بالی وڈ کی نئی فلم ’گنگوبائی کاٹھیاواڑی‘ میں سیکس ورکر گنگا کی سخت لیکن بااختیار حقیقی زندگی کا سفر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ گنگا بعد ازاں بھارت کے دوسرے سب سے بڑے قحبہ خانے کی غیر متنازع شخصیت بن کر ابھرتی ہیں۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ فلم سیکس ورکرز کی زندگی کی مکمل تصویر کشی کرنے میں ناکام رہی۔
گنگا مغربی ریاست گجرات کے ایک چھوٹے سے قصبے کی بھولی بھالی لڑکی ہیں جنہیں ایک ایسے شخص نے دھوکہ دیا جس سے وہ محبت کرتی تھیں۔
مذکورہ شخص انہیں ممبئی کے قریب واقع کماٹھی پورہ کے ایک کوٹھے (ہندی میں قحبہ خانہ) کو ایک ہزار بھارتی روپے (تقریباً 10 پاؤنڈز) میں فروخت کر دیتا ہے۔
بھارتی ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی نے اپنی آخری فلم ریلیز ہونے کے تین سال بعد اس فیچر فلم کی ہدایت کاری ہے، جو ایس حسین زیدی اور جین بورجس کی کتاب ’مافیا کوئنز آف ممبئی‘ سے ماخوذ ہے۔
بالی وڈ اداکارہ عالیہ بھٹ نے اس میں گنگا کا کردار ادا کیا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا کہ مشکل سفر کے بعد آخرکار گنگا ’گنگو‘ بن جاتی ہیں۔
ایک ایسی سخت جان سیکس ورکر جن کے پاس ایک گاہک کے تشدد اور خوف ناک زخم لگنے کے بعد قحبہ خانے کو چھوڑنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’گنگو‘ کو کماٹھی پورہ میں کام کرنے والی دیگر تمام خواتین سے عزت ملتی ہے، جو انہیں گنگو بائی کے خطاب سے نوازتی ہیں۔
فلم کے آخر میں ایک صحافی گنگوبائی کی مدد کرتی ہیں اور وہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو سے ملنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تاکہ انہیں قائل کر سکیں کہ کماٹھی پورہ کو بلڈرز کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچایا جائے۔
وہ وزیر اعظم کی توجہ ملک میں سیکس ورکرز کے حقوق کی طرف مبذول کرواتی ہیں۔
25 فروری کو ریلیز ہونے کے بعد سے بھارتی باکس آفس پر ایک ارب بھارتی روپے (تقریباً ایک کروڑ پاؤنڈز) سے زیادہ کمانے کے بعد ناقدین اور سینیما دیکھنے والوں نے یکساں طور پر فلم کو سراہا۔
اس کے ساتھ ہی گنگوبائی کی کہانی بھی زیر بحث آ گئی۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں پیدا ہونے والے ملک کے کچھ قدامت پسندوں نے سیکس ورکرز کو زیادہ حساس نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا ہے، سماجی کارکن، سیکس ورکرز اور سیکس ورکرز کی حمایت کرنے والی تنظیموں نے اس فلم کے کچھ پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا کہ بھنسالی نے، جن کی فلموں کے سیٹ حقیقت سے بڑھ کر ہونے کے ساتھ اسراف کو ظاہر کرتے ہیں، انہیں ٹھیک طریقے سے پیش نہیں کیا۔
ان لوگوں کی حقیقی زندگی کے تجربات پر مبنی تبصروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح فلم میں حقیقت، احترام اور اس کے کرداروں میں تنوع کی کمی ہے۔
سماجی کارکن اور سمگلنگ کے خلاف کام کرنے والی غیر منافع بخش تنظیم پراجوالا کی شریک بانی سنیتاکرشنن نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’سنجے لیلا بھنسالی کی فلم (گنگوبائی کاٹھیاواڑی) کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خوبصورتی اور قحبہ خانے کی چکاچوند کے معاملے میں حقیقت سے بڑھی ہوئی ہے۔
’حقیقی زندگی کے قحبہ خانوں میں اتنی چکاچوند نہیں ہوتی۔‘ کرشنن کو بھارت کا چوتھا بڑا شہری اعزاز پدم شری مل چکا ہے۔ یہ ایوارڈ انہیں جنسی جرائم اور سمگلنگ کے خلاف جدوجہد پر دیا گیا۔
بھنسالی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ’خواتین کو ان مقامات تک لانے سے متلعق، وہاں موجود نظام، مافیا، جرائم پیشہ عناصراور منظم جرائم کا کردار خواہ وہ شراب کی صنعت ہو یا کچھ اور، اس اعتبار سے مختلف باریکیاں واضح کر کے’خاصا اچھا کام‘ کیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فلم کی کی گلیمرس کاسٹ کو چھوڑ کر، جس کے بارے میں کرشنن کا خیال ہے کہ ہدایت کار اس کے بغیر فلم نہیں بنا سکتے، باقی سب کچھ بے تکا ہے۔ لیکن کیا قحبہ خانوں میں اتنی ہی چکا چوند ہوتی ہے جتنی گنگوبائی کاٹھیاواڑی میں دکھائی گئی؟
