رمضان کا سفرآدھا گزر چکا، یونہی ڈراما ’ہم تم‘ بھی آدھا پل صراط پار کر چکا ہے۔ اچھی بات ڈرامے میں یہ ہے کہ کرداروں کے ہاتھ میں اصلی کتابیں ہیں۔
رٹا کلچر ہی سہی، زمانہ طالب علمی کے اونگے بونگے مسائل پہ بات تو ہو رہی ہے اور اتنے نصابی اسلوب سے ہوئی ہے کہ ڈراما طالب علموں میں اچھا خاصا مقبول ہو چکا ہے۔
نوجوان کرداروں کے ہاتھوں میں کتاب کلچر کو پرموٹ کرنے کا یہ بہت اچھا ذریعہ ہے۔ اگر ایک ڈرامے میں ایک نوجوان بھی کتاب پڑھتا نظر آئے تو کتاب کلچر تازہ دم ہو سکتا ہے۔
یہاں کیمسٹری، نفسیات تاریخ، ادب جغرافیہ، فلسفہ، سائنس کا نصابی اسلوب زیادہ دکھایا گیا ہے۔
جی تو پیچھے بچا کیا؟
چلو بچے تو کم از کم بہت خوش ہیں۔ اس عمر کے تقاضے ہی کچھ الگ ہوتے ہیں۔ کہانی کسی حد تک ان تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔ کہانی جو بھی ہو نصابی اسلوب نے سکرپٹ کو دلچسپ بنایا ہوا ہے۔
کہانی اور سکرپٹ دو الگ شعبے ہیں۔ کہانی جاندار نہ بھی ہو تو بعض اوقات سکرپٹ اسے جاندار بنا دیتا ہے، یونہی زبردست کہانی کو سکرپٹ ڈبو بھی دیتا ہے۔
’ہم تم‘ ایک فیملی فرینڈز قسم کے دو گھرانوں کی کہانی ہے، جس میں ایک طرف نانی جان اور دوسری طرف دادا جان اپنی تیسری نسل کے بہترین دوست ہیں۔ ان نسلوں کو تہذیب میں اتارنے کے لیے ایسی ہی کسی نسل کی دوستی چاہیے ہوتی ہے، جو لامحسوس طریقے سے کھاد اور پانی ڈالتے رہتے ہیں۔
جب بچے نئے نئے کالج یونیورسٹی جاتے ہیں موڈز اسی طرح سونگ ہوتے ہیں۔ اسی طرح کی جملہ بازی ہوتی ہے کیونکہ ان کو سمجھ نہیں آ رہا ہو تا کہ اپنی خوشی اور افسردگی کے احساسات کا منفرد اظہار کیسے کریں، اور اپنی پڑھی چار کتابوں کو دوسروں کو کیسے بتائیں۔ یہ ایک فطری سا عمل ہے۔
ممکن ہے میچور افراد کو اس کہانی میں دلچسپی محسوس نہ ہو کیونکہ وہ لاشعور کا یہ دور اب تک بھلا بھی چکے ہوں گے۔
ایک اور اچھی بات ایک عام لڑکا ڈرامے کا شیف ہیرو ہے، جس کو اپنے ابا کے کچھ نہ کرنے کے باعث گھر سنبھالنا پڑ جاتا ہے اور پڑھائی چھوڑنی پڑتی ہے۔
محبت کا کیا ہے اندھی ہوتی ہے۔ اسے ایک پڑھی لکھی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے لیکن اظہار کرتے ہو ئے ڈرتا ہے کہ وہ اتنا پڑھا لکھا نہیں ہے۔
مگر محبت تو محبت ہوتی ہے کسی نہ کسی طرح اظہار مانگتی ہے۔ ادھورا سا ہی سہی، ایسا ہی دبا دبا چھپا چھپا اظہار وہ بھی ماہا سے کر دیتا ہے۔
جس طرح وہ اظہار محبت کر رہا ہے ہمارے معاشرے میں تو پڑھا لکھا لڑکا بھی لڑکی کے سامنے اتنا ہی بونگا سا، فرسودہ کا اظہار محبت کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمارے مصنفین کو اس طرف توجہ دینا چاہیے کہ لڑکوں کو اظہار محبت کا سلجھا ہوا طریقہ سکھایا جائے، کیونکہ والدین تو اپنی تربیت میں اس فطری عمل کو شامل نہیں کرتے، جبکہ لڑکا ہو یا لڑکی، انہیں اس وقت اپنے والدین کا ہی ساتھ چاہیے ہوتا ہے۔
