کہا جاتا ہے کہ ہمالیہ پہاڑ آہستگی سے بلند تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور ہر سال اس کی اونچائی میں چند انچ کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال فلم ’دا گاڈ فادر‘ کا ہے کہ ریلیز کے 50 برس پورے ہونے کے بعد بھی اس کا قد مسلسل بڑھ رہا ہے۔
ایورسٹ جیسی یہ فلک بوس فلم کیسے بنی اور اس نے دنیا بھر کو کیسے متاثر کیا، اس پر معروف شاعر اور فلمی ناقد ادریس بابر نے قلم اٹھایا ہے۔
امریکہ کے بیسٹ سیلر ناول پر ہالی وڈ میں بھلا کون سا پروڈیوسر فلم نہیں بنانا چاہے گا؟
29 سالہ نو آموز ہدایت کار فرانسس کپولا کو ماریو پوزو کا ناول فلمانے کی اجازت تو مل گئی مگر جب اس نے فلم کے مرکزی کردار ڈان ویٹو کورلیونی کے لیے ہالی وڈ کے سابق لیجنڈ مارلن برانڈو کو لینے کا ارادہ ظاہر کیا تو سٹوڈیو کے باس کو اپنی خفگی کے اظہار کے لیے یہی الفاظ مل پائے: ’اوور مائی ڈیڈ باڈی!‘ (Over my dead body) یعنی میری لاش پر سے گزر کر تم برانڈو کو اس کردار کے لیے لے سکتے ہو۔
سٹوڈیو کا غم غصہ بے جا نہ تھا۔ ’آن دا واٹر فرنٹ‘ جیسی عظیم فلم کے مرکزی کرادر کے لیے آسکر جیتنے والے برانڈو کو فلمی اداکاری کی تاریخ بدلے اور ٹائم میگزین کے سرورق کی زینت بنے دو دہائیاں بیت چلی تھیں۔ ہاٹی اور ناٹی اداکاروں کی ایک پوری نئی نسل سامنے آ چکی تھی، جبکہ برانڈو کی گذشتہ فلمیں بری طرح پٹ گئی تھیں۔
تب تو کپولا کو اس پر بھی شدید تنقید سہنا پڑی کہ مائیکل کورلیونی کا اہم کردار ناتجربہ کار ایل پچینو کو بخش دیا۔ اس وقت تک ال پچینو تھیئٹر کے اداکار تھے اور فلمی دنیا میں بےنام تھے، جب کہ سٹوڈیو کے کرتا دھرتا رابرٹ ریڈفورڈ، وارن بیٹی یا جیک نکلسن جیسے معروف اداکار کو اس کردار کے لیے کاسٹ کرنا چاہتے تھے۔
بقولِ خود، کپولا کو ’گاڈ فادر‘ سے سے نکال باہر کرنے کی بات چل پڑی تھی۔
تاہم کرنا گاڈ کا یہ ہوا کہ فادر کپولا نے سالِ گذشتہ کی بہترین فلم قرار پانے والی ’پیٹن‘ کے لیے بہترین سکرین پلے کا آسکر جیت لیا۔ ساتھ ہی سنگتروں کے لفافے سمیت گولی کھا کے گرتے برانڈو اور ریستوران میں باپ کا انتقام لیتے ایل پچینو کی اداکاری کے رش پرنٹ دکھا کر کپولا نے ہالی وڈ کی توپوں منہ بھی پھیر دیے۔ بقول شخصے، یہ ایک ایسی پیشکش تھی جسے وہ انکار نہ کر سکے!