کرشنن کہتی ہیں: ’یہ درست نہیں۔ قحبہ خانوں کی حقیقی زندگی میں اتنی رنگینی نہیں ہوتی۔ یہ بہت گندے ہوتی ہے۔ یہاں کی تنگ جگہوں سے خوف محسوس ہوتا ہے اور اس میں بہت مختلف توانائی ہوتی ہے، وہ توانائی نہیں جو وہ فلم میں دکھاتے ہیں۔‘
ایک منظر کی مثال لیتے ہیں جس میں عالیہ بھٹ کے کردار گنگو کے ساتھ ان کے ایک کلائنٹس میں سے ایک نے بدسلوکی کی۔
کرشنن وضاحت کرتی ہیں: ’فلم میں ایک گاہک نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے ان کے پورے پیٹ پر زخم دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح آنے والے زخم کا نشان حقیقی ہوگا۔ ٹانکوں کے نشانات باقی رہ جائیں گے۔ لیکن بھٹ کی گنگولی کے لیے سب کچھ غائب ہوتا رہا۔‘
کرشنن مزید کہتی ہیں کہ فلم میں ’بہت سی ایسی خواتین ہیں جن پر (تشدد کیا گیا) ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے بلیڈ کا استعمال کرتے ہوئے انہیں زخمی کیا۔ انہیں مارا۔ اذیت پسند گاہک، جنہوں نے خواتین کے جسموں پر نشانات چھوڑے۔
’ایسا نہیں ہوتا کہ وہ خواتین 10 دن بعد ہسپتال سے واپس آئیں تو سب کچھ غائب ہو چکا ہو۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔‘
بھارت میں نیشنل نیٹ ورک فار سیکس ورکرز (این این ایس ڈبلیو) کی نئی منتخب ہونے والی صدر کرن دیش مکھ فلم کے اسی سین کے بارے میں دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہ کہتی ہیں کہ ’جب ہماری بات ہوتی ہے تو ہمارے پاس بھی ایسے گاہک تھے جو ہمارے ساتھ زبانی بدسلوکی کرتے تھے اور ہمیں مارتے تھے۔ تاہم یہ تمام زیادتی پہلے ہوا کرتی تھی۔‘
’جہاں تک موجود دور کی بات ہے ہم اپنے کام کے مقامات پر تشدد کے ایسے انتہائی واقعات نہیں دیکھتے۔ کیوں کہ اب ہم ان گروپس کی شکل میں اکٹھے ہو گئے ہیں جن کی قیادت ہمارے پاس ہے۔ ہمارے درمیان زیادہ رابطہ ہے اور جب کسی کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو ہم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔‘
دیش مکھ جن کا تعلق مہاراشٹر کے شہر سنگلی سے ہے، وہ بھی فلم کے بعض حصوں کو ڈرامائی رنگ دینے سے ناخوش ہیں۔
وہ ایسے اداکاروں سے زیادہ خوش نہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں جیسے کہ’عجت بیچنا‘ (عزت کا سودا کرنا)۔
وہ اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ عزت کوئی ایسی چیز نہیں جو خریدی یا بیچی جائے۔ نہ ہی یہ جسم رکھتی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی جنس ہوتی ہے۔
’سیکس ورک ایک سروس ہے اور سیکس ورکرز محض یہ سروس فراہم کرنے والے ہیں۔‘
دیش مکھ کے مطابق اس لیے فلم میں ایسے کلمات نہیں ہونے چاہییں۔
جس دوسرے معاملے پر سماجی کارکنوں کو اعتراض ہے وہ ہے مرد اداکار وجے راز کو بطور خواجہ سرا کاسٹ کرنا۔ اس مسئلے پر سوال اٹھایا گیا ہے۔
خواجہ سراؤں کی وکالت کرنی والی شخصیت، جنہوں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، رضیہ بائی کے کردار کے لیے کسی خواجہ سرا کو فلم میں نہ لیے جانے پر ناخوش ہیں۔
بھارت کے متعدد سوشل میڈیا صارفین مسلسل بحث کرچکے ہیں کہ بالی وڈ کے ہدایت کاروں نے خواجہ سراؤں کے لیے لکھے گئے کرداروں کے لیے انہی کو کاسٹ کر کے برداری کو درست انداز میں پیش کرنے کی بجائے معمول کا جنسی رجحان رکھنے والے لوگوں خواجہ سرا کے طور لینے کا عمل جاری کیوں رکھا ہوا ہے۔
وسطیٰ ریاست مدھیہ پردیش کی ایک سیکس ورکر شکو کے بقول: ’کاش ہدایت کار اور ان کی پوری ٹیم نے وہ خوبصورت سیٹ تیار کرنے سے پہلے ملک بھر میں چند قحبہ خانوں کا دورہ کیا ہوتا کہ دیکھا جا سکے وہاں حقیقی حالات کیسے ہیں، جس کے بارے میں میری خواہش ہے کہ وہ ہمارے گھروں جیسا دکھائی دیتا۔‘
© The Independent