’بادشاہ بیگم‘ آتے ہی چھا گیا۔ کہانی کے اچھوتے پن نے ناظرین کی توجہ بہت جلد حاصل کرلی اور کہانی بھی روانی میں چلتی ہوئی وہ سب کہے چلے جا رہی ہے ’جو کہی گئی نہ مجھ سے، وہ زمانہ کہہ رہا۔‘
بادشاہ بیگم، چاندنی چوک، آگرہ، لال قلعہ دہلی، جہاں آرا، روشن آرا اور شاہ جہاں یہ سب تاریخ کے باب کے ویسے ہی کردار ہیں اور اپنے تاریخی صفحات میں اپنے نئے پن کے ساتھ بہت خوبی سے لکھے گئے ہیں اور ساجی گل صاحب کی تاریخی گرفت اور تخلیقی حسن کے بجا طور پہ غماز ہیں۔
ڈرامے پر تو بات کرنے والے کر ہی رہے ہیں۔ اس کو ہر ہر انداز سے پرکھا جا رہا ہے،کیوں نہ ہم ذرا تاریخ کے شاہی محل سے تھوڑی سی سیاحت کر آئیں۔
چلیں صدیوں پیچھے چلتے ہیں۔
بادشاہ بیگم شاہی ملکہ کا لقب تھا۔ ممتاز محل جو شاہ جہاں کی ملکہ تھیں، خاتون اول ہونے کی حثیت سے امور مملکت کو چلانے کے فرائض سر انجام دیا کرتیں تھیں۔
یہ لقب ان کی حیثیت کو دوسروں سے ممتاز کرتا تھا۔ سب سے پہلے بادشاہ ظہیر الدین بابر نے یہ خطاب ماہم بیگم کو دیا۔ یوں یہ خطاب ملکہ کے نام سے زیادہ مقبول ہوا۔
لیکن اس خطاب کو شہرت ارجمندر آرا یعنی ممتاز محل سے حاصل ہو ئی۔ ممتاز محل بھی ارجمند آرا کا ہی لقب تھا اور بادشاہ بیگم بھی۔ ممتاز محل اور شاہ جہاں کی دو بیٹیاں تھیں۔ جہاں آرا اور روشن آرا۔
جہاں آرا کو اپنی والدہ کے انتقال کے بعد بادشاہ بیگم کا منصب اور لقب مل گیا۔ وہ اس وقت صرف 17 سال کی تھیں، لیکن انہوں نے بہت کم عمری سے اپنی والدہ کو یہ منصب نہ صرف سنبھالتے دیکھا بلکہ ان سے اس منصب کو احسن طریقے سے سرانجام دینا بھی سیکھ لیا تھا۔ ان کی تعلیم محل میں ہی ہوئی۔ 12 سال کی عمر میں جہاں آرا ڈائری بھی لکھا کرتی تھیں۔
روشن آرا ان کی چھوٹی بہن ہمارے ڈرامے میں بھی یونہی جہاں آرا کی چھوٹی بہن ہیں اور اسی طرح اپنی بڑی بہن سے ان کا کوئی کیمسٹری کلیش ہے۔ کوئی بدگمانی ہے یا کوئی حسد ہے، جیسے کہ شاہ جہاں کی چھوٹی بیٹی کو اپنی بڑی بہن جہاں آرا سے تھا۔
ڈرامے کے کردار کی طرح جہاں آرا بھی اپنے والد کی لاڈلی بیٹی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ملکہ کی وفات کے بعد بادشاہ نے اپنی بیٹی کو یہ منصب دیا۔ یوں بھی جہاں آرا ایک ذہین خاتون تھیں۔ فنون لطیفہ، فن تعمیر، مطالعہ اور لکھنے سے خاص شغف تھا، جس نے ان کی فطری ذہانت و قابلیت کو چار چاند لگا دیئے۔ ایک طرف وہ تعلیم حاصل کر رہی تھیں تو دوسری جانب والدہ سے امور سلطنت چلانا سیکھ رہی تھیں۔ والد صاحب اور شہزادہ دارا سے علمی مباحثے کیا کرتی تھیں۔
وہ پہلی مغل شہزادی تھیں، جنہوں نے کسی سے بیعت کی۔ انہوں نے کشمیر کے ایک بزرگ ملا شاہ بدخشی سے بیعت کی اور وہ بزرگ بھی ان سے اتنا متاثر تھے کہ ملا شاہ بدخشی کا کہنا تھا کہ وہ اگر خاتون نہ ہوتیں تو وہ انہیں اپنا خلیفہ مقرر کر دیتے۔ تصوف سے انہیں خاص لگاؤ تھا۔ فارسی میں دو کتب کی مصنفہ بھی ہیں۔ دونوں کتب صوفی بزرگوں کے حوالے سے لکھی گئی ہیں۔
بادشاہ بیگم بننے سے پہلے ہی مملکت کے حوالے سے ان کے کچھ خواب تھے، جو بادشاہ بیگم بننے کے بعد انہوں نے پورے کیے۔
دہلی کا نقشہ بنوایا اور مشہور چاندنی چوک اور اس کے بازار کی تعمیر تک، بیگم کا باغ میں مسافر تاجروں کے لیے سرائے تعمیر کی، جس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے نہ صرف باغ بنوائے بلکہ خواتین کو سیر میں سہولت کی غرض سے ان کے لیے خاص دن بھی مقرر کیے۔
وہ سیاحت کی بھی شوقین تھیں لیکن پردے کا خاص اہتمام کیا کرتی تھیں بلکہ پردے کے حوالے سے تو تاریخ میں ملتا ہے کہ جب کسی تقریب کے دوران ان کو آگ لگ گئی تو انہوں نےچیخ و پکار نہیں کی کہ کوئی نامحرم ان کو بچانے نہ آ جائے بلکہ زنان خانے تک خود چل کرگئیں اور وہاں بے ہوش ہو گئیں۔اس واقعے نے ان پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ وہ پہلے بھی تصوف کی طرف راغب تھیں، اس کے بعد عبادت گزاری اور زیادہ کر دی۔
وہ اپنے دور کی سب سے امیر شہزادی تھیں اور بہت با اختیار بادشاہ بیگم تھیں۔
بادشاہ بیگم کی ڈائری ایک ایسی تصنیف ہے، جس میں اس دور کی تہذیب، زبان، لباس، فن و فن کار، سیاست، تجارت، شاہی شان و شوکت اور تصوف غرض زندگی کے سب رنگ ملتے ہیں۔
بادشاہ بیگم تاریخ کی با اختیار ترین عورت کی بہت اعلیٰ مثال ہیں۔
تاریخ جس طرح ذہین عورت کے نقش مدھم کر دیتی ہے، یونہی ہم جان بوجھ کر ذہین عورت و بااختیار عورت کو مسترد کر دیتے ہیں، تاکہ اس کے حوصلے پست ہوجائیں۔
اگر یہ ڈرامہ کسی خاتون کے قلم سے لکھاگیا ہوتا تو بھی پتھر پڑنے تھے۔ اچھا ہے کہ کسی مرد کے قلم نے جمود پر کنکر پھینکا ہے، مگر آواز بہت دور تک گئی ہےکہ اس راہ پر اتنے دبنگ انداز سے عرصے سے کوئی آیا ہی نہیں۔
آئیے اب تاریخ کے باب سے نکل کر صدیاں پار کرکے ٹی وی کی سکرین تک آتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں۔
بات بیٹی یا بیٹے کے پیدا ہونے کی نہیں ہے ۔کہانی ہے نظام کی، کہانی ہے مروجہ سماج کی، مروجہ روایات کی، وارث کی، وہ وارث گدی کا ہو یا گھر کا۔ نظام جس کے کاندھوں پر چلنا ہے۔
ہم نے جب بھی عورت کے با اختیا ر ہونے کی بات کی ہے، ایک دو صدی سے پیچھے نہیں نکل سکے۔
ہم نے ایک ہی با اختیار و بامعاش عورت کو ہیروئن بنایا ہے، جس کو گالی بھی ہم ہی دیتے ہیں اور تعریفیں بھی ہم ہی کرتے ہیں۔لیکن اپنے گھر کی عورت کو وہ عورت بنانا بھی نہیں چاہتے۔
بادشاہ بیگم کے مصنف نے آپ کے، ہمارے شعور کے تار بہت حسین طور ہلائے ہیں اور بتایا ہے کہ جیسے تاریخ دانوں نے تاریخ کے ساتھ جان بوجھ کر کالا کالا سلوک کیا ہے، یونہی ہم بھی جان بوجھ کر اس کو دہرائے چلے جا رہے ہیں کیونکہ سچ کی روشنی سے آنکھیں کہیں چندھیا نہ جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کہیں ہماری عورت اصل بااختیار، با وقارحق مانگ نہ لے!
کیونکہ ہم تو اس میلے کردار تلے اس کے حقوق سلب کرکے اپنی سلطنت چلا رہے ہیں۔ ڈرامے میں وہی لاچاری مرد کرداروں میں ملتی ہے جو سماج نے عورت کے نصیب میں لکھی ہوئی ہے۔
بادشاہ بیگم بھتیجوں کو شادی کی اجازت نہیں دیتیں۔ بھائی کی شادی مرضی سے خاندان میں کرواتی ہیں کہ اگلی بادشاہ بیگم خاندان کے خون سے پیدا ہونی چاہیے، لیکن بھائیوں کے گھر بیٹے پیدا ہو جاتے ہیں اور ایک بھائی بغاوت میں شہر جا کر شادی کرلیتا ہے۔ شہری بیوی سے دو بیٹیاں جہاں آرا اور روشن آرا پیدا ہوتیں ہیں، جو خاندانی گدی کی وارث ہیں۔
ایک بھتیجا بھی بغاوت میں شادی کرلیتا ہے۔ اس کے گھر بھی بیٹی پیدا ہوتی ہے تو وہ گدی کی ملکہ کے خواب بننے لگتا ہے۔
غیرت، عزت، روایات، پردہ کتنی ہی عورتوں کی جان لے لیتا ہے حالانکہ کہنے کو عورت راج ہے۔کیسے خاندان سے باہر کے خون کو ناپاک، شہر کی ہوا کو ناپاک کہا گیا ہے۔ کیسے بیٹی پیدا ہونے پہ خوشی منائی جاتی ہے۔کیسے مریدوں کا استحصال ہوتا ہے۔کیسے ایک حاملہ کے پاؤں توڑ دیئے جاتے ہیں کہ مرد کا داخلہ حویلی میں منع ہے اور اسے علم نہیں کہ اس کی کوکھ میں عورت ہے یا مرد۔
سب کچھ وہی ہے۔ بس کردار ادھر ادھر کرکے ماضی اور حال کو ملا کر، تخلیق کار نے سوچ کا، شعور کا کیسا حسین جال بچھایا ہے۔
ابھی تو کہانی شروع ہوئی ہے اور لگتا ہے بادشاہ بیگم کے منصب کی عورت شادی نہیں کرسکتی، شاید محبت بھی نہیں۔ جہاں آرا جو تاریخی بادشاہ بیگم کی تمام خوبیوں سے آراستہ ہے، اپنا منصب اور کرسی سنبھالنے گاؤں آ رہی ہے۔
آئیں مل کر دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