’کوئی خوشی سے ملک چھوڑ کر نہیں آتا‘: افغان شہریوں کی واپسی کی ڈیڈلائن قریب

پاکستانی حکومت نے افغان شہریوں سے کہا ہے کہ وہ 31 مارچ تک رضاکارانہ طور پر پاکستان چھوڑ دیں اور اس کے بعد یکم اپریل سے ملک بدری کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔

پاکستان میں موجود افغان شہریوں کو وطن واپسی کے لیے دی گئی 31 مارچ کی ڈیڈلائن آن پہنچی ہے، اس سلسلے میں ملک میں خاطر خواہ اقدامات کیے گئے ہیں، تاہم افغان باشندوں سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔

پاکستان کی وزارت داخلہ نے رواں ماہ کے آغاز میں ایک بیان میں افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی)  رکھنے والے شہریوں سے کہا تھا کہ وہ 31 مارچ 2025 تک رضاکارانہ طور پر پاکستان چھوڑ دیں اور اس کے بعد یکم اپریل 2025 سے ملک بدری کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔

اس حوالے سے یو این ایچ سی آر پاکستان سمیت اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسیوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحران کے شکار افغانستان میں واپسی سے ان شہریوں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

42 سالہ سرتاج خان 2021 میں طالبان کی افغانستان میں عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان آئے تھے۔ وہ ملک میں مقیم ایسے سینکڑوں افغان شہریوں میں سے ایک ہیں، جنہیں حکومت پاکستان نے رواں ماہ کے آخر تک ملک چھوڑنے کا حکم دے رکھا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ان کا اپنا ملک چھوڑنا ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن طالبان کے زیر انتظام حکومت آنے کے بعد انہیں اپنی جان اور بچوں کی تعلیم کی فکر لاحق ہوئی تو وہ افغانستان سے پاکستان کے شہر راولپنڈی آ گئے۔

انہوں نے بتایا: ’کوئی خوشی سے اپنا ملک چھوڑ کر نہیں آتا، مجبوری کے تحت ہی اپنا گھر، کاروبار، مال و مویشی چھوڑ کر اپنی جان بچا کر بھاگتا ہے۔‘

وہ امریکی اور نیٹو افواج کے ساتھ وابستہ رہ چکے ہیں تاہم انہوں نے اس کی تفصیل پر مزید بات کرنے سے گریز کیا۔

 

اکتوبر 2023 سے پاکستان نے افغان شہریوں کو ملک سے نکالنے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔

پاکستان دہائیوں سے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا آ رہا ہے اور یو این کے اعداد و شمار کے مطابق آٹھ لاکھ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز اس وقت ملک میں موجود ہیں۔

رواں برس 29 جنوری کو وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پہلے مرحلے میں افغان سیٹیزن کارڈ (جو 2017 میں پاکستان کی طرف سے افغان پناہ گزینوں کو جاری کیا گیا تھا) رکھنے والے اور سفری دستاویزات کے بغیر مقیم افغان پناہ گزینوں کو اسلام آباد اور راولپنڈی سے نکال کر افغانستان بھیجا جائے گا۔

اس اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ دوسرے مرحلے میں پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ رکھنے والے افغان پناہ گزینوں کے کیس کو دیکھا جائے گا، جن کے کارڈز کی مدت 30 جون 2025 تک ہے، لیکن انہیں بھی اسلام آباد اور راولپنڈی سے نکالا جائے گا۔

اسی طرح اس دستاویز کے مطابق وہ افغان پناہ گزین جو کسی دوسرے ملک میں مقیم ہونے کے عمل کے لیے اسلام آباد یا راولپنڈی میں ہیں، انہیں 31 مارچ تک رہنے کی اجازت ہوگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2021 میں ہزاروں افراد طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان آئے کیونکہ انہیں ’یہ خطرہ لاحق تھا کہ امریکی اور نیٹو افواج کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے انہیں طالبان ممکنہ انتقام کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔‘

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک تقریبا ساڑھے آٹھ لاکھ افغان باشندے پاکستان سے واپس جا چکے ہیں۔

یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جنوری 2025 سے 1250 افغان شہریوں کو ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے۔

قیصر آفریدی کہتے ہیں کہ افغانستان میں رضامندی کے بغیر واپسی سے کچھ افراد کو خطرات درپیش ہو سکتے ہیں۔

’ہم پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایسے افغان شہریوں کو، جن کی دستاویزات کی حیثیت کوئی بھی ہو، تحفظ فراہم کرتا رہے جنہیں خطرے کا سامنا ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومت پاکستان کو 31 مارچ کی تاریخ پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔‘

دوسری جانب پاکستان کی حکومت نے اس تاریخ میں کسی بھی قسم کی توسیع نہ دینے کا عندیہ دیا ہے، بلکہ ان شہریوں کی میپنگ پر بھی کام مکمل کر لیا گیا ہے۔

جمعے کو افغان شہریوں کی واپسی سے متعلق اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ اس ضمن میں وفاق اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مسلسل رابطہ ہے جبکہ صوبائی حکومتوں کو وفاق کی جانب سے ہر ممکن تعاون فراہم کیا جائے گا۔

اس سلسلے میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی تجویز کردہ کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے۔

دوسری جانب وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری صوبوں کا دورہ کر کے افغانوں کی واپسی کے عمل میں پیش آنے والے مسائل کو دیکھیں گے۔

اس حوالے سے ہونے والے ایک اجلاس میں دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ اے سی سی ہولڈرز کی واپسی کے ضمن میں ’تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں اور اس سلسلے میں گھر گھر جا کر افغان باشندوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے۔ ان کی میپنگ پر بھی کام مکمل کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ واپس جانے والے افراد کے لیے ہولڈنگ سینٹرز بھی بنائے جا چکے ہیں۔‘

صوبہ خیبرپختونخوا کا شہر لنڈی کوتل افغانستان سے متصل طورخم بارڈر سے قریب واقع ہے، یہاں افغان شہریوں کو 31 مارچ کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد ملک سے نکالنے اور افغانستان واپسی کے لیے انٹری پوائنٹ کیمپ پر کام جاری ہے۔

پاکستان میں چار قسم کے افغان باشندے مقیم ہیں۔

پہلے افراد وہ ہیں جنہیں دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے نکالا جا چکا ہے۔ دوسرے اے سی سی کارڈ ہولڈرز، تیسرے پی او آر یعنی وہ افغان باشندے جن کے پاس پی او آر ہے۔

اور آخری وہ افغان شہری ہیں، جو افغان طالبان کے دور اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان آئے تھے۔ ان میں سے بیشتر یورپ سمیت کئی ممالک جانے کے لیے ویزا پراسیس مکمل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔

قیصر آفریدی کہتے ہیں کہ ’2021 میں افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد سے جو افراد پاکستان آئے اور ایچ سی آر سے رابطہ کیا، ان کی ویری فکیشن کے عمل کے بعد تاحال دو لاکھ 10 ہزار افراد کی تصدیق کی گئی ہے۔

’ان افراد میں صحافی، سابق حکومتی اہلکار، مختلف اقلیتوں اور میوزیشنز سمیت مختلف شعبوں سے منسلک افراد شامل تھے۔‘

وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے اس معاملے سے متعلق ایک بیان میں کہا ہے کہ حالیہ صورت حال کے پیش نظر افغان شہریوں کو ان کے ملک واپس بھجوانا ضروری ہے کیونکہ اس سے ملک میں سکیورٹی خدشات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔

رضاکارانہ طور پر ملک نہ چھوڑنے کی صورت میں یکم اپریل سے ان افراد کو ملک سے نکالے جانے کا عمل شروع ہو جائے گا۔

پاکستان میں گذشتہ عرصے سے عسکریت پسندی کے واقعات میں تیزی دیکھی گئی ہے، خصوصاً افغانستان سے متصل قبائلی اضلاع اور خیبر پختونخوا شدت پسندی کی شدید لپیٹ میں ہیں۔

پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ اس شدت پسندی کی لہر کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں، تاہم افغانستان میں طالبان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی آئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان