آن ایئر ہونے سے پہلے توقع کی جا رہی تھی کہ ڈراما ’صنف آہن‘ ’الفا براوو چارلی‘ کی طرح چھا جائے گا، ویسا ہوا نہیں، مگر پھر بھی اسے اچھی خاصی مقبولیت حاصل ہوئی، خاص طور پر خواتین میں۔
’الفا براوو چارلی‘ یا ’سنہرے دن‘ جیسے سنہرے دنوں کی بات کی جائے تو تب سے اب کا تقابل کچھ دشوار ہے کیونکہ وہ ایک سرکاری ٹی وی کا دور تھا۔ اب چینلوں کی ایک قطار ہے۔ پہلے کی نسبت اب کا ناظر بہت با شعور ہے، اسے پتہ ہے پہلے جتنی اقساط میں کہانی عروج پہ تجسس بنتی تھی، اب اتنی اقساط میں ایک کیڈٹ پاس آؤٹ بھی نہیں ہو رہا تو اس کی کیا وجہ ہے۔
ڈرامے کی اہم خوبی پورے ملک کی بھرپور ثقافت کو پیش کرنا ہے۔ بات بلوچستان کے صحراؤں کی بھی ہوتی ہے اور خیبر پختونخوا کے سبز پہاڑوں کی بھی۔ ایک مڈل کلاس کی زندگی بھی ہے اور اپر کلاس کے خدشات بھی۔ سابقہ فوجی گھرانوں کی بات بھی ہوئی ہے تو دہشت گردی سے متاثرین کی بھی۔
سرحد پار سری لنکا سے آئی ایک کیڈٹ کی بھی موجودگی کہانی کو مزید وسعت دیتی ہے۔ لیکن ابھی کہانی میں سمندر کی لہریں سنائی نہیں دیں، نہ ہی اندورن سندھ سے کوئی کیڈٹ آئی ہے، گویا ڈرامے کی حد تک ابھی سندھ اور اندرون پنجاب میں شعور اور خواب کی کمی ہے۔ لیکن امید ہے کہ ڈرامے کے توسط سے ہی سہی بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی لڑکیوں کے لیے تعلیم اور زندگی کی راہیں ہموار ہوں گی اور ممکن ہے ڈراما فوکس ہی ان علاقوں کو کر رہا ہو۔
ماں اور دادی سے پڑی جوتیاں زندگی کی اچھی علامت ہے، مشکلات ہی انسان کو انسان بناتی ہیں۔ سیکھنے کا عمل دشواریوں پہ ہی مبنی ہے۔
لیکن ڈراما عجب بھول بھولیوں کا شکار ہے۔ ہر کورس کے ساتھ ناظر کو بھی لگتا ہے اس کا کورس مکمل ہوا۔ اب نئے سیشن کی تیاری کرنا ہے۔ اتنی سخت زندگی میں جو فطری مزاح جنم لیتا ہے، وہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ مناظر فطرت اور موسیقی نے کمزوری کو تھام رکھا ہے۔
مردانہ کردار دیوار کا اشتہار بنے ہوئے ہیں۔ مرد کی الگ نفسیات ہے، اس لیےاس کا مکالمہ جداگانہ ہوتا ہے، اور ابھی سماج اس نہج پہ نہیں ہے کہ ہم مرد کو اس طرح سماج سے سو فیصد الگ کر دیں کہ اس کا کردار ثانوی لگے۔ لہٰذا ڈرامے کی ٹیم کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
کاکول سے کہانی نکلتی ہے تو بعض جگہ اتنی جذباتی ہو جاتی ہے کہ لگتا ہے کیڈٹ کو مزید تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ کہیں سین بہت لمبے ہو جاتے ہیں تو کہیں مکالمے، کہیں بات حقیقت سے نکل کر خواب لگنے لگتی ہے۔
ابھی وہ نسل زندہ ہے جس نے سرکاری ٹی وی والے آئی ایس پی آر کے ڈرامے دیکھے ہوئے ہیں۔ ان کو یہ تکنیکی کمی سمجھ آ جاتی ہے اور ان گھرانوں کو بھی جنہوں نے فوجی وردی والے ماحول میں زندگی گزاری ہوئی ہے۔
ٹریننگ رپورٹنگ لگے تو کہانی متاثر ہوتی ہے، جو موجودہ اقساط میں ہو رہی ہے۔
یونہی مین کاسٹ میں اداکاروں کے ساتھ آفیشل فوجی خواتین کو شامل کیا جا سکتا تھا۔ کچھ اداکار اداکاری تو اچھی کر رہے ہیں، لیکن وہ اداکاری ہی لگ رہی ہےاور ڈراما ڈراما ہی لگ رہا ہے۔
پاکستانی فوج میں خواتین کیڈٹس پہلی بار جنرل مشرف کے دور میں لگ بھگ 2006 میں شامل ہوئیں، لہٰذا ابھی ان کیڈٹس کی زندگی کا اوائل دور ہے۔ شاید اسی لیے ڈرامے میں لڑکپن موجود ہے۔
فلیش بیک کے لیے مرد آفیسر کا سہارا لیا جا رہا ہے، حالانکہ ٹریننگ آفسرخاتون ہیں۔ ان خاتون کو کبھی اپنا ماضی یاد نہیں آیا۔ پھر فلیش بیک میں بھی وہی جھول ہے جو باقی کہانی میں ہے۔ ہم نے دیکھا کہ محبوبہ کو کارڈ لکھتے ہوئے پکڑے جانے والے کیڈٹ کی طبیعت خراب ہونے کا بہانہ اور سینیئرز کا گھبرا جانا۔
ایسے گھبرائے گھبرائے منظر ناظر نے پہلے نہیں دیکھے۔ شاید فوج نے خود بھی کاکول میں نہ دیکھے ہوں۔ نہ ہی ایسے رحم دل سینئرز پہلے کے ڈراموں میں نظر آئے ہیں۔ منطقی سی بات یہ ہے کہ میدان جنگ میں یہ گھبراہٹ نہیں چلتی۔ شہیدوں کو چھوڑ کے آ گے بڑھنا پڑتا ہے۔
بڑ ے اور نئے پروجیکٹس پہ جب بھی کام کیا جائے تو مشترکہ مصنفین بہت سی آفیشل اور ٹیکنیکل خامیوں کو کنڑول کر لیتے ہیں۔ ایسے پروجیکٹ میں اداروں کو چاہیے اس چینل ریس کے دور میں کوئی شعبے کا ماہر شریک مصنف ساتھ ہو تاکہ کم از کم بنیادی اور آفیشل غلطی سے بچا جا سکے۔
یونہی مین کاسٹ میں اداکاروں کے ساتھ آفیشل فوجی خواتین کو شامل کیا جا سکتا تھا۔ کچھ اداکار اداکاری تو اچھی کر رہے ہیں، لیکن وہ اداکاری ہی لگ رہی ہےاور ڈراما ڈراما ہی لگ رہا ہے۔
شائستہ خانزادہ کا کزن ملٹری ٹیسٹ میں فیل ہو جاتا ہے، وہ خود پاس ہو جاتی ہے۔ یونہی پری وش کاکول میں چھ ماہ کے کورس میں پاس ہو جاتی ہے اور اس کے علاقے کے سردار کا بیٹا پاس نہیں ہو پاتا۔ اس حوالے سے مرد و عورت کا تقابلی مکالمہ جو ڈرامے میں ملتا ہے، خاصا مایوس کن ہے۔ مرد و عورت دونوں سے مل کر زندگی بنتی ہے۔ ہار جیت دونوں کو ہو سکتی ہے۔ دونوں میں تقابل ہے بھی نہیں اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔
صنفی امتیاز کو جہاں یہ ادارہ ختم کرتا دکھائی دے رہا ہے، وہیں صنفی امتیاز سے کہانی کو سنسنی خیزی مل رہی ہے۔ ایسے مسائل حل نہیں ہوتے، اور بگڑتے ہیں۔ ایسے ٹیبوز ٹوٹتے نہیں، اور مضبوط ہو جاتے ہیں۔ کسی کو نیچا دکھانےسے انسان خود اوپر نہیں ہو جاتا بلکہ نیچے ہی گر جاتا ہے۔
یونہی لگتا ہے کہ جب پری وش پاس ہوتی ہے تو گویا سردار صاحب کا کاکول میں موجود ہونا ان کی سرداری پہ چوٹ ہے کیونکہ ان کا بیٹا تو پاس نہیں ہوا۔ ان کو آنے کی اطلاع کس نے دی۔ اس جدید دور میں کیوں نہ بتایا گیا کہ وہ اس تاریخ کو نہ آئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہ جبین چھ ماہ کی ٹرینگ کے بعد پاس نہیں ہوتی۔ پھر وہ اچانک اکیلی لڑکی پاس ہوتی دکھائی گئی ہے۔ اصول کی بات ہے جو کورس میں پاس نہیں ہوتا وہ اگلے چھ ماہ وہیں رہتا ہے اور اگلے بیچ کے سا تھ پاس ہو جاتا ہے۔
جب سب لڑکیاں گھر جاتی ہیں تو یوں لگتا ہے آرمی سے ٹریننگ انہوں نے سویلیئنز کو پیٹنے کے لیے لی ہے۔ یا مردوں کو مارنے کے لیے لی ہے۔ یہ توشوق ویسے کراٹے سیکھ کر بھی پورا کیا جا سکتا تھا۔
کوئی گلی میں لڑکوں کو پیٹ رہی ہے۔ کوئی شاپنگ مال میں پیٹ رہی ہے۔ کوئی سڑک پہ ٹائر بدل رہی ہے۔ کوئی سردار کو سنا رہی ہے۔ کوئی کزن کو دھمکا رہی ہے۔
اگر اسی ڈرامائی انداز میں کہانی چلتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب سردار پری وش کا رشتہ مانگ لے گا یا سردار کا بیٹا اور پری وش کاکول کی زمین پہ اپنی محبت کی کہانی کاشت کر لیں گے۔
کوئی کسی کے گھر سے محبت ٹانک کے نکلے گی، کسی کو اپنےکزن سے اچانک پیار ہو جائے گا۔
شائستہ کاکول آنے کے لیے بس میں والد کے ساتھ سوار ہوتی ہے تو پوری بس کے مسافراحترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسا حسین منظر کاش میرے ملک میں دکھائی دینے لگے۔
جہاں تک رہی بات ’صنفِ آہن‘ کی تو پہلی بار ہمارے ملک کا پرچم بھی لاہور سیکریٹریٹ پہ ایک صنف آہن بیگم زاہدہ حیات صاحبہ نے ہی لہرایا تھا۔
لہذا صنف آہن تو عورت 2006 سے قبل بھی تھی اور بغیر یونیفارم کے بھی تھی اور ہمیشہ صنف آہن ہی رہے گی۔
اس لیے یہ لفظ کچھ بےمعنی لگ رہا ہے۔ اس لفظ کے تلے عورت کی مکمل شناخت محدود ہوتی ہے۔
خیر آج خواتین کا عالمی دن ہے۔ سب کو یوم خواتین مبارک!