پہلے خود فلم نے اور پھر وقت نے نہ صرف کپولا کو ہدایت کاری سمیت ہر معاملے میں درست ثابت کیا بلکہ ان کے یہی غیرمعمولی چوائسز گاڈ فادر کی ہمیشگی کے ضامن بن گئے۔
’گاڈ فادر‘ ریلیز ہوئی تو ہر طرف دھوم مچ گئی۔ فلم باکس آفس پرسپر ہٹ ثابت ہوئی اور فلمی ناقدین نے تعریفوں کے پُل باندھ دیے۔ اس سال کی آسکر نائٹ میں بہترین اداکار کے لیے مارلن برانڈو کی یادگار فتح کا اعلان ہوا آور پھر بہترین فلم کا اعزاز اپنے نام کر کے ’گاڈ فادر‘ نے تاریخ رقم کر ڈالی۔
یہ الگ بات کہ برانڈو نے اکادمی سے حساب چکتا کرنے میں ذرا دیر نہ لگائی اور اپنی جگہ آسکر وصول کرنے ایک نسلی امریکی اداکارہ کو بھیج کے ہالی وڈ کی نسل پرستانہ روش کے خلاف احتجاج کو تاریخ کا حصہ بنا ڈالا اور یوں گاڈ فادر کے فلم سے مِتھ بننے کی بنیاد بھی رکھ دی۔
خیر یہ سب تو ہوا، فلمیں ہر موسم میں بنتی ہیں، آسکر ہر سال ہوتے ہیں، جیت ہار ہوتی ہے اور پھر قصہ ختم پیسہ ہضم۔ تو آخر ’گاڈ فادر‘ میں ایسا کیا جادو تھا جو اب تک سر چڑھ کے بول رہا ہے؟ فلم کو ریلیز ہوئے نصف صدی بیتی مگر اس کی شوبھا ہے کہ کم ہونے نہیں آتی؟
’گاڈ فادر‘ کے قبولِ عام اور بقائے دوام کی بڑی وجہ شاندار اداکاری اور جاندار مکالمے ہیں۔ ’گاڈ فادر‘ کی کاسٹ اساطیری معیار کی ہے۔ برانڈو، ایل پچینو، جیمز کان، جان کزال، رابرٹ ڈوال، ڈایان کیٹن! فلم کے ہر اداکار کی شان و شوکت ’گاڈ فادر‘ کے بعد بن گئی یا بڑھ گئی۔ انفرادی کارکردگی سے زیادہ مجموعی عظمت کے ہمہ گیر تاثر نے پچھلی نصف صدی سے اس فلم کو لوگوں کے ذہنوں میں تازہ رکھا ہے۔
’گاڈ فادر‘ کی عظمت کا ایک منفرد سبب اس کا تاریخ کی واحد فلم ہونا ہے جس کے دوسرے حصے کو بھی بہترین فلم کا آسکر ملا۔ گویا چار پہ چار چاند اور لگ گئے۔ رابرٹ ڈی نیرو کو پہلا آسکر اسی دوسرے حصے میں اپنے کردار پر ملا تھا۔ بس تو ڈی نیرو کی نسل در نسل چلی آتی فین فالوانگ کو بھی ’گاڈ فادر‘ کے کھاتے میں لکھ لیں۔
امریکن فلم انسٹی ٹیوٹ کی سو عظیم فلموں پر مبنی فہرست ہو یا سائٹ اینڈ ساؤنڈ کی مشہور ٹاپ ٹین لسٹ، اس گینگسٹر فلم کی جڑیں ہر طرف پھیلتی جا رہی ہیں۔
’گاڈ فادر‘ کا اثر ہالی وڈ سے لالی وڈ تک دنیا ہر کے سینیما میں پھیلا ہوا ہے۔ فلم سازوں نے اس فلم سے مناظر، مکالمے، کردار، پلاٹ نقل کرنے کو کامیابی کا آسان اور آزمودہ فارمولا جانا۔ بعض نے اس کی تکنیک سے تاثر لینے پر اکتفا کیا۔ بعضے ہوشیار مجذوب بھی نکلے کہ ’گاڈ فادر‘ کا اثر ہو تو سہی پر دکھائی نہ دے، چنانچہ خوشبو چاہے عشق کی پھیلی یا مشک کی، دونوں صورتوں میں فائدہ اصل فلم ہی کو ہوا۔
’گاڈ فادر‘ سے متاثرہ فلموں میں انڈین سینیما کی تامل فلم ’نایاکان‘ سب سے بڑھیا مثال ہے۔ اس حد تک کہ اسے ٹائم میگزین کی سو عظیم فلموں کی لسٹ میں ’گاڈ فادر‘ کے شانہ بشانہ جگہ ملی۔ تینوں گاڈ فادر فلموں کی کہانی ایک فلم میں سمیٹ کر کمل ہاسن اور منی رتنم نے واقعی کمال کر دکھایا۔ یہ الگ بات کہ اس کا بھی کریڈٹ گیا تو ’گاڈ فادر‘ کو۔
آئرلینڈ کی تحریک مزاحمت پر مبنی فلم ’ان دی نیم آف دی فادر‘ میں جب انقلابی اینٹی ہیرو (ڈینئیل ڈے لیوس) کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے تو ایک یادگار منظر میں قیدیوں کو ’گاڈ فادر‘ فلم بطور تفریح دکھائی جاتی ہے۔ تب نینو روٹا کا اداس میوزک جیل کے برآمدوں بیرکوں میں آکاس بیل کی طرح پھیل جاتا ہے اور فلم بینوں کو ’گاڈ فادر‘ کی یاد دلاتا ہے۔
سینیما سے ہٹ کے گاڈ فادر کا اثر ٹی وی کی دنیا پر بھی پڑا ہے۔ صرف مین سڑیم امریکی چینلوں تک محدود رہا جائے تو بھی ’سوپرینوز‘ سے ’سمپسنز‘ تک اور ’سیچرڈے نائٹ لائیو‘ سے تک کتنے ہی مقبول ٹی وی شوز میں گاڈ فادر کا حوالہ کسی نہ کسی طور دیا جاتا رہا ہے، کبھی سنجیدگی سے تو کبھی ہنسی مذاق میں۔
جہاں تک مذاق کی بات ہے تو اصلی فلم سے دو دہائی بعد بننے والی ہالی وڈ کامیڈی ’دی فریش مین‘ میں خود حضرت گاڈ فادر اپنے مافیا ڈان والے رول کی پیروڈی فرماتے نظر آتے اور مکرر داد پاتے ہیں۔ اسی طرح ال پچینو اور ڈی نیرو نے بھی گاڈ فادر کے بعد متعدد گینگسٹر فلموں میں کام کیا اور یوں بالواسطہ گاڈ فادر کی وراثت میں مزید اضافہ بھی کیا۔
لیکن ’گاڈ فادر‘ نے صرف فلموں اور ڈراموں ہی کو متاثر نہیں کیا، عام زندگی پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے۔ بلکہ خود اصل دنیا سے تعلق رکھنے والے مافیا گینگسٹروں کو بھی ’گاڈ فادر‘ نے بدل کر رکھ دیا۔
لاس ویگس ریویو جرنل کی 2004 کی ایک رپورٹ کے مطابق جب امریکی پولیس کسی غنڈے کے ٹھکانے پر چھاپہ مارتی ہے تو جو چیز سب سے زیادہ ملتی ہے وہ ہے گاڈ فادر کی کیسٹیں یا سی ڈیز۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہی نہیں، خود مافیا ڈان مارلن برانڈ کے ویٹو کارلیونی کے انداز میں اٹھنے بیٹھنے، حتیٰ کہ ان کے لہجے میں بولنا شروع ہو گئے تھے۔
’گاڈ فادر‘ کی شہرت کی ایک وجہ تو وہ یادگار مناظر ہیں جو تعداد میں دو چار نہیں بےشمار ہیں۔ ویٹو کی بیٹی کی شادی، ویٹو پر قاتلانہ حملہ، مائیکل کا انتقام، ویٹو کے بڑے بیٹے اور مافیائی سلطنت میں ولی عہد سنی کا گاڑی سمیت فائرنگ سے چھلنی ہونا، ویٹو کا مرنے سے پہلے سنگترے کی قاشیں منہ میں دبا کر پوتے کو ڈرانا، مائیکل کا بطور گاڈ فادر کرسی سنبھالنا، بپتسمہ کی رسم کے متوازی انتقامی کارروائی، چند مثالیں ہیں۔ اور ہاں وہ بستر میں گھوڑے کا کٹا ہوا سر۔۔۔
’گاڈ فادر‘ کے مکالمے بھی فلم کی پائیداری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ایسے جملے فلم میں جا بجا بکھرے ہوے ہیں جو پر لطف اور بر محل ہونے کی وجہ سے مزا تو دیتے ہی ہیں مگر گہرے اور معنی خیز ہونے کے کارن یاد بھی رہ جاتے ہیں۔ جیسے:
Take The Gun, Leave The Cannoli
Revenge Is a Dish Best Served Cold
اور سب سے بڑھ کر
I’m Gonna Make Him an Offer He Can’t Refuse
یہ فقرے اب امریکی کلچر کا حصہ ہیں۔ آخر الذکر مکالمے کو تو امریکن فلم انسٹی ٹیوٹ نے امریکی فلمی تاریخ کا دوسرا سب سے یادگار مکالمہ قرار دیا ہے۔
میرے نزدیک گاڈ فادر محض ایک پرسنل فیورٹ یا ماسٹر پیس فلم نہیں، جو کہ یہ بجا طور پر ہے، ’گاڈ فادر‘ واقعی بڑا آرٹ ہے۔ مونا لیزا کی مسکان، بیتھوون کی اٹھان کی طرح۔ شیکسپیئر کے کسی المیے کی طرح گمبھیر، ٹالسٹائی اور ڈکنز کی طرح ہمہ گیر۔
’گاڈ فادر‘ کی عظمت کا اصل دار و مدار زندگی کے نام پر جاری فرد اور سماج کی مستقل جدلیاتی کشمکش پر ہے اور پھر جس پر شکوہ انداز میں یہ ایپک فلم ان تضادات کو دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کے سامنے لا رکھتی ہے۔
ایک طرف خاندان اور تعلقات ہیں، دوستیاں اور محبتیں ہیں۔ دوسری طرف نسل پرستی اور منشیات فروشی ہے، تشدد اور استحصال ہے۔ ادھر ریاست مافیا کی مار دھاڑ، توڑ پھوڑ ہے، ادھر مذہب اور سرمائے کا گٹھ جوڑ ہے۔ بیانیے کی یہ سادہ پرکاری، زمانے کی یہ تہہ داری ، اور ان سب حقیقتوں کا ایسا جیتا جاگتا اظہار سینیما کی وسیع و عریض سکرین ہی پر ممکن تھا۔
ایسی کب برپا قیامت شہر میں یا گھر میں تھی
میں نے دیکھا تو نمائش جاری میرے سر میں تھی