جب جانی واکر نے نہ چاہتے ہوئے بھی ’چاچی 420‘ میں اداکاری کی

جانی واکر گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے کہ کمل ہاسن انہیں اداکاری کے آگ کے دریا میں غوطہ لگوانے کے لیے بےچین تھے۔

جانی واکر 1956 میں آنے والی فلم ’سی آئی ڈی‘ میں (گرو دت فلمز)

بدالدین جمال قاضی المعروف جانی واکر کے ہاتھوں میں سکرپٹ تھا، مقابل کمل ہاسن تھے اور خود جانی واکر شش و پنج کا شکار تھے۔

10 سال کا عرصہ ہو گیا تھا کہ وہ فلمی دنیا اور تقریبات سے دور تھے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط بھی نہ ہو گا کہ نئے نئے مزاحیہ اداکاروں کی آمد کے بعد جانی واکر کو ہدایت کار اپنے ذہنوں سے کھرچ چکے تھے۔

گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے ہوئے جانی واکر خاصا سکون محسوس کررہے تھے لیکن اب ایک بار پھر کمل ہاسن انہیں اداکاری کے آگ کے دریا میں غوطہ لگوانے کے لیے بےچین تھے۔

کمل ہاسن کے سامنے بیٹھے جانی واکر یہ سوچ رہے تھے کہ فلمی دنیا کو وہ اپنی زندگی کے 70برس میں نصف دے چکے تھے۔ یہ بھی کتنی عجیب بات تھی کہ جانی واکر کی اس وقت تک آخری فلم انگریزی زبان میں تھی نہ کہ ہندی میں۔ ہدایت کار اسماعیل مرچنٹ کی ’دی پرفیکٹ مرڈر‘ میں جانی واکر نے 1988 میں آخری مرتبہ پرستاروں کو اپنی جھلک دکھائی تھی۔

خود جانی واکر کا خیال تھا کہ جو وہ کر چکے، کر چکے، اب ڈھلتی عمر انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ ایک سٹوڈیو سے دوسرے کے چکر لگاتے پھریں۔ پھر جس طرح کی ذومعنی کامیڈی کی جارہی تھی اس نے بھی جانی واکر کودل برداشتہ کر دیا تھا۔ اسی لیے وہ خود بھی آہستہ آہستہ فلم نگری سے دور ہوتے گئے۔ انہی باتوں کو وہ کمل ہاسن کے گوش گزار کرنے کے لیے الفاظ کا چناؤ کرنے پر غور کر رہے تھے۔

جانی واکر کا سفر بس کنڈیکٹر سے شروع ہوا تھا۔ ایک دن گرودت کے دفتر قسمت آزمانے پہنچے تو سرپھرے مے نوش کی ایسی اداکاری کی کہ انہیں گمان ہی نہیں ہوا کہ پتلا دبلا یہ نوجوان اداکاری کر رہا ہے۔ انہیں ’بازی‘ میں پہلا موقع ملا اور اسی فلم سے بدر الدین جمال قاضی سے انہیں ’جانی واکر‘ کا نام دیا کیونکہ انہوں نے شرابی بن کر انہیں متاثر کیا تھا۔

اس پہلے موقعے کے بعد جانی واکر نے پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ چاہے وہ شرابی بنیں یا کوئی سا بھی اور کردار ادا کریں، ان کا مکالمے کا مخصوص انداز چہروں پر بہار لے آتا۔ ایک دور وہ بھی تھا کہ وہ تن تنہا کنگ آف کامیڈی رہے جن کے پرمزاح مکالموں میں شائستگی کا پہلو نمایاں رہتا۔

یہی وجہ ہے کہ سنسر بورڈ والے ان کا کوئی بھی منظر قابل اعتراض نہ ہونے پر قطع و برید سے محروم رہتے۔ یہ بھی کتنی عجیب بات تھی کہ بیشتر فلموں میں شرابی بن کر چھانے والے جانی واکر شراب سے کوسوں دور رہے۔ یہ تو ان کا مشاہدہ ہی تھا کہ جو ان کے اندر کے فنکار کو سکرین پر ابھار دیتا۔

 جانی واکر کی اسی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ہدایت کار ان کے لیے فلموں میں خصوصی طور پر کوئی نہ کوئی گانا بھی رکھتے۔ جبھی تو ’جنگل میں مور ناچا،‘ ’یہ ہے بمبئی میری،‘ ’سر جو تیرا چکرائے،‘ ’جانے کہاں میرا جگر کیا جی‘ اور ’ہم بھی اگر بچے ہوتے‘ جیسے ان پر فلمائے گانے اتنے مشہور ہوئے کہ مقبولیت کے ریکارڈ کام کر گئے۔  

