کسی ملک کی ملکہ بننا کسی بھی عورت کا سب سے بڑا خواب ہو سکتا ہے، اور ملک بھی برطانیہ جو اس زمانے میں سپر پاور تھا، لیکن ایک خاتون ایسی گزری ہیں جن کے لیے یہ اعزاز ایک ڈراونا خواب ثابت ہوا۔
یہ خاتون والس سمپسن ہیں جو نہ صرف بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کی ملکہ تھیں بلکہ اس سے کہیں آگے بڑھ کر ان کی خاطر بادشاہ نے تخت کو ٹھوکر مار دی۔ لیکن دوسری جانب اسی والس سمپسن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس زمانے میں انگلستان کی سب سے نفرت کی جانے والی شخصیت بن گئی تھیں۔
سمپسن کا قصور کیا تھا؟ ان کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ ان کا تعلق شاہی خاندان سے نہیں تھا، پھر وہ برطانوی نہیں تھیں اور ایڈورڈ ہشتم سے ملاقات سے پہلے دو شادیاں کر کے طلاق حاصل کر چکی تھیں۔
ان کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہو گئیں۔ کہا جاتا تھا کہ وہ ہٹلر کی مداح ہیں، انہوں نے ایڈورڈ ہشتم کو قابو کر رکھا ہے، ان کی جنسی زندگی کے بارے میں بھی قسم قسم کی گپ شپ مشہور ہو گئی۔
رومانوی داستان
دنیا میں جب بھی عشق کی عظیم داستانوں کا تذکرہ آئے گا اس بادشاہ کا ذکر ضرور آئے گا جس نے اپنے عشق کی خاطر انگلستان کے تاج و تخت کو اس وقت ٹھوکر مار دی جب اس سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اس بادشاہ کا نام تھا ایڈورڈ ہشتم۔
ایڈورڈ ہشتم 23 جون 1894 کو انگلستان کی سرے کاؤنٹی کے شہر رچمنڈ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی پیدائش کے وقت ان کے والد انگلستان کے ولی عہد تھے جو 1911 میں بادشاہ بنے۔ ایڈورڈ ہشتم بادشاہ جارج پنجم کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے۔ اسی تعلق سے وہ ان کے ولی عہد بنے اور پرنس آف ویلز کے خطاب سے سرفراز ہوئے۔
1930 میں جب جارج پنجم شاہ انگلستان تھے، پرنس آف ویلز کی ملاقات وارفیلڈ سمپسن سے ہوئی جو آہستہ آہستہ عشق میں تبدیل ہو گئی۔
وارفیلڈ سمپسن کا اصل نام بیسی وار فیلڈ تھا اور وہ 19 جون 1896 کو امریکی ریاست پنسلوانیا میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی تعلیم اعلیٰ اداروں میں ہوئی تھی۔
1916 میں ان کی پہلی شادی ارل ون فیلڈ سپنسر سے اور دوسری شادی 1928 میں ارنسٹ سمپسن سے ہوئی تھی۔ یوں جب مسز سمپسن اور ایڈورڈ ہشتم کی پہلی ملاقات ہوئی تو سمپسن کی دو شادیاں ہو چکی تھیں اور ایڈورڈ ہشتم ابھی کنوارے تھے۔ لیکن دل کے معاملات میں ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
20 جنوری 1936 کو ایڈورڈ ہشتم کے والد جارج پنجم انتقال کر گئے، جس کے بعد ان کے ولی عہد ایڈورڈ ہشتم تخت نشین ہوئے۔
بادشاہ بننے کے بعد جب ایڈورڈ ہشتم نے سمپسن سے شادی کا ارادہ ظاہر کیا تو برطانیہ کے قدامت پسند حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔
سب سے زیادہ مخالفت وزیراعظم سٹینلی بالڈون نے کی۔ سٹینلی بالڈون دائیں بازو کی قدامت پسند سیاسی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے وزیراعظم تھے اس لیے وہ تصور ہی نہیں کر سکتے تھے کہ ایک عام امریکی عورت جو دو افراد سے طلاق حاصل کر چکی ہے برطانیہ کی ملکہ بن جائے۔
انہوں نے بادشاہ کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے اپنا ارادہ نہیں بدلا تو وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔ بالڈون نے برطانیہ کے بشپ آف بریڈ فورڈ ڈاکٹر اے ڈبلیو آف ہنٹ نے چرچ آف انگلینڈ کے نام پر برطانوی اخبارات سے سازباز کر کے ایک مہم چلائی اور کہا کہ بادشاہ سلامت یا تو مسز سمپسن کو چھوڑ دیں یا پھر تخت و تاج سے دستبردار ہو جائیں۔
یہ وہ مرحلہ تھا جہاں ایک بادشاہ اور ایک عاشق کو فیصلہ کرنا تھا۔ عاشق کا ارادہ بادشاہ کے فیصلے پر غالب رہا اور 11 دسمبر 1936 کو وہ 324 دن کی بادشاہت کے بعد اپنے چھوٹے بھائی جارج ششم کے حق میں دستبردار ہوگئے۔
اس موقعے پر انہوں نے قوم سے خطاب کیا اور کہا کہ میں وارفیلڈ سمپسن سے محبت کرتا ہوں اور اس کے بغیر میرے لیے بادشاہت کی بھاری ذمہ داریاں ادا کرنا ناممکن ہوں گی۔
ایڈورڈ ہشتم تاج و تخت چھوڑ کرفرانس منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے تین جون 1937 کو ایک عام آدمی کی حیثیت سے وار فیلڈ سمپسن سے شادی کر لی اور پیرس میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
ایڈورڈ ہشتم کے بعد ان کے بھائی البرٹ ’جارج ششم‘ کے لقب کے ساتھ برطانیہ کے بادشاہ بن گئے۔ جارج ششم نے اپنے بھائی کو ڈیوک آف ونڈسر اور اپنی بھاوج کو ڈچز آف ونڈسر کا خطاب عطا کیا۔
ڈیوک آف وندسر نے اپنی محبوبہ کے ہمراہ ایک مثالی اور بھرپور زندگی گزاری اور ایک مرتبہ بھی اپنی محبوبہ کے لیے تخت و تاج چھوڑنے پر تاسف کا اظہار نہیں کیا۔
وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر 28 مئی 1972 کو اپنی بیوی کو داغ مفارقت دے گئے۔ شوہر کی وفات کے بعد سمپسن نے 14 برس تنہائی، مایوسی اور بیماری کی حالت میں گزارے اور 24 اپریل 1986 کو انتقال کر گئیں۔
انہیں اپنے محبوب شوہر کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ یوں بیسویں صدی کا یہ لازوال عشق اپنے اختتام کو پہنچا لیکن دل والے رہتی دنیا تک اس داستان کو یاد رکھیں گے۔
ایڈورڈ ہشتم کی اس لازوال داستان معاشقہ پر 1965 میں ہیری بوتھ نے ’اے کنگز سٹوری‘ کے نام سے ایک دستاویزی فلم بنائی جسے بہترین دستاویزی فلم کا آسکر ایوارڈ بھی ملا۔
والس سمپسن نے بھی اپنی سوانح عمری ’دا ہارٹ ہیز اٹس اون ریزنز‘ (The Heart Has Its Own Reasons) کے نام سے قلم بند کی۔ اس داستان معاشقہ پر جارج برنارڈ شا نے ’دا ایپل کارٹ‘ کے نام سے ایک ڈراما تحریر کیا۔
ایڈورڈ ہشتم چونکہ ہندوستان کے بھی بادشاہ تھے اس لیے یہاں کے لوگوں نے بھی ان کی معاملاتِ عشق میں گہری دلچسپی ظاہر کی۔
اردو کے معروف ادیب خواجہ حسن نظامی نے ’نئے شہنشاہ جارج ششم کی خدمت میں نذر‘ کے عنوان سے 108 صفحات پر مشتمل ایک کتاب تحریر کی جس کے سرورق پر تحریر تھا ’برطانی قوم کے تاج دار اقلیم ادب مسٹر برنارڈ شا کے نیک نام کے ذریعے میں اس کتاب کو اپنے نئے شہنشاہ جارج ششم کی نذر کرتا ہوں۔ یہ نذر ان کی شہنشاہی قبول کرنے اور ان کی حکومت سے وفادار رہنے کا ایک طریقہ ہے ورنہ محبت تو مجھے سابق ایڈورڈ ہشتم ہی سے ہے۔‘
اس کتاب میں انہوں نے ایڈورڈ ہشتم کے یکم دسمبر 1936 سے 11 دسمبر 1936 تک کے واقعات ایک فرضی ڈائری کے انداز میں تحریر کیے ہیں۔
2013 میں برطانیہ کی کچھ خفیہ دستاویزات منظرعام پر آئیں جن سے انکشاف ہوا کہ برطانوی حکومت اپنے بادشاہ اور ان کی محبوبہ کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونی گفتگو کو ریکارڈ کرتی تھی۔
ان دستاویزات کے مطابق ایڈورڈ ہشتم برطانیہ اور جرمنی کے درمیان مفاہمت کے خواہش مند تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ہٹلر کی رہنمائی میں جرمنی فاشزم کا سب سے بڑا مظہر بن چکا تھا۔ برطانوی حکومت کو شک تھا کہ مسز سمپسن جرمن ایجنٹ ہیں۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جب بادشاہت سے دستبردار ہونے اور شادی کے بعد ایڈورڈ ہشتم پیرس میں قیام پذیر ہوئے تو انہوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ ہٹلر سے ملاقات بھی کی، وہ دونوں جنگ کے خلاف تھے۔