پاکستان میں اگرچہ غالب اکثریت کا تعلق اسلام سے ہے تاہم تقریباً ساڑھے تین فیصد آبادی دیگر مذاہب کے ماننے والوں پر مشتمل ہے اور ملک میں جب بھی مردم شماری ہوتی ہے چھوٹے صوبوں کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کو بھی اس کے نتائج پر شدید تحفظات ہوتے ہیں۔
سابق صدر آصف زرداری نے گذشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کی آبادی کو 22 کی بجائے 30 کروڑ کہا ہے۔ ایم کیو ایم بھی کراچی، حیدر آباد اور سکھر جیسے گنجان آباد شہروں کی مردم شماری کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتی۔ ایک مفروضہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ پاکستان نے عالمی اداروں کے جتنے فنڈز آبادی میں اضافے کی شرح کو کم کرنے کے لیے حاصل کیے ان کا درست استعمال نہیں ہوا جس کی وجہ سے آبادی میں اضافے کی شرح کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے۔ اب عالمی سبکی سے بچنے کے لیے آبادی کو کم ظاہر کرنا اس کی مجبوری ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ صوبوں میں وسائل کی تقسیم آبادی کے تناسب سے ہوتی ہے، آبادی کے تناسب سے ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سیٹوں میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے اشرافیہ سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے آبادی کم یا زیادہ دکھاتی ہے۔ اسی پس منظر میں 2017 کی مردم شماری کے نتائج پاکستان کی تاریخ کے متنازع ترین نتائج تھے جنہیں چھوٹے صوبوں اور اقلیتوں دونوں نے تسلیم نہیں کیا، جس کی وجہ سے سابق حکومت نے اگست میں پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کرانے کا اعلان کر رکھا تھا۔
کیا پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی کم ہو رہی ہے؟
اس کا جواب دینے سے پہلے ہمیں پچھلی تین مردم شماریوں میں مسلمانوں اور اقلیتوں کی آبادی میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھنا ہو گا۔
مثال کے طور پر 1981 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں مسلمانوں کی آبادی آٹھ کروڑ 14 لاکھ تھی جو کل آبادی کا 96.68 فیصد تھے۔ 1998 میں مسلمانوں کی آبادی 2.67 فیصد اضافے کے ساتھ 12 کروڑ 74لاکھ ہو گئی۔ یہی آبادی 2017 کی مردم شماری میں2.48 فیصد اضافے کے ساتھ 20 کروڑ تین لاکھ ہو گئی۔ 1981 سے 1998 کے دوران 17 برسوں میں مسلمانوں کی آبادی میں 56.45 اضافہ ہوا جبکہ اگلے 19 برسوں میں 2017 تک اس میں 59.30 فیصد اضافہ ہوا۔
مسیحی آبادی جو 1981 میں 13 لاکھ تھی وہ کل آبادی کا 1.55 فیصد تھی، 1998 میں 2.81 فیصد اضافے کے ساتھ 20 لاکھ نو ہزار ہو گئی۔ 2017 کی مردم شماری میں مسیحیوں کی آبادی میں اضافے کی شرح 1.21 فیصد ظاہر کی گئی اور ان کی مجموعی آبادی 20 لاکھ 64 ہزار بتائی گئی جبکہ اسی عرصے میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی شرح 2.48 تھی۔
1981 سے 1998 کے دوران مسیحی آبادی میں اضافے کی شرح 60.31 فیصد یعنی آٹھ لاکھ جبکہ 1998 سے 2017 تک یہ شرح کم ہو کر 25.71 فیصد ہو گئی اور ان 19 سالوں میں مسیحی آبادی میں صرف پانچ لاکھ 50 ہزار کا اضافہ دکھایا گیا۔
ہندو آبادی کی بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔ 1981 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی 12 لاکھ 80ہزار تھی جو کل آبادی کا 1.55 فیصد تھے۔ 1998 میں 2.98فیصد اضافے کے ساتھ ان کی آبادی 20 لاکھ 11 ہزار ہو گئی۔ 2017 میں ہندو آبادی 2.85 فیصد اضافے کے بعد 36 لاکھ ہو گئی۔ 1981 سے 1998 کے دوران 64.84 فیصد یعنی آٹھ لاکھ 30 ہزار کا اضافہ ہوا۔ اگلے 19برس میں2017 تک ہندو آبادی میں اضافے کی شرح 70.62 فیصد رہی اور وہ مجموعی آبادی کا 1.48 فیصد ہو گئے۔
ہندوؤں کی نچلی ذاتیں جنہیں ’شیڈولڈ کاسٹ‘ کہا جاتا ہے انہیں 1981 کی مردم شماری میں ہندوؤں کے ساتھ ہی شمار کیا جاتا تھا مگر 1998 کی مردم شماری میں جب انہیں الگ شمار کیا گیا تو ان کی آبادی تین لاکھ 30 ہزار تھی جو 2017 میں 157.58 فیصد اضافے کے بعد نو لاکھ ہو گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
احمدی جو 1981 کی مردم شماری میں پاکستان کی کل آبادی کا 0.12 فیصد تھے اور ان کی آبادی ایک لاکھ تھی، 1998 میں ان کی آبادی 6.24 فیصد اضافے کے بعد دو لاکھ 90 ہزار ہو گئی جبکہ 2017 میں یہ کم ہو کر ایک لاکھ 90 ہزار رہ گئے۔ اس طرح ان 17 برس کے دوران ان کی آبادی میں منفی2.30 فیصد کمی واقع ہو گئی۔ 1998 سے 2017 کے درمیان احمدی آبادی میں 90 ہزار کی کمی ہوئی۔
جہاں تک دوسرے مذاہب یعنی سکھ، بدھ مت، پارسی وغیرہ کا تعلق ہے ان کی آبادی 1981 میں ایک لاکھ دس ہزار تھی جو 1998میں بڑھنے کی بجائے کم ہو کر ایک لاکھ رہ گئی۔ لیکن 2017 تک اس میں مزید کمی ہوئی اور یہ کم ہو کر 40 ہزار رہ گئی۔ 1981 سے 1998 تک ان مذاہب کے ماننے والوں کی آبادی میں کمی کی شرح 9.09 فیصد تھی جو اگلے 17 برس میں 60 فیصد تک پہنچ گئی۔
اسی عرصے میں پاکستان کی مسلمان آبادی میں اضافے کا تناسب دیکھا جائے تو 1981 سے 1998 تک ان کی آبادی میں اضافے کی شرح 45.98 فیصد اور 1998 سے 2017 کے درمیان 72.93 فیصد رہی۔
اقلیتی آبادی میں ابہام کیوں ہے؟
سینٹر فار سوشل جسٹس کی ایک رپورٹ کے مطابق اقلیتوں کی آبادی کے اعداد و شمار کافی الجھاؤ پر مبنی ہیں۔ مثال کے طور پاکستان میں اقلیتوں کی مجموعی آبادی میں مسیحی 1981 میں 47 فیصد تھے جو 2017 میں کم ہو کر 36 فیصد رہ گئے۔ اسی طرح ہندو جو اقلیتوں میں 46 فیصد تھے وہ2017 میں 49 فیصد ہو گئے۔ اسی عرصے میں احمدی چار فیصد سے کم ہو کر دو فیصد ہو گئے۔ شیڈولڈ کاسٹ بڑھ کر 12 فیصد اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد تین فیصد سے کم ہو کر ایک فیصد رہ گئی۔
کرسچیئن سٹڈی سینٹر راولپنڈی کی سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر جینی فر جگ جیون نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’پاکستان کے ہر شہری کا حق ہے کہ اسے قومی مردم شماری میں شمار کیا جائے، بعد میں اسی بنیاد پر وسائل کی تقسیم ہوتی ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی کا تعین ہوتا ہے۔ پاکستان کی اقلیتیں جو اہم سٹیک ہولڈر ہیں، وہ یہ سمجھتی ہیں کہ قومی سطح پر ان کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے نہیں ہے۔ اگر مردم شماری درست ہو گی تو جمہوری اقدار کو فروغ ملے گا اور ادارے مضبوط ہوں گے۔‘
سینٹر فار سوشل جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’چونکہ چھٹی مردم شماری کے نتائج متنازع ہو گئے تھے اس لیے مردم شماری کے وقت تمام سٹیک ہولڈرز اور سول سوسائٹی کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔ اسی طرح ڈیٹا پروسیسنگ میں رازداری کا کلچر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ مردم شماری کے نتائج کو یونین کونسل سطح پر بھی جاری کیا جائے تاکہ عوام کا سرکاری اعداد و شمار پر اعتماد بڑھے اور بالخصوص اقلیتوں کو جو تحفظات ہیں ان کا خاتمہ ہو سکے۔‘
1981 کی مردم شماری کے مطابق مسلمان کل آبادی کا 96.68 فیصد تھے۔ اس تناسب سے 17 برس میں ان کی آبادی میں غالب حصے کو دیکھتے ہوئے ان کی آبادی میں بھی زیادہ اضافہ ہونا چاہیے تھا مگر 1998 کی مردم شماری میں ان کی آبادی پاکستان کی کل آبادی کا 96.28 فیصد رہ گئی۔
لیکن اگلے 19 برسوں میں یعنی 2017 میں آبادی میں ان کا تناسب ایک بار پھر بڑھ گیا اور یہ 96.47 فیصد ہو گیا۔ یہی ابہام اقلیتی آبادی میں بھی موجود ہے۔ 1981 کی مردم شماری میں اقلیتیں پاکستان کی کل آبادی کا 3.32 فیصد تھیں جو 1998 میں بڑھ کر 3.83فیصد ہو گئیں لیکن اگلے 19 برسوں یعنی2017 میں ان کی آبادی میں یہ شرح کم ہو کر 3.52 فیصد رہ گئی۔
نادرا کا ڈیٹا کیا کہتا ہے؟
نادرا کے مارچ 2022 کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں اقلیتوں کی 17 اقسام ہیں، جن میں مسیحی آبادی 2642048 نفوس، ہندو 3595256، احمدی 191737، شیڈولڈ کاسٹ 849614 اور دیگر مذاہب 43253 نفوس پر مشتمل ہیں۔
جن میں سکھوں کی تعداد 7413، بہائی مذہب کے ماننے والوں کی تعداد 14537، پارسیوں کی تعداد 3917، بدھ مت کے ماننے والوں کی تعداد 1787، یہودی 812، چائینیز فوک 1115 افریقن ایتھنک 1418، ایتھیئسٹ 1346 کیلاشی 1522، مذہب کے نہ ماننے والے 781، شنٹو ازم 628، سپرٹ ازم 95، جین مت چھ فیصد اور تاؤ ازم کے ماننے والوں کی تعداد 73 ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پارلیمنٹری سروسز کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ظفر اللہ خان نے انڈیپنڈنٹ اردو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’نادرا کے ڈیٹا کو اگر ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے استعمال کیا گیا تو وہ بھی متنازع ہو جائے گا، کیونکہ لاکھوں لوگ اپنے روزگار کے لیے دوسرے شہروں یا ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا انہیں عارضی پتے پر شمار کیا جائے گا یا مستقل پتے پر، کیونکہ مردم شماری کا پہلا تقاضا خانہ شماری ہے کہ اس وقت اس گھر میں کتنے لوگ رہائش پذیر ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’اقلیتوں کو اس لیے بھی تحفظات زیادہ ہیں کہ مردم شماری کا فارم ہی مبہم ہے اس میں بہت سی اقلیتوں کا نام ہی نہیں ہے۔ جہاں تک احمدیوں کی آبادی کم ہونے کا تعلق ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے اپنی شناخت خفیہ رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن دوسری اقلیتوں کی آبادی میں کمی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ’کم بچے خوشحال گھرانہ‘ پر مسلمانوں کی نسبت زیادہ یقین رکھتے ہوں۔ لیکن بہرحال اس رجحان کی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‘