پاکستان کی اداکارہ فائزہ حسن اپنی جاندار اور حقیقت سے قریب اداکاری کے ذریعے کرداروں میں ڈھل کر سماع باندھ دیتی ہیں۔
ان کا کام جان دار اور یادگار کرداروں سے بھرا ہوا ہے، جن میں برنس روڈ کی نیلوفر، وجودِ لاریب اور نند کے علاوہ 2018 میں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم ’لوڈ ویڈنگ‘ میں شامل ہے۔
ان دنوں ان کا ڈراما ’آپا شمیم‘ بہت پسند کیا جا رہا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے ایک خصوصی نشست میں کچھ سوال کیے، جن میں پہلا سوال یہ تھا کہ ’آپا شمیم کیا بلا ہے؟‘
انہوں نے جواب میں کہا کہ یہ ایک ایسی بلا ہے جو کچھ لوگوں کے لیے بہت اچھی اور کچھ لوگوں کے لیے ذرا بری نہیں!‘
فائزہ کا کہنا تھا کہ ’نندیں مجھ سے ناراض نہ ہوں کیوںکہ یہ کردار نند سے مختلف ہے۔ نند مکمل بری تھی، یہ تو لوگوں کے کام بھی آتی ہے، وہ کچھ لوگوں کے لیے بہت اچھی ہے کچھ لوگوں کے لیے بری ہے جو اس کو بری لگ جاتے ہیں ان کے لیے وہ بہت بری ہے لیکن آپا شمیم بعض لوگوں کے لیے بہت اچھی بھی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ٹائٹل کردار کرنا ان کی خوش نصیبی ہے کیونکہ محنت تو تمام اداکار ایک جیسی ہی کرتے ہیں۔ پروڈکشن والے مہربان ہیں۔
’بہت سے مصنف مجھے ذہن میں رکھ کر کردار لکھتے ہیں۔ یہ صرف اچھی قسمت ہے۔‘
ان کے مطابق: ’نند بھاوج کے کردار میں مسائل ہوتے ہیں، رشتوں میں تیزابیت ہوتی ہے کیونکہ ہمارے یہاں مشترکہ خاندانی نظام ہے، بہت سے رشتے مناسب فاصلے کا تقاضہ کرتے ہیں، اکٹھا رہنے سے مناسب فاصلہ نہیں رہتا اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔‘
اگرچہ ان کا خیال ہے کہ ’پاکستانی ڈراما نند بھاوج یا ساس بہو سے آگے نکل رہا ہے، یہ ہر دور کا اپنا خاصہ ہوتا ہے، 80 میں کچھ اور تھا، 90 میں کچھ اور اور آج یہ، تو وقت بدلتا رہتا ہے۔‘
فائزہ نے بتایا کہ جب وہ لوگوں سے ملتی ہیں تو پوچھا جاتا ہے کہ آپا شمیم ایسا کیوں کر رہی ہیں؟
’لوگ پوچھتے ہیں تم یہ کیوں کر رہی ہو۔ یہ ہے، لیکن ساتھ میں بہت پیار بھی کرتے ہیں اور مجھے کبھی کسی کے رویے سے تکلیف نہیں ہوئی۔
نرس کے کردار کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ انہیں ہمیشہ سے یہ کردار کرنے کا بہت شوق تھا۔ اس طرح مجھے پولیس والی، سرکاری سکول کی ٹیچر یا وکیل جیسے کردار کرنے کا بہت شوق ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’نرس کا کردار پتہ نہیں کب سے میرے ذہن میں تھا تو مجھے جب بگ بینگ کی طرف سے آفر ہوا تو میں نے یوں کر کے کہا کہ اوکے فائن میں کر رہی ہوں۔
’میری بہن ڈاکٹر ہے جب وہ ہاؤس جاب کرتی تھی تو میں وہاں اس سے ملنے جایا کرتی تھی تو وہاں بڑے مزے کے کردار ہوتے تھے۔
’میں ان نرسوں کے ساتھ وقت گزارتی تھی، ان کا حلیہ اور انداز ذہن میں تھا، تو میں نے اسی کو کچھ کمی بیشی کے ساتھ نبھانے بھی کوشش کی ہے۔‘
آپا شمیم کے انجام کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ غلط کام کا غلط انجام تو ہوتا ہے، ٹھیک ہے تو ہو گا لیکن اب اس کی کتنی نوعیت ہو گی کتنی شدت کا وہ غلط کام ہو گا اور کتنا اس کا اثر ہو گا اس کے لیے آپ کو ڈراما دیکھنا پڑے گا۔
فائزہ نے دعوٰی کیا کہ اگر دیکھا جائے تو آپا شمیم کا کردار ایک خاتون کو بااختیار بنانا ہے، وہ بھاوج کے ساتھ بری ہے، مگر لوگوں کا علاج بھی مفت کرتی ہے، اب ہر کسی میں کچھ برائیاں تو ہوتی ہیں۔
آپا شمیم میں موٹر سائیکل والے سین پر ان کا کہنا تھا کہ وہ خود اس طرح موٹر سائیکل پر بیٹھنے کے خلاف ہیں کیوںکہ یہ خطرناک ہے۔
فائزہ کے مطابق وہ جب بھی موٹر سائیکل پر بیٹھتی ہیں تو اسی طرح بیٹھتی ہیں جیسے مرد بیٹھے ہیں کیونکہ یہی صحیح طریقہ ہے۔
پاکستانی ڈراموں میں کزن میرج زیادہ دکھانے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’مصنفین کو اس بارے میں سوچنا چاہیے، یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، میری بیٹی نے یہ ڈراما دیکھا تو اس نے بھی کہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟
’ان کے خیال میں کزن میرج کے اثرات کے بارے میں آگاہ کرنا بہت ضروری ہے، اس موضوع پر دو چار ڈرامے بننے چاہییں۔‘
اپنی حال ہی میں وائرل ہونے والے کلپ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بہت سے مرد حضرات ان کے ساتھ کام نہیں کرتے کیوںکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک تو ان کی عمر نظر آئے گی، دوسرے جو ٹائٹل کردار کرتی ہیں وہ ان کے سامنے کافی حد تک احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اگرچہ کوئی کسی کو دبا نہیں سکتا لیکن نا جانے کیوں مرد اداکار یہ سوچتے ہیں۔ فائزہ نے کہا کہ کیونکہ اب انہوں نے طاقت ور کردار کر لیے ہیں، اس لیے اب وہ کوئی مظلوم کردار کرنا چاہتی ہیں۔