پاکستانی ڈراما ’قصہ مہربانو کا‘ فروری کے ساتھ ہی ختم ہوا۔ مارچ بہار کی آمد کا مہینہ ہے۔ اس میں بہار کے تہوار منائے جاتے ہیں۔ یہ ڈراما بھی ایسی کئی کلیاں سوچ کی شاخوں پہ چھوڑ گیا ہے۔
’اے رب العزت، ہماری زندگیوں کو آسان بنا دیجیے۔ اس گھر کے در و دیوار جس جس کے منتظر ہیں وہ لوٹ آئیں۔ میرے ابا کے کاندھوں پہ جو بوجھ ہےوہ اٹھا لیجیے۔ جو ہمیں آدھے رستے میں چھوڑ گئے انہیں گھر کی دہلیز یاد آجائے اور جو ایک قسم، ایک وعدے کی بھینٹ چڑھ گئے ان پر بھی اپنا رحم کیجیے۔‘
یہ وہ دعا بھی ہے جو مہرو ڈرامے کی پہلی قسط میں مانگ رہی ہے اور ڈرامے کا خلاصہ بھی۔ جب وعدے، دوستیاں، قسمیں، انائیں ہی نبھانی ہوں تو اولاد کا مستقبل نہیں دیکھا جاتا۔ سو پروفیسر صاحب کا بیٹا، باپ کے ہوتے ہوئے دربدر ہو گیا۔ بیٹی مہرو کبھی اس گھر میں نہیں بس سکی جہاں نکا ح کیا گیا تھا۔ اس کا شوہر ایک نالائق اورلالچی انسان تھا۔ دوسری بیوی کو بھی اس نے دولت کے عوض ہی رکھا ہو تھا اورمہرو کی جائیداد بھی اڑانے کے چکر میں تھا۔
انتقام، لالچ، حسد، انا، بغض، کینہ، نفرت، منافقت، سب ایک ہی خاندان کے رکن ہیں۔ سب ایک آگ کی ہی تاثیر رکھتے ہیں۔ اگر ایک بیماری انسان کے اندر آ جائے تو باقی کے تمام جراثیم خود بخود انسان میں آ جاتے ہیں۔ اس سارے خاندان کی پہچان یہ ہے کہ ہار کر بھی ہار نہیں مان رہے ہوتے۔ ہر برائی میں جواز من تلاش کر لیتے ہیں۔ اس سے زندگی منتشر اور بے سکون ہو جاتی ہےاور انسان تہنا رہ جاتے ہیں۔
والدین اولاد پیدا کر کے اسے اپنا غلام سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ جو بھی کہیں، اولاد ان کی ہر بات پہ اپنی پوری ذات قربان کر دے۔ لیکن وہ یہ بھول رہے ہوتے ہیں کہ وہ بھی بطور اولاد ہی پیدا ہوئے تھے۔
اپنی دوستیاں، اپنےرشتے، اپنے قول، اپنی عزت، اپنا خاندانی پن نبھانے کے لیے وہ ساری توقع اور ذمہ داری اولاد پہ ڈال دیتے ہیں۔ بیٹا ہو یا بیٹی کسی نہ کسی طرح اس لا شعوری سوچ اور رویے سے متاثر ہوتے ہیں۔
ڈرامے میں بھی دو دوست اپنی دوستی نبھانے کے لیے اپنے بچوں کی شادی کو سہارا لیتے ہیں۔ جس شادی پہ فریقین خوش نہیں تھے لیکن والدین کے سامنے مجبور تھے۔ جھگڑے بڑھنے لگے تو اس رشتے کو بچانے کے لیے بھی والدین نے ایک اور رشتہ اپنی ہی مر ضی سے طے کر دیا۔ یوں وٹہ سٹہ یا ادل بدل کی شادی نے انتقام کی آگ کو جنم دیا۔ اور جب ایک صفت انسان میں آ جائے اس کے قبیل کی باقی تمام صفات خود ہی آ جاتی ہیں کے مطابق باقی کہانی چلتی رہی۔
جب لڑکی رہنا ہی نہیں چاہتی تو اپنے بیٹے پہ اسے زوجہ بنائے رکھنے کا بوجھ والدین کیوں ڈالتے ہیں؟ بیٹے کو گھر سے نکال دینا ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ جہاں باپ کی انا کو ٹھیس پہنچی’نکل جاؤ میرے گھر سے‘ کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔
اس کے بعد بیٹی پہ باپ کی عزت و غیرت کا بوجھ دوگنا ہو جاتا ہے۔ جیسے اس ڈرامے میں ہوا کہ لڑکی کا باپ اس پہ عمر بھر اپنے اس شوہر کے انتظار کرنے کا بوجھ ڈال دیتا ہے، جو اس کے بھائی کے گھر کو بچانے کے لیے خریدا گیا ہوتا ہے۔
جب باپ کی انا اتنی طاقتور ہے تو بیٹا بھی اسی انا کا مالک ہو گا، لہٰذا مہرو کا بھائی جب ایک بار گھر چھو ڑ گیا تو پلٹ کے پوچھا بھی نہیں اور آخر ڈراما ہے، ڈرامے کے آخر میں تمام معاملات حل ہو جاتے ہیں، مگر بھائی لوٹ کے نہیں آیا۔ اس کی صورت میں اس کا بیٹا موجود ہے مگر ایک انا، ایک ضد نے کتنے لوگوں کی زندگیاں تباہ کر دیں۔ ہنستے بستے گھر کو پروفیسر صاحب کی ضد اور سوچ نے مکان بنا دیا۔
اتنقام اور انا کی آگ میں دو خاندان اپنی نسلیں تباہ کر دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیٹی انتظار کرتے کرتے بےحس ہو جاتی ہے۔ اپنی ذات کو اپنے اندر دفن کر دیتی ہے۔ بھائی کی جدائی سے جو تنہائی اس میں آتی ہے وہ الگ خاموشی ہے۔ بہن کی وفات کے بعد اس کی ایک بیٹی بھی وہ پال رہی ہے۔ دوسری طرف بھابھی طلاق کے بعد فوت ہو جاتی ہے اور بھتیجا اپنے ننھیال میں ملازموں کی اولاد کی طرح پل رہا ہے۔
زندگی ہو یا کہانی چند فیصلے کے ستونوں ہی کھڑی ہوتی ہے۔ پوری کہانی کا جائزہ لیا جائے تو ایک خواہش کے قدموں میں پڑی ملتی ہے کہ بچوں کی شادی کر کے دوستی نبھانی ہے اور خاندانی پن زندگی ہار کر، قول نبھا دینے کا نام ہے۔ ہمارے سماج میں اس خاندانی پن کی بھینٹ کتنی اولادیں چڑھ جاتی ہیں، کبھی والدین کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔
ڈرامے اس لیے نہیں بنائے جاتے کہ ان میں موجود چالاک ہوشیار کرداروں سے ہم یا آپ شر سیکھیں بلکہ ڈرامے ہمیں بتاتے ہیں کہ دیکھیں، آگ میں کودنے سے آگ ہی لگتی ہے اور خیرکے باغوں میں سکون کے ہی پھل لگتے ہیں۔ اپنی اولادوں کو زندگی سیکھنے کا ہنر دیں۔ قربان ہو جانے کا درس مت دیں۔
غیرت، عزت اور خاندانی پن کے نام پہ خود کو اور اولاد کو سولی پہ مت چڑھائیں۔ زندگی جینے کے لیے ملی ہے۔ ایک فیصلہ غلط ہو بھی جائے تو دوسرا فیصلہ کرتے ہوئے ہزار بار سوچ لیں۔ جذباتی مت ہوں۔ انا کا مسلہ مت بنائیں۔ ہار جانے میں بھی جیت چھپی ہوتی ہے۔
ڈرامے میں مہرو کے والد کا کردار احساس جرم میں مبتلا ہی اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ وہ تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔ تنہائی تقسیم کرنے والوں کو تنہائی کاٹنی پڑتی ہے۔ زندگی کے چند غلط فیصلوں کو درست ثابت کرنے کی جنگ نے پروفیسر صاحب کا اپنا بھی سکون بھی آخری دم تک تباہ کر رکھا تھا۔ اولاد اور اولاد کی اولاد کی زندگی بھی مشکل میں ڈالی ہوئی تھی۔ جوانی کی طاقت بھی فرعون جیسی ہو تی ہےشاید۔ ڈرامے میں مکافات عمل کی صورت کہانی پن میں رچی بسی ملتی ہے۔
