رمضان کا آغاز ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ ہی رمضان کے لیے کی خصوصی نشریات اور خصوصی ڈرامے بھی ٹی وی سکرین کی زینت بن گئے ہیں۔
ان ڈراموں میں خاص اہتمام کیا جاتا ہے کہ ان میں شگفتگی اور مزاح موجود ہو تاکہ ناظر سال بھر کی سنجیدگی سے نکل کر ایک ماہ تو شگفتہ شگفتہ ڈراما سے لطف حاصل کر سکے۔
ایسا ہی ایک ڈراما جیو ٹی وی سے شروع ہوا ہے جس کا نام ہے ’چوہدری اینڈ سنز۔ ‘
ڈراما ابھی اپنی ابتدا میں بتا رہا ہے کہ کہانی میں کچھ مزے کی سی صورت حال پیش آنے والی ہے۔ ایک حیدر آباد کی لڑکی ہے تو ایک ہوشیار پور کے چوہدری کا پوتا ہے، جو برسوں سے ایک ہی جماعت میں پاس نہیں ہو رہا۔
مشترکہ خاندانی نظام پہ مبنی کہانی میں مشترکہ خاندانی نظام سے وابستہ تمام خصوصیات موجود ہیں۔ چونکہ ہر عمر کے افراد مل کر ایک خاندان بنا رہے ہوتے ہیں لہٰذا بزرگ بھی اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ خود کو جوان جوان محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں ہوتا یہ ہے کہ انسان اندر سے تنہا نہیں ہوتا۔ ایک دوسرے کے لیے قوت برداشت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے یہ خاندانی نظام بڑے معاشرتی نظام کے لیے انسان کو لاشعوری طور پہ تیار کر رہا ہو تا ہے۔
ڈرامے میں ہر عمرکا کردار اس کی اہمیت کو بڑھا رہا ہے، اور اس کو فیملی ڈراما بنا رہا ہے۔ چھوٹی چھوٹی شرارتیں اور حماقتیں کہانی کو منفرد بناتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایسے ڈرامے زیادہ قبول و مقبول ہو جاتے ہیں کہ انسان کا کیتھارسس ہو رہا ہوتا ہے۔
’چوہدری اینڈ سنز‘ میں چوہدری کا کردار سہیل احمد ادا کر رہے ہیں اور بہت عمدہ کر رہے ہیں۔ نور ان کے بیٹے کے کردار میں اپنی انفرادیت سے داد وصول کر رہے ہیں۔ ذات برادری کے مسائل کی وجہ سے جو کسک انسان کے اندر رہ جاتی ہے، بین السطور اس پہ بات ہو رہی ہے لیکن بہت شائستگی سے ہو رہی ہے۔
یونہی ڈرامے کی ہیروئن پری کی دادی ایک جاندار کردار ہے، جو ہمیں یہی سمجھا رہا ہے کہ اپنی اولاد کے بارے میں دنیا سے غلط کلمات ایک بار سن لیں تو ان کو آئندہ عادت ہو جاتی ہے۔ ہم آگ کو رستہ خود دیتے ہیں، اس کے برعکس اپنی اولاد پہ اعتماد کریں اور ان کو اعتماد دے کر ’دنیا کیا کہے گی‘ کو مسترد کر دیں۔ ان کے دوست بن کر ان کی طاقت بنیں۔ جنریشن گیپ کو دور کرنے کی کوشش کریں تو رشتے طاقت بن جاتے ہیں۔
ڈائجسٹ پڑھنے والی دادی ان کہانیوں سے زندگی کشید کر رہی ہیں۔ وہی زندگی وہ پوتی میں منتقل کر رہی ہیں جس کے والدین نہیں رہے۔ ویسے تو اسی صورت حال کو المیہ بھی بنایا جا سکتا تھا جس کو طربیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یوں ہمیں اندازہ ہوتا ہے زندگی کہیں بھی آسان نہیں ہے، ہم نے اسے خود کسی حد تک اپنے لیے قابل برداشت بنانا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پری یعنی عائزہ خان نے بالوں میں ربن کا جو کلاسیک سٹائل اپنایا ہے وہ بہت اچھا لگ رہا ہے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ اس عید پر جا بجا یہ سٹائل نظر آئے گا۔ پری اور داری کی محبت اور چوہدری اور بلو کی محبت میں وہ خاندانی نظام دکھائی دیتا ہے جو اب خواب بن گیا ہے۔ ارسہ غزل، شگفتہ اعجاز کافی مننفرد انداز میں جلوہ گر ہوئی ہیں۔ ایک نٹ کھٹ دادی، ایک چلبلی سی ڈاکٹر۔
ڈاکٹرکو دیکھ کر چوہدری صاحب کے اندر کا کوئی ٹین ایجر لڑکا جاگ جاتا ہے۔ انہیں کچھ کچھ ہونے لگتا ہے، شاید کسی وجہ سے یہ شادی نہیں ہو سکی۔ یہ وجہ کیا ہے اگلی اقساط میں ہی علم ہو گا۔
حیدر آباد دکن ، حیدر آباد، ہوشیار پور اور لاہور سے کراچی کے تہذیبی منظر نامے سے مکالموں کی بنت ہوئی ہے، جس میں انگریزی میڈیم کا تڑکہ لطف دے رہا ہے۔ انسان کے اندر کی شناخت کہیں نہ کہیں بول پڑتی ہے۔ اگر وہ شناخت زندہ رہے تو نہ صرف انسان زندہ رہتا ہے، بلکہ سماج بھی زندہ رہتا ہے۔ اگر دوسرے کی شناخت کو دل سے قبول کر لیا جائےتو زندگی گلزار بن جاتی ہے۔ کیونکہ سچ تو یہی ہے کہ ہر انسان اپنے فنگر پرنٹس کی طرح منفرد ہوتا ہے، اور ہمیں اسی انفرادیت کے ساتھ دوسرے کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ اسے بدل کر قبول کرنا ہماری سب سے بڑی خامی اور تعلق کی کمزوری بن جاتا ہے۔
طربیہ ڈراموں کا اصل مقصد ہی گلزار آباد رکھنا ہوتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جو کہانی ’قتل ہو گیا ہے،‘ ’کافور کی خوشبو نہ اٹھنے لگے،‘ ’کم پوٹینسی کی دوا کے لاڈلے بہانے،‘ ’بیٹے کو بزرگ‘ کہنے، دادا کے دوست ہونے اور چوہدری کے کھڑاک سے شروع ہوئی ہے اس کا اختتام عید تک کیسے ہوتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ صائمہ اکرام چوہدری کا قلم اور پروڈکشن ٹیم کا جادو کیسے چلتا ہے، پری اور بلو کبھی پاس ہوں گے یا نہیں، دادی کی زندگی میں پری کی شادی ہو گی یا نہیں، اور ہو گی تو کیسے ہو گی؟
کہاوت ہے کہ ہر انسان کو اپنے جیسا ہی جیون ساتھی ملتا ہے تو حیدر آباد کی پری اور لاہور کا بلو ایک دوجے کے لیے ہی بنے لگتے ہیں۔ جن کے ہم عمر تعلیم مکمل کر چکے ہیں اور یہ دونوں تعلیم سفر کر رہے ہیں۔ لیکن ان کو ملنا کیسے ہے؟
آئیے دیکھتے ہیں زندگی کی مشکلات کو طربیہ انداز میں کیسے بدلا جا سکتا ہے۔
رمضان مبارک!