عامر لیاقت حسین وہ شخصیت ہیں جو عزت، شہرت اور مقبولیت کے میدان میں پاکستان کے بڑے بڑے فلمی ستاروں سے بھی بازی لے گئے۔ لیکن ایک مرحلہ وہ بھی آیا کہ وہ خود اپنی شہرت کا شکار ہو گئے اور انہوں نے پےدرپے ایسے کام کیے کہ وہی شہرت بدنامی میں ڈھلتی گئی، اور آخر میں تو ان کا نام آتے ہی لوگوں کے لبوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ دوڑ جاتی تھی۔
خاص طور پر اپنی شادیوں کی وجہ سے انہیں عوام کے منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ کہنے والا یہی کہتا کہ اس شخص نے اپنی زندگی اپنے ہاتھوں تباہ کی اور اتنی عزت دولت اور شہرت کے باوجود بدنامی کے تحت الثریٰ میں گرتا ہی گیا۔
شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ان کے بدن کے اندر ایک انتہائی بےقرار اور بےچین روح تھی۔ وہ کسی ایک چوٹی کو سر کر کے مطمئن نہیں ہو جاتے تھے، بلکہ انہیں دور افق پر دوسری منزلیں اپنی طرف بلاتی رہتی تھیں اور وہ کسی ایک ٹھکانے پر قیام کرنے کی بجائے مسلسل سفر میں رہتے تھے۔
یہ بات ان کے پروفیشنل کیریئر، نجی زندگی اور سیاسی زندگی ہر جگہ پر صادق آتی ہے۔ یہی چیز مختلف میدانوں میں ان کی کامیابیوں کا باعث بنی اور اسی نے انہیں زوال کی راہ بھی دکھائی، حتیٰ کہ بالآخر وہ زندگی کی بازی ہی ہار گئے۔
سالِ پیدائش 71 نہیں 69
عامر لیاقت حسین کا اصل اور شناختی کارڈ کے مطابق نام عامر حسین تھا۔ وہ شناختی کارڈ کے مطابق پانچ جولائی 1971 کو معروف سیاستدان شیخ لیاقت حسین اور بیگم محمودہ سلطانہ کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے نانا سردار علی صابری روزنامہ جنگ سے وابستہ تھے جبکہ والدہ بیگم محمودہ سلطانہ پاکستان کی پہلی باقاعدہ کالم نگار خاتون تھیں۔
شناختی کارڈ کے برعکس ان کا حقیقی پیدائش کا سال 1969 ہے کیونکہ جس زمانے میں صدر ایوب کے خلاف ملک گیر تحریک چل رہی تھی تو وہ اس وقت دو ماہ کے تھے جب ان کے والدین گرفتار ہوئے تھے۔
عامر لیاقت حسین نے ابتدائی تعلیم علی علی سکول سے حاصل کی اور 1986 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ سکول کے زمانے سے ہی وہ نعت اور تقریر کے مقابلوں میں حصہ لیتے رہے اور ان کا شمار اس وقت بہترین اور ابھرتے ہوئے مقررین میں ہونے لگا۔ 1988 میں انہوں نے پہلی بار سرسید کالج میں منعقدہ آل پاکستان ڈیبیٹ مقابلہ جیتا جس کے بعد مقرروں میں ان کی دھوم مچ گئی۔
ڈاکٹر نہیں بن سکے
آدم جی کالج کی جانب سے انہوں نے بے شمار مقابلے جیتے جس کے بعد وہ انفرادی طور پر بھی مقابلوں میں حصہ لیتے رہے۔ 1990 میں وہ سندھ میڈیکل کالج میں داخل ہوئے جہاں وہ ایم بی بی ایس کے طالبِ علم تھے۔ 1991 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’میری آواز سارے زمانے کی سدا ہے‘ منظرِ عام پر آیا جس میں انقلابی نوعیت کی نظمیں شامل تھیں۔ سندھ میڈیکل کالج میں اس وقت سندھی قوم پرستوں کا زور تھا اسی لیے بار ہا وہ سندھو دیش کے حامی طالبِ علموں کے ہاتھوں زد و کوب ہوتے رہے جس پر جی ایم سید نے ان کا ساتھ دیا مگر جان کا خوف پھر بھی لاحق تھا، اسی لیے وہ میڈیکل کی تعلیم آخری سال چھوڑ گئے۔
اسی زمانے میں اسلامی جمیعتِ طلبہ کے خیالات سے بھی متاثر ہوئے لیکن چونکہ اس وقت کراچی میں لسانی فسادات عام تھے اور عامر لیاقت خود قوم پرستی کا شکار رہے تھے، اسی لیے وہ اپنی تقاریر میں ایم کیو ایم کے موقف کی ترجمانی کرتے، حالانکہ ڈی جے سائنس کالج میں وہ اے پی ایم ایس او کے مبینہ کارکنوں کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھوتے دھوتے بھی بچے تھے۔
وہ میڈیکل ڈاکٹر تو نہیں بن سکے، لیکن ڈاکٹر بننے کا شوق اتنا تھا کہ انہوں نے ایگزیکٹ نامی ایک بدنامِ زمانہ ادارے سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے کا دعویٰ کیا جس پر اعتراض کیا گیا کہ یہ ڈگری جعلی ہے اور پیسے دے کر خریدی گئی ہے۔
ایم کیو ایم والوں نے مارا، جمیعت نے بچایا
ہوا یوں تھا کہ ان کی ایک تقریر سے کسی نے ایم کیو ایم کے بانی کے خلاف جملہ از خود اخذ کر لیا تھا۔ انہیں مبینہ اے پی ایم ایس او کے کارکنوں نے قالین میں لپیٹ کر آگ لگا کر ڈی جے سائنس کالج کے بیت الخلا میں پھینک دیا تھا جہان سے جمیعت کے کارکنوں نے انہیں بازیاب کرایا۔
1994 میں انہوں نے لاہور میں منعقدہ کل ایشیائی مقابلہ تقاریر میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور فی البدیہہ تقریر میں بھی سب کو چت کر دیا، جس پر انہیں اردو زبان میں ایشیا کا بہترین نوجوان مقرر بھی قرار دیا جانے لگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1994 میں وہ صحافت کے شعبے کی طرف مائل ہوئے اور ان کی ملاقات روزنامہ ’پرچم‘ کے مدیر اے اے فریدی سے ہوئی۔ فریدی صاحب نے انہیں روزنامہ پرچم میں بطور انٹرنی یہ کہہ کر رکھ لیا کہ یہ تحریر کی دنیا ہے، یہاں تقریر نہیں اپنی تحریر مضبوط بنانا ہو گی۔
عامر لیاقت نے ایک ماہ میں ہی فریدی صاحب کی شاگردی میں صحافت کے تمام رموز سیکھ لیے اور اگلے ماہ ہی فریدی صاحب کی سفارش پر پرچم اخبار کے مالک زاہد قریشی نے نائب مدیر رکھ لیا۔ عامر لیاقت وہاں ڈبل شفٹ میں کام کرتے اور باقی جو وقت بچتا اس میں شہر کی محافل میں نعتیہ کلام بھی پڑھنے جاتے۔ اسی دوران وہ ایم کیو ایم کے باقاعدہ رکن بن گئے اور ایم کیو ایم کی وساطت سے انہوں نے 1997 میں پرچم اخبار بھی خرید لیا۔
یہ وہ وقت تھا جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن جاری تھا، اس لیے وہ سیاسی پناہ لینے کے لیے لندن چلے گئے جہاں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے انہیں خوش آمدید کہا اور ان پر خصوصی توجہ دی۔
دو سال لندن میں رہنے کے بعد وہ خود پاکستان آ گئے اور یہاں ایف ایم 1010 سے رمضان المبارک کی نشریات کرنے لگے جسے عوام بے حد پسند کرتے۔ رمضان المبارک کے بعد اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی سیلولر کمپنی موبی لنک نے ان سے ایف ایم 101 پر کوئز مقابلہ ’جاز بنائے منٹوں میں مالا مال‘ کی میزبانی سپرد کی۔ یہ پاکستان میں ریڈیو پر پہلا براہِ راست کوئز مقابلہ تھا جو 2001 تک جاری رہا۔
جیو کے پہلے نیوز کاسٹر
2002 میں جیو ٹی وی نے اپنی نشریات کا آغاز کیا تو عامر لیاقت حسین اس کے پہلے نیوز اینکر بھی بنے اور پہلی خبر انہوں نے نے ہی نشر کی۔ لیکن ان کے انداز میں نیوز کاسٹر کی بجائے ایک مقرر تھا اسی لیے جیو انتظامیہ نے انہیں کوئی باضابطہ پروگرام دینے کا فیصلہ کیا۔ اس سال رمضان المبارک میں جیو نے ’عالم آن لائن‘ کے نام سے پروگرام کا آغاز کیا تو عامر لیاقت حسین سے بہترین آپشن ان کے پاس نہ تھا۔
یہ وہ موقع تھا جس کی تیاری عامر لیاقت برسوں سے کر رہے تھے۔ اب آن لائن تھا، عامر لیاقت حسین تھے اور جیو ٹی وی، جس نے ان کی شہرت کو بلندیوں پر پہنچا دیا اور اب وہ ایک میزبان کی بجائے ایک اسلامی سکالر کے نام سے پہچانے جانے لگے۔ 2002 کے عام انتخابات میں وہ کراچی سے حلقہ 249 سے ایم کیو ایم کی سیٹ پر قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے اور انہیں صدر مملکت جنرل پرویز مشرف نے وزیرِ مملکت برائے مذہبی امور کا عہدہ بھی سپرد کر دیا جس میں وہ اعجاز الحق کے معاون تھے۔
رمضان ٹرانسمشن کے بانی
2005 سے انہوں نے جیو ٹیلی ویژن پر باقاعدہ رمضان المبارک کی نشریات کا آغاز کیا جس میں دینی موضوعات پر مختلف پروگرامز ہوتے، ان کی اس صلاحیت کو دیکھتے ہوئے جیو انتظامیہ نے جیو ٹی وی کا شعبۂ مذہبی امور قائم کردیا جس کے گروپ ڈائریکٹر خود عامر لیاقت حسین ہی تھے۔
2007 میں انہوں نے جیو ٹی وی پر ’سلام رمضان‘ کے عنوان سے تھیم ٹرانسمیشن کی جس نے ریٹنگ کو بلند کر دیا۔ اسی سال جب برطانیہ نے ملعون رشدی کو سر کا خطاب دیا تو عامر لیاقت حسین نے روزنامہ جنگ میں اپنا کالم ’سر ملا ہے سر کاٹنے کے لیے‘ تحریر کیا جس پر حکومت اور خاص طور پر ایم کیو ایم نے ان سے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔
اس وقت ایم کیو ایم سے نکلنے کو بھی جان سے جانے کا مترادف سمجھا جاتا تھا لیکن عامر لیاقت حسین نے انتہائی دلیری کے ساتھ فیصلہ کیا اور ناموسِ رسالت پر جیو سے بپروگرام بھی پیش کر دیا۔ سات ستمبر 2007 کو یومِ ختم نبوت کے موقع پر عامر لیاقت ہی تھے جنہوں نے جیو ٹی وی سے باقاعدہ پروگرام کر کے یہ دن منایا جس پر منکرینِ ختم نبوت کا ٹولا ان کے خلاف ہو گیا تو دوسری جانب عوام میں ان کی عزت اور توقیر بڑھ گئی۔
2010 میں عامر لیاقت حسین نے اے آر وائی میں بطور مینیجنگ ڈائریکٹر شمولیت اختیار کی اور رمضان المبارک 2011 میں انہوں نے پہلی بار بڑے سیٹ کے ساتھ رمضان نشریات کا آغاز کیا جس کا عنوان ’رحمان رمضان‘ تھا۔ یہ سیٹ اور فارمیٹ پاکستان میں بالکل نیا تھا، اسی لیے اس سال اے آر وائی کی نشریات ریٹنگ میں پہلے نمبر پر رہی۔ عامر لیاقت کا اختراع کردہ یہ سیٹ اور فارمیٹ جو دراصل انڈونیشیا سے مستعار تھا ، اب پاکستان میں رمضان المبارک کا ٹرینڈ بن چکا ہے۔
2012 میں وہ بطور وائس پریزیڈنٹ دوبارہ جیو ٹی وی میں آگئے جہاں سے انہوں نے 2012 میں ہی ’پہچان رمضان‘ کے عنوان سے نشریات کیں جس کا سیٹ ایکسپو سینٹر میں لگایا گیا تھا۔ اس کے بعد متعدد کامیاب نشریات کا سہرا عامر لیاقت ہی کے سر جاتا ہے۔ 2015 میں وہ جیو سے اختلاف کی بنا پر ایکسپریس ٹی وی میں آ گئے مگر صرف ایک ماہ بعد دوبارہ جیو کی راہ لی اور یہاں جیو کہانی سے انہوں نے مارننگ شو کی میزبانی بھی سنبھال لی۔
سیاسی سفر اتار چڑھاؤ کا شکار
اب ان کا جھکاؤ ایک بار پھر سیاست کی طرف ہونے لگا تو انہیں ایم کیو ایم کے بانی کی محبتیں یاد آ گئیں اور وہ ببانگِ دہل ایم کیو ایم کی ترجمانی کرنے لگے۔ ان کے ساتھ مسئلہ یہی تھا کہ وہ جس کا ساتھ دیتے تو اس کے مخالفین کو بری طرح لفظی ضرب لگاتے اور یہ بھی بھول جاتے کہ کچھ عرصے قبل وہ اسی ادارے یا تنظیم کے موقف کے لیے دلائل دے رہے تھے۔ یہی چیز ان کے زوال کا سبب بننے لگی۔
وہ مذہب کے معاملے میں بھی کچھ ایسے ہی واقع ہوئے تھے۔ 22 اگست 2016 کو جب ایم کیو ایم کے بانی کی جانب سے ریاست مخالف بیان آیا تو عامر لیاقت ہی واح شخص تھے جو علی الاعلان حمایت کر رہے تھے جس پر انہیں اسی دن گرفتار کر لیا گیا، اور اگلے دن رہائی ملی تو وہ 180 کے زاویے سے بدل چکے تھے بلکہ انہوں نے سیاست میں آنے سے بھی توبہ کرنے کا اعلان کر دیا۔
جیو کے بعد ان کا اگلا ٹھکانہ بول ٹی وی تھا جہاں سے انہوں نے ’ایسے نہیں چلے گا‘ جیسا پروگرام کیا جس میں وہ جیو ٹی وی کے خلاف اپنا غبار نکالتے رہے۔ اس وقت ان کے ہمدرد منع بھی کرتے کہ ڈاکٹر صاحب آپ ہی کیوں؟ تو اس وقت یہی جواب ہوتا کہ ’تم مجھے سکھاؤ گے؟‘
اسی انانیت کے باعث وہ اپنے فیصلے بغیر سوچے سمجھے کرنے لگے یہاں تک کہ انہوں نے اپنی وفادار اہلیہ اور اپنے دو نوجوان بچوں کا خیال بھی نہ کیا اور اہلیہ ڈاکٹر بشریٰ اقبال کو طلاق دے کر طوبیٰ انور سے شادی کر لی۔ اس کے بعد وہ بول ٹی وی میں آتے جاتے رہے، یہاں تک انہوں نے پبلک ٹی وی اور چینل 24 میں بھی کام کیا۔
پاکستان میں گیم شو ’انعام گھر‘ شروع کر کے انہوں نے طارق عزیز کے پروگرام ’نیلام گھر‘ کو ایک بار پھر زندہ کر دیا جس پر عوام ایک بار پھر علم و ادب سے جڑنے لگے، لیکن شاید عامر لیاقت کی طبیعت کا رخ اب کہیں اور تھا۔ انعام گھر کے اگلے سیزن میں وہ ہلا گلا اور شور شرابا لے آئے جس سے ان کی شخصیت بھی مجروح ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ اسلامی سکالر کہلانی والی شخصیت اب ناپسندیدہ بنتی جا رہی تھی جس کی وجہ پروگرام میں آنے والی خواتین اداکاراؤں کا ہاتھ تھامنا اور ذو معنی گفتگو اہم تھیں۔
2018 کے انتخابات سے قبل وہ تحریک انصاف کے شدید مخالف تھے مگر انتخابات قریب آتے ہی وہ پی ٹی آئی میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ قومی اسمبلی کے رکن بھی بن گئے۔
گذشتہ دو برسوں میں وہ پی ٹی آئی کی مخالفت اور ڈھکی چھپی ایم کیو ایم کی حمایت پر تنقید کا سامنا بھی کرتے رہے۔ گذشتہ سال رمضان نشریات کے دوران ان کا ناگن ڈانس بھی عوام میں ہنسی کا باعث بنا جس پر ان کی شخصیت مزید مجروح ہوئی لیکن ان کو یہی سمجھ آتا تھا کہ ’بدنام نہ ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا۔‘ اسی لیے وہ کسی کی پروا کیے بغیر اس قسم کی حرکات کرتے رہے اسی وقت ان کی زندگی میں ہانیہ خان نامی مبینہ بیوی بھی سامنے آئی تو ان کے ایک قریبی دوست کی جانب سے کوکین کے نشے کا الزام بھی سامنے آیا۔
تیسری شادی جو بریکنگ نیوز بن گئی
2022 کے آغاز میں طوبیٰ انور نے ان سے باضابطہ خلع لے لی جس کے بعد پانچ جنوری 2022 کو انہوں نے دانیہ ڈانور نامی ٹک ٹاکر کو ’نجیب الطرفین‘ سید زادی ظاہر کر کے شادی رچا لی، جسے انہوں نے 11 فروری کو عام کیا۔
اس کے بعد سوشل میڈیا پر بےتحاشا میم بنے اور یہ شادی پورے ملک میں ہفتوں تک موضوع بنی رہی۔
مگر چند ماہ کے اندر اندر یہ شادی صرف ناکام نہیں بلکہ ان کی بدنامی کا باعث بنی رہی جس پر دونوں جانب سے فریقین کے سنگین الزامات آتے رہے۔ ادھر پی ٹی آئی کی حکومت بھی متزلزل ہونے لگی تو وہ پی ٹی آئی کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کرنے لگے جس سے عوام انہیں شدید الفاظ سے نوازتے رہے۔ دانیہ کے الزامات اور عوام کے شدید ردعمل سے گذشتہ ماہ عامر لیاقت حسین نے پاکستان چھوڑنے کا اعلان کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ شدید ذہنی دباؤ میں مبتلا تھے اور اسی ذہنی دباؤ اور تنہائی کی کیفیت میں وہ آج خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
عامر لیاقت حسین اپنی ملی جلی شخصیت کی وجہ سے عوام میں مقبول و معتوب رہے لیکن وہ ایک بہترین انٹرٹینر تھے جن کی میڈیا میں خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اگر وہ مذہب کی جانب ہی رہتے تو شاید ان کا ایک علمی وقار ہوتا لیکن شومئی قسمت اور رنگین دنیا جس کے جھانسے میں وہ آ گئے اور پھر آتے ہی چلے گئے۔