بیٹے کو توپروفیسرصاحب نے گھر سے نکال دیا مگر بیٹیاں تو بیٹیاں ہوتی ہیں۔ اندر ہی اندر راکھ بن جاتی ہیں۔ نہ گلہ کرتی ہیں، نہ بغاوت، الٹا والدین کا ساتھ نبھائے چلے جاتی ہیں، لیکن والدین کے فیصلے اور تربیت ان کی زندگی کی زنجیر بن جاتے ہیں۔ پھر بھی وہ اس کی خبر اپنے آپ کو بھی نہیں ہو نے دیتیں، اور لاشعوری فرار کے طور پہ اللہ کی طرف راغب ہو جاتی ہیں۔
کہانی میں جہاں جہاں دعا کا منظر آیا ہے وہاں وہاں زندگی سوال بنی اپنا آپ مانگ رہی ہے۔ بے بسی کی انتہا دعا ہے، اور ڈرامے میں مہرو اس کے سہارے سانس لے رہی ہے۔
آخری قسط میں مہرو کے اندر جنم لیتے سارے سوال کمرۂ عدالت میں سامنے آ جاتے ہیں۔ اس کے فیصلے اس کی بے بسی کا ثبوت ہیں۔ دو وقت کی رو ٹی کے عوض والدین اور شوہر کے ساتھ، بےبسی کی زندگی گزارنا، اپنے لیے کو ئی فیصلہ نہ کر سکنا، بے سروپا ہوتے ہوئے شوہر کے سب جسمانی اور ذہنی ظلم کوبرداشت کرنا سماج میں کتنی ہی بے بس بیٹیاں اس آگ میں تنہا جل رہی ہیں۔
مہرو عدالتی کارروائی کے بعد پڑھنے کا فیصلہ کرتی ہے، تاکہ اپنے قدموں پہ کھڑی ہو سکے۔ ان خواتین کو ہنر مند بنانا چاہتی ہے جو اس کی طرح دو وقت کی روٹی کے عوض مجبور ہیں کہ اگر ان کے ساتھ کوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو وہ اپنی اولاد کے لیے، اپنے لیے کچھ کر تو سکیں۔
خیر پہ ڈراما تو ختم ہو جاتا ہے لیکن زندگی میں خیر تک کے سفرتک زندگی سفر ہو جاتی ہے، لہٰذا خاندانی پن کے نام پہ، عزت کے نام پہ، جذبات کے نام پہ، جوانی کی طاقت میں اپنی اولاد کو بھینٹ مت چڑھائیں۔ بیٹا ہو یا بیٹی ان کو مکمل انسان سمجھیں، اور ’نکل جاؤ میرے گھر سے‘ کہتے ہو ئے سوچیں آپ نے ان بچوں کو پیدا کیا ہے، یہ گھر ان کا بھی ہے۔
یہ ڈراما اتنے سارے خاموش پیغام دے گیا ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے نئی کاسٹ دکھائی دی۔ نوجوان اپنے فطری روپ میں نظر آئے۔ فیشن زدہ نہیں تھے، ٹین ایج کا حسن ٹین ایج کا ہی لگ رہا تھا۔ باقی کرداروں کا میک اپ بھی نیچرل اور کرداروں کے اعتبار سے تھا۔ ایسا اب معدوم ہوتا جا رہا ہے۔
اسلام آباد کے حسین منظر نامے نے کہانی کی کڑوی گولی کوسنبھالا دیا ہوا تھا، ورنہ یہ سماج کا وہ آ ئینہ ہے، جو بزرگ خود بھی نہیں دیکھنا چاہتے۔ جوانوں کے لیے الارم ہے۔ کہانی مکمل طور پہ مصنف کی گرفت میں رہی۔ کہیں جھول محسوس نہیں ہوا۔
کہا جاتا ہے معاشرہ جتنا ترقی یافتہ تہذیب یافتہ ہوتا ہے۔ اس کی انا اتنی ہی کم ہوتی ہے اور سماج جتنی پستی میں ہوتا ہے اس کی انا اتنی ہی بلند ہوتی ہے۔ شاید انسانوں پہ بھی یہی فارمولا لاگو ہوتا ہے۔