ایسی سٹرائک میں جہاں آپ کو رزلٹ فکس چاہیے ہوتے ہیں وہاں مختلف جہازوں کی فارمیشن جاتی ہیں۔ جن میں جامرز، ری فیولر، ایسکورٹ ایئرکرافٹس، ڈیزیگنیٹڈ ایئرکرافٹ اور جن جہازوں نے شوٹ کرنا ہوتا ہے وہ فارمیشن الگ ہوتی ہے اور ان سب پر سویپ کرنے والی فارمیشن دشمن کے کاؤنٹر اٹیک کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ اسی طرح آپریشن سوئفٹ ری ٹورٹ کو مکمل کیا گیا۔ پی اے ایف نے ٹارگٹ لاک کرنے والی اور اٹیک کی ویڈیو جاری کی۔‘

وہ کہتے ہیں ’آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کے بعد پاکستانی فضائیہ کے اعتماد میں مزید اضافہ ہوا۔ ہماری سٹرائیک اعلانیہ تھی۔ ہم نے اپنے سے تین گنا بڑی ایئر فورس کو جواب دیا۔ ان کے پاس 11 سو جہاز تھے اور ہماری فضائیہ ان کو سرپرائز دے آئی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جہاز ٹیکنالوجی کے ساتھ پائلٹ کا پروفشینلزم بہت کاؤنٹ کرتا ہے۔ یا آپ نعمان، حسن صدیقی ہوتے ہیں یا پھر ابھی نندن۔ شوٹ کریں ورنہ شاٹ ہو جائیں گے اس جنگ میں کوئی رنر اپ نہیں۔‘

ایف 16 تباہ کرنے کا بھارتی دعویٰ

بھارتی میڈیا اور حکومت نے دعویٰ کیا کہ ابھی نندن نے ایجیکٹ کرنے سے پہلے پاکستان کا ایف 16 تباہ کر دیا تھا۔

بھارتی اینکر راہل کو ٹی وی پر سب کے سامنے اس وقت سبکی سامنا کرنا پڑا جب وہ ایک پرزے کوایف 16 کا کہہ رہے تھے تو ہوا بازی کے ماہر نے کہا یہ تباہ شدہ ٹکڑا ایف 16 کا نہیں مگ 21 کا ہے۔

بھارت نے یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان کے ونگ کمانڈر شہزاد الدین ایف 16 کے کریش میں مارے گئے اور وہ وسیم الدین کے صاحبزادے تھے۔ یہ بھی جھوٹ نکلا کیونکہ نورین صاحبہ اور ایئر مارشل ر وسیم الدین صاحب کے دونوں بیٹیوں میں کسی کا نام شہزاد الدین نہیں اور ان کے بیٹے حیات ہیں اور پی اے ایف سے منسلک نہیں ہیں۔

جس پائلٹ کی تصویر شہزازالدین کہہ کر پھیلائی گئی وہ گروپ کیپٹن آغا مہر ہیں اور وہ ایف 16 کے پائلٹ نہیں ہیں۔ آغا مہر اب ایئر کموڈور ہیں ایئر ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں تعینات ہیں۔

ماہرین کے مطابق ابھی نندن کا جہاز جب تباہ ہوا تو اس کا کوئی میزائل استعمال ہی نہیں ہوا تھا۔ پاکستان ایئرفورس نے اسلام آباد میں ایئر ہیڈ کوارٹر میں میڈیا نے ابھی نندن کے جہاز کا ملبہ دیکھا تو اس ملبے میں ابھی نندن کی سیٹ اور میزائل سالم حالت میں موجود تھے۔

میں نے خود دیکھا ابھی نندن کے جہاز کے میزائل آر 77 ایڈر رائٹ ونگ اور آر 73 آرچر رائٹ ونگ سالم حالت میں موجود تھے تو ایف 16 کو ٹارگٹ کرنے کا دعویٰ غلط ثابت ہوا۔

یہی نہیں بلکہ عالمی اداروں نے بھی پاکستانی موقف کی تائید کی۔ جریدے ’فارن پالیسی‘ میں آرٹیکل شائع ہوا کہ امریکی حکام نے جب پاکستانی فلیٹ میں ایف 16 گنے تو وہ پورے تھے۔ پاکستانی حکام نے خود امریکی حکام کو دعوت دی تھی کہ وہ ایف 16 طیاروں کی گنتی کریں اور گنتی کے بعد حکام نے کہا کہ پاکستان کے ایف 16 پورے ہیں۔

فیکلٹی آف ایروسپیس اور سٹرٹیجک اسٹڈیز کے ڈاکٹرعادل سلطان کہتے ہیں کہ ’27 فروری کو ایئر فورس کی طرف سے ایسا جواب دیا گیا جس کے بعد مزید کشیدگی رک گئی۔ یہ  موثر جواب تھا کہ پاکستان کبھی بھی اپنی فضائی حدود میں کسی کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گا۔‘

انہوں نے  کہا، ’آپریشن ’سوئفٹ ریٹارٹ‘ کے بعد ایئر فورس کے مستقبل کے منصوبوں میں ممکنہ طور اس کی صلاحیتوں کو جدید کرنا ہے جو بھارت کو آئندہ حملوں سے باز رکھے گا۔ جے ایف 17 کے بلاک تھری اور جے ٹین سی کے حصول سے پاکستان اس فائدے کو ںیوٹرلائز کر سکتا ہے جو بھارت کو رافیل خریدنے سے ملا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان