ڈیٹنگ ایپ کے ذریعے وارداتوں کے دو ملزمان گرفتار: کراچی پولیس

ضلع شرقی پولیس کے ترجمان سید عمیر شاہ کے مطابق ملزمان کے جرائم سے متعلق شہر کے مختلف علاقوں سے حاصل کی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے دونوں ملزمان کو شناخت کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا۔

26 مارچ 2025 کو کراچی کی اے وی سی سی پولیس، پولیس ہڈکواٹر گارڈن میں اغوا برائے تاوان کی واردات کے ملزمن کی گرفتاری کے بعد تھانے جا رہی ہے (امر گُرڑو/ انڈپینڈنٹ اردو)

کراچی میں ضلع شرقی پولیس نے آن لائن ڈیٹنگ ایپ کے ڈیٹا کے ذریعے صارفین کے گھر ڈکیتیوں اور غوا کی درجنوں وارداتیں کرنے والے دو ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔

پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان پولیس کی جعلی وردیاں پہن کر وارداتیں کرتے تھے۔

ضلع شرقی پولیس کے ترجمان سید عمیر شاہ کے مطابق ملزمان کے جرائم سے متعلق شہر کے مختلف علاقوں سے حاصل کی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے دونوں ملزمان کو شناخت کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے سید عمیر شاہ نے کہا ان ملزمان کے متاثرہ دو شہریوں نے گلشنِ اقبال تھانے پر مقدمہ دائر کیا، جس میں کہا گیا کہ مشتبہ افراد ایک پارسل ڈلیور کرنے کے بہانے ان کے گھروں میں داخل ہوئے۔ اندر جانے کے بعد انہوں نے انہیں ہراساں کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد انہوں نے گھر سے قیمتی اشیا چوری کیں، پھر متاثرین کو اغوا کر کے ایک گاڑی میں بٹھا لیا اور گاڑی چلاتے رہے۔

’چوری کی گئی گاڑیوں میں سے ایک کو بعد میں رحیم یار خان میں اس کے اصل کاغذات کے ساتھ فروخت کر دیا گیا۔‘

بقول سید عمیر شاہ: ’ہم نے جب ملزمان کو گرفتار کیا تو ملزمان نے پارسل کی ڈلیوری والی کہانی سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ متاثرہ افراد سے ہم جنس پرستوں کی ڈیٹنگ ایپ ’بلیوڈ‘ پر رابطے میں تھے اور ان کے بلانے پر ملنے گئے تھے۔

’ملزمان پولیس وردی کے اوپر عام کپڑے پہن کر متاثرہ افراد کے پاس پہنچتے، وہاں پہنچ کر جعلی وردیوں کے زور پر متاثرہ شخص جو پہلے سے احساسِ جرم میں مبتلا ہونے کی وجہ سے، انہیں اصل پولیس افسران سمجھ بیٹھتے۔ یہ ملزمان متاثرہ افراد کی ویڈیو رکارڈ کرتے اور انہیں دھمکاتے کہ ان کو ہتھ کڑیاں لگائی جائیں گی۔‘

سید عمیر شاہ کے مطابق پولیس نے ملزمان کے پاس سے آٹھ ویڈیوز بھی برآمد کیں، جن میں وہ متاثرہ افراد کی ویڈیو بناتے ہوئے بول رہے ہیں کہ متاثرین ہم جنس پرست ہیں اور انہوں نے یہ سروس حاصل کی ہے۔

مزید پڑھیے

سید عمیر شاہ  کے مطابق: ’متاثرین میں ایک ڈاکٹر، ایک پولیس افسر، ایک صحافی، نیز ایوی ایشن کا ایک سابق افسر بھی شامل ہیں۔‘

پولیس کے مطابق دونوں ملزمان پر کراچی کے مختلف پولیس سٹیشنز پر پانچ مقدمات درج ہیں اور متاثرین کی آٹھ ویڈیوز سامنے آ چکی ہیں۔ اب تک 14 متاثرین کی شناخت ہو چکی ہے۔

تفتیش کے بعد گرفتار ملزمان نے گھر پر ڈکیتی کے دوران لوٹی گئی اشیا کی نشاندہی کی۔ ان میں پولیس کی تین وردیاں، آٹھ چوری شدہ موبائل فون، درجنوں موبائل فون کورز، درجنوں یونیفارم بیجز، مختلف موبائل سمز اور 20 بیگز شامل ہیں۔

پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا کہ وہ کئی مختلف وارداتوں میں ملوث ہیں۔

پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا کہ چھ مارچ کو گلشن اقبال بلاک ون کے ایک گھر میں گھس کر چار موبائل فون، ایک ایل ای ڈی ٹی وی، طلائی زیورات، گھڑیاں اور نقدی لوٹی تھیں۔

اس کے بعد وہ متاثرہ کو اغوا کر کے کراچی کے مختلف مقامات پر اے ٹی ایم میں رقم نکالنے کے بعد فرار ہوگئے۔

آٹھ فروری کو گلشن اقبال بلاک 13ڈی میں ایک اور واقعے میں ملزمان پولیس وردی میں اپنا تعارف کرانے کے بعد ایک گھر میں داخل ہوئے اور متاثرہ کا موبائل فون، اے ٹی ایم کارڈ اور کار کے کاغذات لینے کے بعد متاثر کو گاڑی میں بٹھایا اور کراچی کے مختلف اے ٹی ایمز اور ایزی پیسہ کی دکانوں پر لے گئے اور اسے زبردستی رقم نکالنے پر مجبور کیا۔

اس کے بعد وہ گاڑی لے کر فرار ہوگئے۔ واقعے کا مقدمہ تھانہ گلشن اقبال میں درج کیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان