پلواما حملے کی بازگشت

دراصل یہ مسئلہ پوری دنیا کا ہے جہاں انتخابات کے دوران عوام کے جذبات بھڑکانے کی سازشیں رچائی جاتی ہیں لیکن بقول بھارت کی اپوزیشن پارٹیوں کے یہ مبینہ طور پر پہلی بار ہے کہ ’جب ہندوستان میں فوجی جوانوں کے لہو سے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔‘

پلواما میں بھارتی فوجی ایک کارروائی کے دوران (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 


آپ کو 14 فروری 2019 کا دن یاد ہوگا جب جموں و کشمیر کی شاہراہ پر پلواما کے قریب ایک خودکش حملے کی خبر آئی تھی۔ اس حملے میں 40 فوجیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی تھی۔

78 بسوں پر مشتمل اس فوجی قافلے میں نیم فوجی دستوں کو جموں وکشمیر میں تعینات کیا جانا تھا۔ اس شاہراہ پر 24 گھنٹوں فوجی پہرہ رہتا ہے اور فوجی قافلے کی نقل و حرکت کے دوران سول ٹریفک کو روک دیا جاتا ہے۔ یعنی مکھی کو بھی اس وقت اس شاہراہ پر اڑنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ شہریوں نے اس پہرے کو نرم کرنے کی کئی بار مانگ کی لیکن کسی نے نہیں سنی۔

اس حملے سے چند روز پہلے بھارت میں، جہاں پارلیمان کی انتخابی مہم زوروں پر تھی، رائے عامہ کے جائزوں میں بتایا گیا تھا کہ اقتصادی بدحالی اور ملک میں امن عامہ کی بگڑتی صورت حال کے پیش نظر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مقبولیت میں کمی آئی ہے اور پارلیمانی انتخابات میں پارٹی دوبارہ اقتدار میں نہیں آ سکے گی۔ بعض تجزیوں میں بتایا گیا تھا کہ بھارت میں ایک بار پھر ایک معلق پارلیمان وجود میں آسکتی ہے۔

مگر جب پلواما حملہ ہوا تو حالات نے اچانک ایسا پلٹا کھایا کہ بی جے پی کو بڑی کامیابی ملی۔ 14 فروری کے حملے کے بعد اخبارات کے ذریعے ایک پیغام میں جیش محمد نے ذمہ داری قبول کی۔ خودکش حملہ آور 20 برس کے نوجوان عادل احمد کی ویڈیو وائرل ہوئی اور اس حملے کی بھی جو کار کے فوجی ٹرک سے ٹکرانے کی تھی۔

ظاہر ہے کہ اس ویڈیو کو دیکھ کر ہر کوئی آگ بگولا ہوگیا۔ بھارتی میڈیا نے اس کی خوب تشہیر کی، جذباتی تقریروں اور بیانات کی بھر مار ہوئی، پاکستان کو سبق سکھانے کی مانگ بڑھ گئی، سوشل میڈیا پر پلواما حملے کی جوابی کارروائی کے ہزاروں ہیش ٹیگ سامنے آگئے۔ پھر بالاکوٹ اور ابھی نندن کی رہائی وغیرہ وغیرہ۔۔

اس داستان سے تو آپ واقف ہیں لیکن اسے اس لیے دہرایا کہ شاید آپ نے اس دوران بیشتر کشمیریوں کے سوشل میڈیا پر خدشات سے بھرے پیغامات بھی پڑھے ہوں گے۔ ان پیغامات اور آج بیشتر سیاسی جماعتوں، عوامی اور فوجی حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے بیشتر سوالوں میں کوئی فرق آپ کو نظر آتا ہے؟

جی نہیں، یہی تو اس وقت خدشہ جتایا گیا تھا کہ اتنی سکیورٹی کے ہوتے ہوئے اس طرح کا حملہ کرنا ناممکن ہے اور اس کی عالمی ادارے سے تحقیقات ہونی چاہیے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کشمیری اسی روز حملے کی حقیقت جانتے تھے جس پر کسی نے اعتبار نہیں کیا۔

کشمیریوں نے پہلے دن سے خبردار کیا تھا کہ ایسا کوئی حادثہ ضرور ہوگا جو بی جے پی کی شکست کو جیت میں بدل دے گا۔

دراصل یہ مسئلہ پوری دنیا کا ہے جہاں انتخابات کے دوران عوام کے جذبات بھڑکانے کی سازشیں رچائی جاتی ہیں لیکن بقول بھارت کی اپوزیشن پارٹیوں کے یہ مبینہ طور پر پہلی بار ہے کہ ’جب ہندوستان میں فوجی جوانوں کے لہو سے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔‘

اس حملے کے پس منظرپر سے پردہ اس وقت اٹھا جب میڈیا چینل ری پبلک کے اینکر اور براڈکاسٹ آڈینس ریسرچ کونسل کے سابق سربراہ پارتھو داس گپتا کے بیچ واٹس ایپ پر ہونے والے ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ٹیکسٹ پیغامات منظر عام پر آئے۔ انہیں ممبئی کی ایک عدالت میں ارنب گوسوامی کے خلاف ڈیزاینر انوے نائک کی خودکشی کے ایک معاملے کے دوران پیش کیا گیا ہے۔

ارنب کے واٹس ایپ میسیجز میں پلواما واقعے پر ارنب خوشی جتا کر لکھ رہے ہیں کہ ’اس حملے سے ہماری انتخابی جیت اب یقینی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ بھی پتہ چلا کہ ارنب گوسوامی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے بیشتر وزرا کی قربت میں ہیں اور وہ اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے بدلے میں داس گپتا کو ان سے مراعات دلوانے میں مدد کر نے کے وعدے کر رہے ہیں۔ عدالت نے ان پیغامات کی جانچ کے بارے میں ابھی کچھ نہیں بتایا ہے۔

پلواما حملے کے بعد بی جے پی نے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی، مگر ارنب گوسوامی کو شاید اس کا اندازہ نہیں تھا کہ ایسی نوبت بھی آئے گی کہ انہیں گرفتار کر لیا جائے گا اور موبائل فون کے پیغامات عدالت میں پیش کیے جائیں گی جو ایک تو ان کی چینل کی مقبولیت کا راز افشا کریں گی بلکہ ان کی پس پشت پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی جیت پر دو سال کے بعد یہ سوال ضرور اٹھایا جائے گا کہ کیا ’پلواما حملہ ایک منصوبے کے تحت کروایا گیا تھا؟‘

یہی سوال آج نہ صرف کانگریس سمیت دوسری درجنوں پارٹیوں نے پوچھا ہے بلکہ بھارت کے بیشتر دانشوروں، سابق فوجی جنرلوں، ہزاروں طلبہ، غیر سرکاری انجمنوں اور لاکھوں کسانوں نے اٹھایا ہے۔

بھارت میں قومی تحقیقاتی ادارے (این آئی اے) سے پلواما حملے کی تحقیقاتی رپورٹ کی مانگ بڑھ رہی ہے اور یہ آوازیں گہری ہونے لگی ہیں کہ ’بی جے پی نے نہ صرف جذبات بھڑکا کر سکیورٹی کے ادارے کو ہندوتوا کی پالیسی سے کمزور بنا دیا ہے بلکہ ہندوستان کی سیکولر ساکھ کو عالمی سطح پر شدید نقصان پہنچایا ہے۔‘

بھارتی صحافی خالد مصطفی کہتے ہیں کہ ’بی جے پی نے ہندوستانی آئین کو طاق پر رکھ کر سامراجیت کو زندہ کر دیا ہے جو 22 سال کی دشا روی کو کسانوں کے حق میں سوشل میڈیا پر ٹول کٹ جاری کرنے پر قید کرتی ہے، جو درجنوں نوجوانوں کو یوم جمہوریہ پر تشدد کا شکار بنا کر ان کو نہ جانے کس مقام پر غائب کرتی ہے اور جس نے اناج پیدا کرنے والے ہزاروں کسانوں کو خالصتانی کہہ کر ملک میں مذہبی نفاق پیدا کردیا ہے۔‘

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جتنا کشمیری بھارت کی سیاسی جماعتوں کے سیاق و سباق سے واقف ہیں اتنا خود سیاسی جماعتیں خود سے واقف نہیں ہیں۔ کشمیریوں نے کہا تھا کہ ان کو دبانے کی سازش پر خاموش رہنے والے یہ نہ سمجھیں کہ وہ اس عذاب سے مبرا رہیں گے۔

جموں وکشمیر کے ایک کروڑ بیس لاکھ عوام نے اس بات کی پیش گوئی بھی کی تھی کہ جو ان کے ساتھ جسمانی، ذہنی، سیاسی اور اقتصادی زیادتیاں ہورہی ہیں وہی بھارت کے ہر باشندے کو بھی ایک دن سہنی ہوں گی۔

لاک ڈاؤن، کریک ڈاؤن، تشدد، جیل، پابندیاں اور سختیاں۔ یہ سب کشمیری عوام کافی عرصے سے سہہ رہے ہیں۔ ہندوستان کے عوام نے سے اس کا ٹریلر دیکھا ہے ابھی فلم باقی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