آپ کو شاید سچن ٹنڈولکر کے جنوبی افریقہ کے خلاف 200 رنز یاد ہوں جو ایک روزہ میچوں کی تاریخ کی پہلی ڈبل سینچری تھی۔ پھر روہت شرما کی 264 رنز ناٹ آؤٹ باری کون بھول سکتا ہے جس کا ریکارڈ آج تک نہیں ٹوٹ سکا؟
وراٹ کوہلی کی پاکستان کے خلاف 183 رنز کی طوفانی اننگز سب کے دماغ میں تر و تازہ ہو گی، سعید انور کے 194 رنز بھی سب کو یاد ہوں گے۔
مگر ایک ایسی باری جو 38 سال گذرنے کے باوجود آج بھی ون ڈے کی بہترین باری شمار ہوتی ہے، یہ 1984 میں کھیلی گئی ویوین رچرڈز کی وہ اننگز ہے جسے وزڈن نے ’ایک روزہ تاریخ کی سب سے بہترین اننگز‘ قرار دیا اور بلاشبہ آج بھی کوئی دوسری ون ڈے باری اس شاہکار کا مقابلہ نہیں کر سکتی، آئیے اس کا احوال جانتے ہیں۔
آج کل کی جدید کرکٹ کو دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ ہم ’کرکٹ کے عہدِ بلے بازی‘ میں جی رہے ہیں تو یہ بےجا نہ ہو گا۔ پاور پلے کے نام سے گیند باز اور فیلڈرز کے ہاتھ باندھ دیے جاتے ہیں، پچز بھی بلے بازی کے لیے جنت ہوتی ہیں، اور بلے بھی بطورِ خاص بلے بازوں کے لیے بنائے جاتے ہیں لہٰذا اس دور میں بڑی بڑی باریاں بھی وہ مقام حاصل نہیں کر سکتیں جس مقام پر یہ شاندار باری ٹھہری ہوئی ہے۔
یہ انگلستان کے دورے پر آئی جزائر غرب الہند کی ٹیم کا پہلا ون ڈے میچ ہے، مہمان ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا تو 11 رنز پر دونوں اوپنرز پویلین لوٹ چکے تھے اور اس وقت تک پہلے بلے بازی کا فیصلہ غلط نظر آ رہا تھا۔
اسی اثنا میں سر ویون رچرڈز بلا تھام کر میدان میں اترے تو دن کے اختتام تک تاریخ میں امر ہو چکے تھے۔ انگلش گیند باز 107 کے مجموعی سکور تک سات وکٹیں بٹور چکے تھے۔ ان کا خیال ہو گا کہ مزید پندرہ بیس رنز کے بعد یہ اننگز سمٹ جائے گی اور ان کے بلےباز اس معمولی سکور کو بغیر کسی دشواری کے حاصل کر لیں گے۔
لیکن ویوین رچرڈز کے ارادے کچھ اور تھے جو برطانوی بولروں کے ارادوں سے متصادم تھے۔
اولڈ ٹریفوڈ مانچسٹر کا یہ میدان تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور اس وقت تک انگلش گیند بازوں کی کارکردگی دیکھ کر کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ آج انگلینڈ کو فتح یاب ہوتا نہیں بلکہ ایک تاریخ رقم ہونے کے چشم دید گواہ بننے جا رہے ہیں۔
رچرڈز نے پہلے تو ایلڈین بیپٹیسٹ کے ساتھ مل کر آٹھویں وکٹ کے لیے 59 رنز کی شراکت جوڑی۔ دیو قامت جوئل گارنر آئے، اور آ کر چلے گئے۔ سکور نو وکٹوں پر 166 رنز۔ ایک بار پھر برطانوی کپتان ڈیوڈ گاور نے ضرور سوچا ہو گا کہ چلو اب یہ میچ میری جیب میں آ گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ادھر رچرڈز دل میں کچھ اور ہی ٹھان کر آئے تھے۔ انہیں آخری وکٹ کے لیے مائیکل ہولڈنگ کا ساتھ میسر آ گیا۔ ہولڈنگ فاسٹ بولنگ میں لیجنڈری حیثیت رکھتے ہیں مگر بلےبازی میں ان کی کارکردگی صفر سے کچھ ہی اوپر تھی۔
رچرڈز کو اس کا احساس تھا اس لیے وہ دونوں طرف سے خود کھیلنے لگے۔ آخری گیند آتی تو وہ سنگل لے لیتے، تاکہ ہولڈنگ کو کھیلنا ہی نہ پڑے۔
خود انہوں نے ہاتھ کھول لیے۔ اب ان کا بلا آندھی کی رفتار سے چلنے لگا۔ سکور بڑھتا چلا گیا، چھکے میدان عبور کر کے تماشائیوں کے ہجوم کا رخ کرنے لگے۔ برطانوی بولروں کے کفایتی اعداد و شمار کا حلیہ بگڑنے لگا۔
جب 55 اوورز پر مشتمل یہ باری ختم ہوئی تو ویون رچرڈز کے نام کے آگے 189 ناٹ آؤٹ درج تھے جو انہوں نے 170 گیندیں کھیل کر بنائے تھے، اس شاہکار باری میں پانچ فلک شگاف چھکے اور 21 چوکے شامل تھے۔
اس باری کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ مائیکل ہولڈنگ اور ویون رچرڈز کے مابین آخری وکٹ کے لیے 106 رنز کی شراکت قائم ہوئی جس میں ہولڈنگ کا حصہ صرف 12 رنز کا تھا۔ اس دن ویون نے جس گیند باز کو جہاں چاہا وہاں کھیلا، این بوتھم ہو یا بوب ولس، پرنگل ہو نیل فاسٹر سر ویون کے عتاب سے کوئی نہ بچ سکا۔
ویسٹ انڈیز نے 272 رنز جوڑے تو رچرڈز نے گیند بازی میں بھی دو مہرے کھسکا کر مردِ میدان کا حق دار خود کو ثابت کیا، انگلینڈ کی ساری ٹیم مل کر رچرڈز کے بنائے رنز تک بھی نہ پہنچ سکی اور پوری ٹیم 168 پر ڈھیر ہو گئی۔
اس مقابلے میں ویسٹ انڈیز نے 104 رنز کی فتح سے دورے کی ایسی بنیاد رکھی کہ انگلستان پھر نہ صرف ون ڈے سیریز سے ہاتھ دھو بیٹھا بلکہ بعد ازاں ٹیسٹ سیریز میں بھی تاریخی ہزیمت قبول کرتے ہوئے ’وائٹ واش‘ کا سامنا کیا۔