آپ نے پچھلے چند برسوں میں اس موضوع پر رپورٹیں پڑھ رکھی ہوں گی جن میں کہا گیا ہے کہ موجودہ ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کا رشتہ 43 نسلیں پیچھے جا کر پیغمبرِ اسلام سے جا ملتا ہے۔
یہ خبر اتنی پھیلی کہ اکانومسٹ، نیوز ویک، ٹائمز لندن، آبزرور، ڈیلی میل اور دنیا بھر کے اخباروں نے اسے صفحۂ اول پر چھاپا۔ مسلمان ملکوں میں بھی اس خبر پر خاصی دلچسپی دکھائی گئی۔
پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دعویٰ کب اور کس نے کیا، جس کے بعد یہ ذکر آئے گا کہ اس میں کس قدر حقیقت ہے۔
برطانیہ میں برکس پیئرج نامی ایک ادارہ ہے جو برطانوی اشرافیہ کے شجروں کے بارے میں تحقیق کرتا رہتا ہے۔
یہ ادارہ 1828 میں قائم ہوا تھا اور اس کے بعد سے یہ وقتاً فوقتاً مختلف مشاہیر کے شجروں پر مبنی کتابیں چھاپتا رہتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1986 میں اس ادارے کی ایک اشاعت میں رپورٹ چھپی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ برطانوی شاہی خاندان کی رگوں میں عرب خون دوڑ رہا ہے اور ان کا سلسلۂ نسب حضرت علی سے جا ملتا ہے۔
بلکہ ادارے کے ڈائریکٹر نے اس وقت کی برطانوی وزیرِ اعظم کو خط بھی لکھا کہ اس انکشاف کے بعد ملکۂ برطانیہ کی سکیورٹی بڑھا دی جائے کیوں کہ اب ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
اس وقت انٹرنیٹ عام نہیں ہوا تھا اور سوشل میڈیا کا تو وجود تک نہ تھا، اس لیے یہ خبر کچھ زیادہ عام نہیں ہو سکی۔
البتہ 2015 میں اس نے دوبارہ سر اٹھایا اور مصر کے مفتیِ اعظم علی جمعہ نے اس کا ذکر کر کے گویا جلتی پر تیل ڈال دیا۔ انہوں نے ایک مصری ٹیلی ویژن چینل سے بات کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ’بنی ہاشم کے گھرانے کا ایک فرد برطانیہ میں گرفتار ہوا تھا جسے زبردستی عیسائی بنا لیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ملکہ الزبتھ کا دادا تھا۔ یہ درج شدہ اور پیچیدہ معاملہ ہے۔ اس بارے میں عربی اور انگریزی میں کتابیں لکھی گئی ہیں۔‘
علی جمعہ کا یہ کہنا بالکل بےبنیاد تھا کہ ملکہ الزبتھ کے دادا مسلمان تھے۔ برکس پیئرج کی رپورٹ بہت صدیاں پیچھے جا کر ان کا سلسلہ مسلمانوں سے جوڑتی ہے۔
اسی دوران ایک مراکشی ہفت روزہ الصحيفة الأسبوعية نے ملکہ کا 43 نسلوں پر مشتمل تفصیلی شجرہ چھاپ کر اور ان کا ناطہ حضرت محمد سے جوڑ کر گویا مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔
اس پر ایک اخبار نے (غالباً طنزاً) لکھا کہ اب ملکۂ برطانیہ کو دنیا کے تمام مسلمان ملکوں پر حکومت کا حق بھی حاصل ہو گیا ہے۔
شاعر بادشاہ کی قید خانے میں فریاد
اخباروں میں جو تفصیلی شجرے چھپے ان کے مطابق ایک ہزار سال پہلے ملکہ برطانیہ کے آبا و اجداد میں سے ایک خاتون ایسی تھیں جن کا تعلق اندلس کے مسلمان شاہی خاندان سے تھا اور وہ مسلمان تھیں۔
آپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں نے سپین پر طویل صدیاں حکومت کی ہے۔ اس دوران مختلف شاہی خاندان وہاں برسرِ اقتدار رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک بنو عباد کہلاتا ہے جس نے 1023 سے لے کر 1091 تک طوائف الملوکی کے دور میں اشبیلیہ کے طائفے پر حکومت کی۔ اس خاندان کے تیسرے اور آخری حکمران معتمد بن عباد تھے جو عمدہ شاعر بھی تھے۔ علامہ اقبال نے ’قید خانے میں معتمد کی فریاد‘ کے نام سے ان کی ایک نظم کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے جو بانگِ درا میں شامل ہے۔
معتمد تو بادشاہ تھے، پھر وہ قید خانے میں کیسے پہنچ گئے؟
معتمد کے دور ہی میں شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے جنگجو یوسف بن تاشفین نے اندلس پر حملہ کر کے اس کے بڑے حصے پر قبضہ کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ نسیم حجازی نے انہی یوسف بن تاشفین پر تاریخی ناول بھی لکھا ہے اور انہیں زبردست ہیرو قرار دیا ہے۔
جہاں یوسف بن تاشفین نے مسیحی حکمرانوں کو شکست دی، وہیں مختلف مسلمان ریاستوں کو بھی اپنی حکومت میں ضم کر لیا۔ اسی کی زد میں معتمد کی ریاست بھی آ گئی۔
اصل میں سخت جاں و سخت کوش بربر قبائلیوں کو معتمد کا پر تعیش طرزِ زندگی ایک آنکھ نہیں بھایا اور انہوں نے بادشاہ کو گرفتار کر کے مراکش بھیج دیا جہاں ان کا قید کے دوران انتقال ہوا۔ اقبال کی ترجمہ شدہ نظم اسی دور میں لکھی گئی تھی۔
معتمد کا ملکۂ برطانیہ سے کیا تعلق ہے؟
الاسبوع کے شجرے کے مطابق انہی معتمد کی ایک بیٹی زائدہ نامی تھیں۔ یوسف بن تاشفین نے جب معتمد کو شکست دی تو یہ زائدہ مسیحیوں کے علاقے قشتالیہ چلی گئیں جہاں انہیں حکمران الفانسو ششم نے اپنے حرم میں شامل کر لیا۔ اب اس کے بعد تاریخ کے صفحات دھند میں چھپے ہوئے ہیں۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ زائدہ نے الفانسو کی بیٹی ازابیلا کو جنم دیا جن سے ان کا سلسلہ آگے چلا، کچھ کا خیال ہے کہ ازابیلا کی ماں دوسری تھی۔ بہرحال، پہلے مکتبۂ فکر کے مطابق اسی ازابیلا کی ایک سگڑپوتی ازیبلا قشتالی کی شادی 13 جولائی 1372 کو برطانیہ کے شہزادہ ایڈمنڈ آف لینگلی سے ہوئی۔
یہی ایڈمنڈ لینگلی ملکہ الزبتھ دوم کے جدِ امجد ہیں۔
اس مفروضے کے مطابق وہ زائدہ کے وسیلے سے عربوں سے جڑے ہوئے ہیں، اس لیے انہی کی وساطت سے موجودہ ملکۂ برطانیہ کا سلسلہ بھی پیغمبرِ اسلام سے جا ملتا ہے۔
یہ کہانی دلچسپ و عجیب ضرور ہے، لیکن اس میں بڑے جھول ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ زائدہ کا سلسلہ ملکہ الزبتھ دوم سے تو ضرور ملایا جا سکتا ہے، لیکن زائدہ کا معتمد سے کیا رشتہ تھا، یہ بات اتنی سیدھی سادی نہیں۔
یہ ضرور ہے کہ قدیم ہسپانوی تاریخ دان زائدہ کو معتمد کی بیٹی بتاتے رہے ہیں لیکن اس دور کے مسلمان ماخذات کے مطابق زائدہ معتمد کی بیٹی نہیں بلکہ بہو تھیں۔ ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں مسلمان ماخذات زیادہ قابلِ اعتبار ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر کھینچ تان کر زائدہ کو معتمد کی بیٹی مان بھی لیا جائے، تب بھی یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ معتمد حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے تھے، یعنی آج کل کی زبان کے مطابق سادات تھے۔
برکس پیئرج کے مطابق معتمد کا شجرہ اوپر جا کر 12 ویں سلسلے میں زہرہ بنت حسین سے جا ملتا ہے، جو امام حسن کی پوتی تھیں۔
اب معاملہ یہ ہے کہ تاریخ کی مستند کتابوں میں حسین بن حسن (ان کا اصل نام زید تھا، کنیت ابوالحسین تھی) کی زہرہ نامی کسی بیٹی کا ذکر نہیں ملتا۔ ان کی تین اولادیں تھیں، حسن بن زید (جو عباسی دور میں مدینہ کے گورنر مقرر ہوئے)، محمد (جو بچپن میں فوت ہو گئے) اور ایک بیٹی نفیسہ۔
اس لیے معتمد کی سیادت ثابت نہیں ہو سکتی۔
اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نسب باپ کی طرف سے چلتا ہے، اور ملکہ کے حضرت علی تک شجرے میں دو چار نہیں، 13 خواتین آتی ہیں۔
لیکن اس عنصر کو نظرانداز بھی کر دیا جائے (ویسے بھی فیمینزم کا زمانہ ہے!) تو بھی ملکہ الزبتھ کی سیادت کا انحصار زائدہ پر ہے، لیکن مستند تواریخ کے مطابق وہ معتمد کی بیٹی ثابت نہیں ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی واضح نہیں ہے کہ زائدہ کی نسل آگے چلی یا نہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ نسل آگے چلی، اور یہ بھی مان لیا جائے کہ زائدہ واقعی معتمد کی بیٹی تھیں، تب بھی مسئلہ یہ درپیش آتا ہے کہ خود معتمد کی سیادت مصدقہ نہیں ہے کیوں کہ اس کا انحصار زہرہ بنت ابوالحسین بن حسن پر ہے، لیکن ان کا وجود تاریخ سے ثابت نہیں ہوتا۔
چنانچہ برکس پیئرج یا الأسبوعية کی تمام تر تحقیق ہوا میں قلعہ تعمیر کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ بھلے کتنا بھی کھینچا تانی کی جائے، ملکہ باقی جو کچھ ہوں، سیدانی ہرگز ثابت نہیں ہو سکتیں۔
اس لیے انہیں کم از کم اس معاملے میں اضافی سکیورٹی کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی دنیا کے مسلمان ملکوں پر ان کا حقِ حکمرانی قائم ہوتا ہے!
نوٹ: یہ مضمون چھ دسمبر، 2019 کو ویب سائٹ پر شائع ہوا تھا، جسے ملکہ الزبتھ کے انتقال پر ری شیئر کیا جا رہا ہے۔