ہمارے ملک میں بہت سے موضوعات پر بات کرنا آسان نہیں کیوں کہ ان کے پر بات کرو تو زندگی مشکل کر دی جاتی ہے۔ کچھ لوگ لاپتہ ہو جاتے ہیں، کچھ کو قید کر دیا جاتا ہے، کچھ پر درجنوں مقدمات قائم ہو جاتے ہیں تو کچھ کو ڈرا دھمکا کر چپ کرا دیا جاتا ہے اور کچھ جان بچا کر ملک سے کوچ کر جاتے ہیں۔
ہم چاہیے انسانی حقوق کی طرف دیکھیں، مذہبی رواداری کی طرف جائیں، عدل و انصاف ہو، جمہوریت ہو پارلیمانی نظام ہو یا پھر آزادی صحافت یا آزادی رائے ہو اس ملک میں ہر چیز تنزلی کا شکار ہے۔
گذشتہ برس غزہ کے بعد ہم وہ واحد ملک تھے جہاں سب سے زیادہ صحافی قتل ہوئے یہاں کوئی جنگ تو نہیں ہو رہی۔ کہنے کو تو یہاں جمہوریت ہے، دو بڑی سیاسی جماعتیں سیاہ سفید کی مالک ہیں، پر عدم برداشت نفرت اور سینسر شپ اتنی بڑھ گئی ہے کہ بولنے والے کو چپ کرا دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات وقتی طور پر اور بعض اوقات ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ انسان چپ ہوجاتا ہے۔
جب میں بلوچستان کی بیٹیوں کی طرف دیکھتی ہو تو ان کے روح پر لگے گھاؤ تک نظر آتے ہیں۔ ان کی نم آنکھوں میں ظلم کی داستانیں صاف نظر آتی ہیں۔ کوئی اپنے بھائی کی تلاش میں ہے کوئی والد کو ڈھونڈ رہی ہے، کسی کا خاوند لاپتہ ہے۔ ہماری اشرافیہ یہ کہہ کر بری الزمہ ہو جاتی ہے کہ دیکھ لیں ان کے پیارے دشمن ممالک کی گود میں تو نہیں بیٹھے۔ یہ ان کے سوالات کا جواب نہیں یہ بلوچستان کے مسائل کا حل تو نہیں۔ جب تک ہم وہاں کے بسنے والوں کو انصاف نہیں دیں گے معاملات الجھتے جائیں گے۔
پھر پنجاب کی بیٹیوں کی طرف دیکھتی ہوں تو سیالکوٹ کی ایک ماں کا گریبان چاک نظر آتا، ایک اجتجاج کرتی لڑکی نے دوپٹہ پھینکا تو پولیس نے شرمندہ ہونے کے بجائے اس کو بالوں سے پکڑ کر گرفتار کیا اور ایک خصوصی بچی جس سے چلا نہیں جا رہا تھا، اس کو گھسیٹ کر پولیس وین میں ڈالا گیا۔
بہت سے گھروں میں اہلکار رات کو کودے اور چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا۔ علامہ اقبال کی بہو کے گھر تک کو نہ چھوڑا کیا۔ جرم کیا تھا؟ ایک سیاسی جماعت کی حمایت کرنا جس کو فی الحال مقتدرہ کی طرف سے سیاست کی اجازت نہیں مل رہی۔ ان کا سیاسی نشان چھین لیا گیا، کاغذات نامزدگی تک نامعلوم افراد لے گئے، لیکن سیاسی کارکنان اپنے نظریے سے ہٹے نہیں۔
خاص کر پی ٹی آئی کی خواتین کی قیادت کے لیے زندگی تنگ کردی گئی۔ مہینوں پابند سلاسل رہی، اس کے بعد بھی جیل میں پیشیاں بھگت رہی ہیں۔ کہنے کو تو صوبے میں ایک عورت کی حکومت ہے لیکن دوسرے نظریات رکھنے والی خواتین کو جلسے دھرنے سیاست کی اجازت نہیں۔
میں نے سیاسی کارکنان کو جیل کی قید کے بعد ہڈیوں کے پنجر کی مانند دیکھا ہے یہ جسم کے گھاؤ تو بھر جائیں گے لیکن روح جو نیلو نیل ہے وہ زخم کیسے بھریں گے؟
ایسا لگتا ہے مرد عورتیں بچے نہ ہی اب آزادی رائے سے بات کر سکتے ہیں نہ ہی ایکٹوازم کرسکتے ہیں نہ ہی ان کو سیاست کی اجازت ہے۔ کچھ چیزوں پر اشرافیہ اپنی اجاہ داری چاہتی ہے، وہ اس میں مڈل کلاس عوام کی شراکت داری برداشت نہیں کر پا رہے، جبکہ ملک کے حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موضوعات کی فہرست طویل ہے جن پر ہم سبز پاسپورٹ والے پاکستانی بات نہیں کر سکتے، لیکن ایک ایسا موضوع معاملہ توہین مذہب کے الزامات اور کیسز کا بھی ہے۔
توہین مذہب کو اکثر پاکستان میں ذاتی بدلے دشمنی نکالنے کے لیے مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا الزام ہے جو ایسے لوگوں پر بھی لگ جاتا ہے جو اس کے مرتکب نہیں ہوتے۔
ہجوم خود ہی پولیس جج جیوری بن کر فیصلہ سنا دیتا ہے اور ایک مظلوم کی جان چلی جاتی ہے۔ ویسے بھی شاہراہ دستور پر نئی تقرریاں ہورہی ہیں۔ انسانی حقوق کی یادگار پر پکوڑے سموسے تلے جا رہے تو کون ان لوگوں کو انصاف دے گا جو انصاف کے منتظر ہیں۔
سیالکوٹ کے دو بھائی منیب اور مغیث کو ہجوم نے قتل کیا تھا۔ حاملہ شمع کو جب ہجوم نے بھٹی میں پھینکا تھا تو بعد میں لاش کے نام پر اس کا ایک دانت ہی ملا تھا۔ مشعال خان کو تو اس کی درس گاہ میں توہین مذہب کے الزام میں قتل کیا گیا۔ پھر سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے ساتھ جو ہوا اس پر پوری دنیا نے تاسف کا اظہار کیا، پھر لاہور میں عربی حروف پہنی قمیض والی خاتون کے خون کے سب پیاسے ہو گئے تھے۔
سندھ میں ڈاکٹر شاہنواز کو جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا اور ہجوم نے ان کی لاش نذرآتش کر دی۔ بعد میں ان کیسز میں یہ ثابت ہوا کہ یہ لوگ بےگناہ تھے۔ ایسے موقعوں پر ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ پولیس ہجوم کا ساتھ دیتی ہے یا ڈر کر پیچھے ہٹ جاتی ہے۔
ایسی کتنی مثالیں جو ہجوم کی نفسیات اور سفاکی کو عیاں کرتی ہیں۔ اگر ہم اپنا مین سٹریم میڈیا دیکھیں تو ایسے موضوعات پر سکوت چھایا ہوا ہے، لیکن گذشتہ ہفتے ٹی وی شائقین اس بات پر حیران ہو گئے جب ہم ٹی وی کے ڈرامے ’تن من نیل و نیل‘ میں اس حساس موضوع کو زیربحث لایا گیا۔
یہ ڈراما پاکستان کے معروف ہدایت کار سیفی حسن نے بنایا ہےاور اس کے مصنف مصطفی آفریدی ہیں اور پیشکش سلطانہ صدیقی کی ہے جو ڈراما انڈسٹری کا بڑا نام ہیں۔ اس ڈرامے میں اداکاری کے جوہر سمعیہ ممتاز، نادیہ افگن، نعمان مسعود، سحر خان، شجاع اسد اور دیگر نے دکھائے۔
اداکاروں کی اداکاری اتنی جاندار تھی کہ لگتا نہیں تھا کہ کوئی ڈرامے کا سین ہے، لگ رہا تھا کسی نے پاکستانی ہجوم کی سفاکی کو چوک میں بےنقاب کر دیا ہے۔
اس ڈرامے کے نوجوان کردار رابی سونو اور مون کچھ کرنے کی خواہش رکھتے ہوتے ہیں۔ پر ان پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگ جاتا ہے۔ جب وہ پنڈال سے اپنی جان بچانے کے لیے بھاگتے ہیں تو ہجوم ان کے پیچھے ڈنڈے کلہاڑیاں لے کر دوڑ رہا ہوتا ہے۔
ان کی آنکھوں میں خوف ہوتا ہے بےبسی اور لاچاری عیاں ہوتی ہے، جبکہ ہجوم کے سر پر خون سوار ہوتا ہے۔ جب یہ تینوں تنگ گلیوں میں بھاگ رہے ہوتے ہیں تو ایسا لگا ہے کہ جیسے منیب مغیث، شمع، اور مشعال خان اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہے ہوں۔
مجھ سمیت بہت سے لوگ جو ناانصافی کا شکار ہیں وہ رو پڑے۔ وہ تمام زخم تازہ ہو گئے جن پر کسی نے مرہم نہیں رکھا۔
اداکاروں کی اداکاری اتنی جاندار تھی کہ لگتا نہیں تھا کہ کوئی ڈرامے کا سین ہے، لگ رہا تھا کسی نے پاکستانی ہجوم کی سفاکی کو چوک میں بےنقاب کر دیا ہے۔ کتنی ہی مظلوموں کی کہانی ان تین کرداروں میں نظر آئیں جن کے خوابوں کو ہجوم نے نوچ ڈالا۔
اس نظام نے کتنے ہی احساسات کو روند ڈالا ہے، معاشرے کی سفاکی انصاف سے محرومی نے بہت سے افراد کو مجھ سمیت نیلو نیل کر رکھا ہے۔ مجھے ٹی وی پر یہ ڈراما ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند لگا کہ پاکستانی ڈرامے شادی طلاق دوسری شادی سے ہٹ کر بھی موضوعات پر کام کر رہے ہیں۔
شاید وہ وقت دور نہیں جب انتخابات میں دھاندلی، اداروں کا آئینی حقوق سے تجاوز کرنا، آمریت اور سقوط ڈھاکہ پر بھی ڈرامے بنیں گے۔ تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔
نوٹ: یہ تحری کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