کمل ہاسن جانی واکر کو ان کی گہری سوچ سے واپس لائے اور ماحول میں خاموشی کا خاتمہ ہوا۔ کمل ہاسن بتا رہے تھے کہ جب ان کے پاس یہ کردار آیا تو ان کے ذہن میں صرف اور صرف جانی واکر کا نام ہی چمکا۔ حالانکہ ان کی پروڈکشن ٹیم کئی اور نام پیش کر رہی تھی لیکن انہوں نے جبھی جانی واکر کا نام فائنل کیا۔ کامیڈین نے ممنون بھری نظروں سے کمل ہاسن کو دیکھا لیکن ساتھ ہی اس بات کی تشویش کا اظہار کیا کہ اب اس عمر میں پھر اداکاری؟ کہیں ان کی وجہ سے کمل ہاسن کی فلم متاثر نہ ہو۔

کمل ہاسن، جو 40 سال اداکاری کو دے چکے تھے، پہلی بار بطور ہدایت کار اپنی صلاحیتوں کا امتحان لینے جا رہے تھے۔ خواہش تو ان کی یہی تھی کہ ’چاچی 420‘ میں کوئی کسر نہ رہے۔ جبھی ہر شعبے میں بہترین تخلیق کاروں کا انتخاب کر رہے تھے۔ ’چاچی 420‘ دراصل شہرہ آفاق انگریزی فلموں ’ٹوٹسٹی‘ اور ’مسز ڈاؤٹ فائر‘ کا حسین ملاپ تھی۔ ہالی وڈ سپر سٹار ڈسٹن ہوفمین اور رابن ولیمز کی انہی الگ الگ فلموں پر 1996 میں تامل فلم ’آوی شن موگی‘ بنی تھی۔ ہدایت کار کے ایس روی کمار کی اس فلم میں خود کمل ہاسن مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔ مووی کی کامیابی کے بعد ہی انہوں نے خوداسے ہندی زبان میں بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمل ہاسن کے لیے یہ فلم اس لیے بھی اہمیت رکھتی تھی کیونکہ وہ 12 سال بعد مکمل طور پر ہندی زبان میں تیارکسی فلم میں کام کرنے جا رہے تھے، اس لیے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی اہمیت دے رہے تھے۔ سکرین پلے اور گانے گلزار کے تھے تو سر بکھیرنے کے موسیقار وشال بھردواج کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جب کمل ہاسن کو بتایا گیا کہ مووی میں ایک چلبلا سا مے نوش میک اپ آرٹسٹ ہو گا جو ہیرو جے پرکاش (کمل ہاسن) کو خاتون کا روپ دھا کر اس کی سابق بیوی کے گھر میں انٹری دلانے میں اہم کردارادا کرے گا تو اس کے لیے انہیں جانی واکر سے بہتر کوئی نہیں لگا۔

کمل ہاسن نے جانی واکر کی اضطرابی کیفیت محسوس کرتے ہوئے یہی کہا، ’دیکھیں جانی بھائی ’ناں‘ کہہ کر مایوس مت کریے گا۔ آپ کا مہمان اداکار کا کردار ہے، جسے آپ کی سہولت کے مطابق ہی عکس بند کیا جائے گا۔ یہ ’جوزف‘ کا کردار ہے۔ ہے تو مختصر لیکن فلم کی پوری کہانی اسی کے گرد گھوم رہی ہے۔‘

جانی واکر نے کچھ دیر سوچا اور پھر کمل ہاسن کو وہ خوشخبری سنا دی جس کے انتظار میں تھے۔ جانی واکر ایک بار پھر اداکاری کے جلوے لٹانے کے لیے تیار تھے۔ 19 دسمبر 1997 کو کمل ہاسن، تبو، امریش پوری، اوم پوری اور آئشہ جھلکا جیسے ستاروں کی ’چاچی 420‘ میں چائلڈ سٹار کے طور پر فاطمہ ثنا نے بھی کام کیا جو بعد میں جوانی کی دہلیز پر پہنچیں تو ’دنگل‘ میں نظر آئیں۔

کمل ہاسن جیسا چاہتے تھے، جانی واکر نے ان کی توقعات کو مایوسی کے اندھیرے میں نہیں دھکیلا۔ مختصر سے کردار’جوزف‘ میں وہ حسب روایت فن کی اسی بلندی پر رہے جو ان کی اداکاری کاخاصہ تھا۔ جانی واکر نے ثابت کر دکھایا کہ اداکار بوڑھا ہوتا ہے، اس کا فن نہیں۔ تبصرہ نگار تو ایک بار پھر سے جانی واکر کے دیوانے ہو گئے، جو بھول بیٹھے تھے ان کے لبوں پربھی جانی واکر کا تذکرہ تھا۔

جانی واکر کو ’چاچی 420‘ کے بعد کئی اورفلموں کی پیش کشیں ہوئیں لیکن وہ معذرت کرتے چلے گئے۔ سب کو یہ باورکرایا کہ انہوں نے سپر ہٹ ’چاچی 420‘ صرف اور صرف کمل ہاسن کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کی تھی۔

بےساختہ اور برجستہ مزاحیہ اداکاری کرنے والے جانی واکر پھر 29جولائی 2003 خاموشی سے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ جس فلم میں انہوں نے بادل نخواستہ کام کیا تھا، وہی ’چاچی 420‘ ان کی آخری فلم ثابت ہوئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم