ایک دور تھا جب ہمارے ملک میں ٹیلی ویژن پر ڈراما چلتا تھا، بقول شخصے صرف اپنے ملک میں ہی نہیں، سرحد پار بھی سڑکیں سنسان ہو جایا کرتی تھیں۔
یہ ڈراما صرف کہانی نہیں ہوتی تھی، صرف معاشرے کا عکس نہیں تھا، صرف مسائل اور ان کے مناسب حل تلاس نہیں کیے جاتے تھے، صرف ذہن سازی اور سوچ کے تغیر کی بنیاد نہیں تھا، صرف تفریح نہیں تھا بلکہ ہماری مکمل ثقافت کا آئینہ دار تھا۔
وہ ثقافت شہر کی ہو یا قصبات و دیہات کی یا ان کی آمیزش سے جو حسن پیدا ہوتا ہے، وہ ان ڈراموں میں اجاگر کیا جاتا تھا۔ یوں ثقافتی محبت کی ایک لازوال داستان نے ڈرامے کی مدد سے زندگی میں تعصب کو ختم کیا۔ ثقافتوں کی اجنبیت کو ختم کیا۔
لیکن اس کے بعد دھیرے دھیرے ڈرامے کے معیارات بدلنے لگے۔ پڑوسی ملک کے ڈرامائی انداز اور مصنوعی قسم کی کہانیوں نے جگہ بنانا شروع کر دی۔
ترک ڈراموں نے بھی اپنے اثرات چھوڑے۔ چین کا ڈراما بھی یہاں آیا اور خوب دیکھا گیا۔ یوں بین الاقوامی ثقافت نے ہمارے ڈرامے کو متاثر کرنا شروع کر دیا۔
ڈراما چینل کو اجازت نامے مل گئے، ایک سرکاری اور ایک نجی چینل سے نکل کر بےشمار ڈراما چینلوں کو این او سی جاری کر دیا گیا۔
ڈراما نے اپنا ثقافتی رنگ گلوبل رنگ میں بدلا۔ مصنوعی مسائل بلکہ کہیے، بکتے ہوئے مسائل پہ ڈراما بننے لگا۔
اب یہ کاروبار تھا، اور کاروبار کا ایک ہی اصول ہوتا ہے نفع۔ لہٰذا ڈراما کاروبار بنا۔ مصنوعی کہانیاں دو عشرے تک ناظر اور ذہن کو متاثر کرتی رہیں۔ لیکن درمیان میں کچھ اپنی زمین سے جڑے ڈرامے بھی آئے اور بہت پسند کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن ایک بھاگم دوڑ تھی۔ مقبولیت اب ریٹنگ سے دیکھی جانے لگی۔ ایک خالص کاروباری نظام سے ڈرامے کے معیارکو پرکھا جانے لگا۔ اس ہوا یہ کہ ہماری ثقافت ڈرامے سے کہیں کھو سی گئی۔
ڈراما اب بین الاقوامی سطح کی ذہن سازی کر رہا تھا، جب کہ مادیت کی بنیاد پہ ہم ابھی اس ترقی کی سطح تک نہیں پہنچے تھے۔
یہ یونہی تھا جیسے ایک ترقی یافتہ اور خواندہ ملک سے ہم کسی ترقی پذیر ملک اور کم پڑھے لکھے کا موازنہ کریں۔ تو ایسا ہوتا نہیں ہے۔ تقابل برابر کی ٹیم سے ہوتا ہے۔
اس دوران ثقافت ہی نہیں گم ہوئی، ڈرامے سے مردانہ کردار بھی کھو گیا۔ اب ایک اجنبی سا مرد کردار ڈرامے میں دکھائی دینے لگا، جن کا کام بیگ پکڑ کے دفتر آنا اور جانا رہ گیا تھا۔ اس کا عمل ردعمل معاشرے سے میل نہیں کھا رہا تھا۔ کمزور ترین مردانہ کردار ڈرامے اور کہانی کا توازن بر قرار نہیں رکھ پا رہے تھے۔ مردانہ کردار ڈرامے یا کہانی سے جیسے الگ ہو چکا تھا۔
نیوز چینلوں نے الگ ڈراما شروع کر دیا تھا۔ جذباتی ڈائیلاگ، سنسنی خیز پلاٹ، حتیٰ کہ بعض اوقات مار کٹائی سے بھرپور فلم چلنے لگی۔ اس سے ڈراما چینل متاثر ہوئے کیوں کہ لوگوں نے سوچا کہ جب نیوز چینل پر ہی سب کچھ مل رہا ہے تو پھر ڈراما دیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟
بےشمار ڈراما چینلوں نے دھڑادھڑ ڈرامے بنانے شروع کر دیے، تعداد معیار پر حاوی آ گئی اور اکثریت میں مصنوعی پن دکھائی دیا۔ کہانیاں شہروں اور ایک خاص طبقے کے مسائل تک محدود ہونے لگیں، جو بین الاقوامی ڈراموں سے بھی متاثر ہو رہی تھیں۔
ابھی کے ڈراموں میں بات کریں تو ’سنگِ ماہ‘ اور ’صنفِ نازک‘ ہماری زمینی تہذیب سے جڑی کہانیاں ہے۔ ’صنفِ نازک‘ میں کچھ منطقی اور تیکنیکی خامیاں دکھائی دیتی ہیں، اس کے باوجود یہ ہمارے تمام صوبوں کی ثقافت کی نمائندگی کر رہا ہے اور اس کے کمزور کرداروں کو ایک بار پھر تہذیبی روح عطا کر دی ہے۔
دو عشرے ناظریں نے یوں گزارے۔ ڈرامے اپنے عروج سے عبوری دور میں داخل ہو گئے۔ اس میں سے مقامی تہذیب و ثقافت نکل کر اجنبی ہو گئی۔ مسائل ہی مسائل رہ گئے۔ وسائل کے ساتھ ان کو رنگین کر دیا گیا۔
آخر کار اس عبوری تجربے نے ڈرامے اور اداروں کو اپنی زمین کی طرف آنے پہ مجبور کر دیا۔
اور کچھ عرصے سے ہمارے ڈرامے میں ایک بار پھر ہماری اپنی تہذیب و ثقافت کی رنگا رنگی لوٹ آئی ہے اور اس کو وہی مقبولیت حاصل ہو رہی ہے جس کا وہ حق دار ہے۔
ابھی کے ڈراموں میں بات کریں تو ’سنگِ ماہ‘ اور ’صنفِ نازک‘ ہماری زمینی تہذیب سے جڑی کہانیاں ہے۔ ’صنفِ نازک‘ میں کچھ منطقی اور تیکنیکی خامیاں دکھائی دیتی ہیں، اس کے باوجود یہ ہمارے تمام صوبوں کی ثقافت کی نمائندگی کر رہا ہے اور اس کے کمزور کرداروں کو ایک بار پھر تہذیبی روح عطا کر دی ہے۔
درمیان میں ڈراما ’الو برائے فروخت نہیں‘ نے بھی مضبوط ثقافتی و تہذیبی عکاسی کی ہے، جب کہ ’ٹی وی ون‘ نے افسانوں پہ ڈراما بنانے کا کامیاب تجربہ بھی کیا ہے۔
تہذیب و ثقافت کے بنا کہانی جاندار نہیں رہتی نہ ہی اس میں اپنائیت کا رنگ آتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک دور آیا جب غیر ملکی ڈراما زیادہ دیکھا جانے لگا، کیونکہ اسے زیادہ مصنوعی پن کیا پیش کی جا سکتا تھا۔ اگر مصنوعی پن ہی تفریح بننا ہے تو باہر کا ڈراما اس کو پورا کر رہا تھا۔
جیسے انسان خواب میں کسی ایسی جگہ ہو آئے۔ جہاں وہ حقیقت میں جا نہیں سکتا یا جس کا حقیقت میں وجود ہی نہیں ہوتا لیکن خواب کی ایک عمر ہوتی ہے۔
یونہی مصنوعیت کی ایک عمر ہوتی ہے جو ہمارا ڈراما کافی حد تک گزار کر واپس اپنی مٹی کی خوشبو سے مہک اٹھا ہے۔ یہ نیا ڈراما انس کو بڑھاتا ہے، محبت پھیلاتا ہے اور مل کر رہنے کا درس دیتا ہے۔ یہ ڈراما فاصلے کم کرنے کی کوشش کر رہا ہےاور رابطوں کو بحال کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔
امید ہے ہم پھر سے اپنی مٹی سے جڑے لازوال ڈرامے اور اپنی زمین کی کہانیاں پیش کر کے اسی طرح اپنے ناظرین کی توجہ کا مرکز بن جائیں گے۔
جب ہم اپنی ثقافت سے جڑ جائیں گے تو اس کے بعد جب یہاں ڈراما لگے گا تو سرحد پار کی ویران سڑکیں بتائیں گی کہ آج ڈرامے کی کون سی قسط ہے۔