اظہار محبت کسی پل صراط سے کم نہیں ہوتا۔ بہت سی محبتیں اس اظہار کو مناسب طور پہ نہ کر پانے یا بونگے پن کی نظر ہو جاتی ہیں۔
لڑکوں کے کردار اچھے ہیں۔ گھر میں سلیقہ مندی سے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس زنانہ کردار پروفیسر صاحب کی تین بیٹیاں ہیں، جن کو نہ تو گھر کے کام کاج میں دلچسپی ہے نہ گھر میں، بس پڑھائی میں بہترین ہیں۔
اس کی ایک لاشعوری وجہ ان کو ہر وقت باپ کی طرف سے بیٹی ہونے کا ملال اور دوسری شعوری وجہ ابا کی پڑھائی پر توجہ ہونا ہے۔
لیکن لاشعوری طور پہ ایسے ماحول میں ایسا شعوری اور لاشعوری ردعمل ہو جاتا ہے، جیسا ڈرامے میں جابجا ان بچیوں میں دکھایا گیا ہے۔ بنیادی طور پہ انہیں پیدا ہوتے ہی بطور بیٹی قبول ہی نہیں کیا گیا تھا۔
جب بچے پیدا کرنے کا وقت چل رہا ہوتا ہے، نسلوں کی توجہ اس وقت اپنی طب کی حقیقت پہ نہیں ہوتی، آس پاس والوں کے پیدا ہونے والے بچوں سے تقابل پر ہوتی ہے اور پھر یہ تقابل لاشعوری طور پر عمر بھر چلتا ہے۔
ڈرامے میں دادا بطور ٹک ٹاکر اپنی زندگی کو بہار بنائے ہوئے ہیں۔ دادا کے توسط سے ٹک ٹاک انسٹاگرام، یو ٹیوب فینز کے ایک بے تاج اور تنہا بادشاہ کی کہانی شگفتگی سے دکھائی دیتی ہے۔
خیر ہم نے مصنفہ صائمہ اکرام چوہدری سے پوچھا کہ آپ کے ذہن میں یہ ڈرامہ لکھتے ہوئے کیا خیال چل رہا تھا تو انہوں نے بتایا،’ لڑکیاں اگر ایک فیلڈ میں اچھی ہیں تو ان کو دوسری طرف تھوڑا سا مارجن دے دینا چاہیے۔ جیسے یہاں لڑکیاں پڑھائی میں ذہین ہیں۔ ہرفن مولا توکوئی بھی نہیں ہو سکتا۔ دوسرے جو لڑکیاں پڑھ رہی ہوتی ہیں، ان کی ماؤں نے اس کو ہوا بنا دیا ہوتا ہے کہ اب وہ کچھ اور نہیں کر سکتیں۔ ایسا بھی نہیں ہو نا چاہیے اور ایک عام مرد ہیرو کیوں نہیں بن سکتا؟‘
ڈرامے میں دادا بطور ٹک ٹاکر اپنی زندگی کو بہار بنائے ہوئے ہیں۔ دادا کے توسط سے ٹک ٹاک انسٹا گرام، یو ٹیوب فینز کے ایک بے تاج اور تنہا بادشاہ کی کہانی شگفتگی سے دکھائی دیتی ہے۔
کمی بیشی کے باوجود رشتے نبھانے کے جواز مکالمات میں عمدگی سے پیش ہوئے ہیں۔
رمضان میں ہلکے پھلکے موضوعات پہ بات ہوتی ہے، لیکن رمضان کا کیف کسی ڈرامے میں دکھائی نہیں دیتا۔ سماج ہی سماج ہے اور اسی کے بکھیڑے۔
مصنفین اور چینلوں کو اس طرف بھی توجہ دینا چاہیے کہ تصوف اور کیف رمضان اور نوسٹیلجیا رمضان ایک اہم موضوع ہے۔ اس ماہ مبارک میں ایسے ڈرامے بھی آنے چاہییں۔
رمضان کی ایک پوری تہذیب تھی اور دور دراز علاقوں میں آج بھی موجود ہے۔ ہر شہر ہر علاقے کی اپنی تہذیب رمضان ہے۔ جس پہ بہت عمدہ ڈرامے بنائے جا سکتے ہیں۔
بس کوئی ان موضوعات کو چھیڑنے والا مصنف درکار ہے۔