اقوام متحدہ کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ القاعدہ کو افغانستان میں طالبان کے تحفظ میں کارروائی اور اجتماع کی آزادی حاصل ہے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے طالبان کے ساتھ اب بھی قریبی تعلقات ہیں۔
دوحہ معاہدے 2020 کے باوجود طالبان نے افغانستان میں رہنے والے القاعدہ عسکریت پسندوں کی روایتی رجسٹریشن سے ہٹ کر کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی۔ رپورٹ کے مطابق القاعدہ اور اس کی علاقائی ذیلی تنظیم القاعدہ برصغیر پاک و ہند (AQIS) کے تقریباً 500 جنگجو افغانستان میں چھپے ہوئے ہیں۔
اس وقت القاعدہ افغانستان میں خود کو محدود رکھے ہوئے ہے تاکہ طالبان کی عبوری حکومت کے لیے کوئی قانونی اور سیاسی پیچیدگیاں پیدا نہ ہوں۔ دوسری طرف عوامی سطح پر طالبان القاعدہ کے ساتھ اپنے تعلقات کا اظہار نہیں کرتے اور طالبان کے کچھ رہنما تو افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی سے انکار کی حد تک چلے جاتے ہیں۔
افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سے القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری نے کئی ویڈیوز جاری کی ہیں جو ان کے زندہ ہونے کے ثبوت کے ساتھ ساتھ افغانستان میں مسلسل موجودگی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ظواہری غالباً مشرقی افغانستان میں رہ رہے ہیں جب کہ القاعدہ کے دیگر ارکان اور رہنما 16 مختلف افغان صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
گذشتہ برسوں کے دوران القاعدہ کا خطرہ اس وقت تیار ہوا ہے جب اس گروپ نے بین الاقوامی عسکریت پسندی کے اپنے بیانیے کو مقامی اور علاقائی شکل دی ہے۔ مثال کے طور پر اپریل 2020 میں دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد AQIS نے اس بنیاد پر اپنے اردو زبان کے ماہانہ میگزین کا نام نوائے افغان جہاد سے بدل کر نوائے غزوۃ الہند رکھ دیا کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے اعلان کے بعد گروپ اب اپنی توجہ بھارت پر مرکوز رکھے گا۔ تب سے القاعدہ کے زیادہ تر ویڈیو اور پروپیگینڈا بیانات بھارت میں اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر مرکوز ہیں۔
ان ویڈیوز میں گروپ نے مختلف بھارتی ریاستوں میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے معاملے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ترجمان نوپور شرما کی طرف سے پیغمبراسلام کے خلاف توہین آمیز ریمارکس کے حالیہ واقعے پر بھی تبصرہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح القاعدہ نے کشمیر کے تنازعے اور بی جے پی کے ذریعے بھارتی مسلم کمیونٹی پر ظلم و ستم پر توجہ مرکوز کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ نکتہ اہم ہے کہ اپنے بین الاقوامی عسکری ایجنڈے کو مقامی اور علاقائی بنانے کے ساتھ ساتھ القاعدہ کا نیا طریقہ کار بھی تیار ہوا ہے۔ یہ گروپ اب نائن الیون، لندن اور میڈرڈ بم دھماکوں کے حملوں جیسے ہائی پروفائل دہشت گردانہ حملوں میں اپنی توانائیاں نہیں لگا رہا ہے۔ اس کی بجائے مغرب میں چاقو اور گاڑیوں سے ٹکرانے والے اکیلے کارکنوں کے ذریعے کم درجے کی شہری دہشت گردی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جس میں انٹرنیٹ کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
لہٰذا یوں غیر ملکی عسکریت پسندوں کو دہشت گرد حملوں کی تربیت حاصل کرنے کے لیے افغانستان جیسے مقامات کا سفر کرنے کی ضرورت کو بھی کم کر دیا گیا ہے۔ اب دہشت گرد حملوں کی نظریہ سازی، بھرتی، منصوبہ بندی اور مواصلات انکرپٹڈ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر منتقل ہو گئے ہیں۔ اس لیے القاعدہ افغانستان میں اپنی صفوں میں شامل ہونے کے لیے غیر ملکی عسکریت پسندوں کو راغب کیے بغیر افغانستان میں اپنے ٹھکانے برقرار رکھنے کی متحمل ہو سکتی ہے۔
اس کو مدنظر رکھتے ہوئے القاعدہ کو افغانستان میں اپنے آپریشنل ہتھیاروں کے یونٹ کو بحال کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جو مغرب کی اہم تشویش ہے۔ لہٰذا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی دو متواتر رپورٹوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ طالبان کی اقتدار میں واپسی کے باوجود افغانستان میں غیر ملکی عسکریت پسندوں کی آمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
بہر حال القاعدہ سٹریٹجک تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور تشدد پر زور نہ دے کر طویل المدتی حکمتِ عملی پر کارفرما ہے جبکہ مغرب کی ساری دلچسپی صرف القاعدہ کی صلاحیت، اس کی عددی کمی اور مغرب کی سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کرنے کی صلاحیت پر مرکوز ہے۔ گویا بین الاقوامی عسکریت پسند گروپ کی طرف سے حقیقی خطرہ نظریاتی پھیلاؤ ہے۔
القاعدہ نے افغانستان میں امریکہ کی زیرِ قیادت دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا مقابلہ کیا ہے اور وہ طالبان کی فتح کو اپنی فتح سمجھتی ہے۔ القاعدہ کے لیے افغانستان میں طالبان کی حکومت کا تسلسل اس کے افغان ٹھکانوں سے مغرب اور امریکہ پر حملے کرنے سے زیادہ اہم ہے۔ لہٰذا القاعدہ کے خطرے کا فیصلہ صرف اس کی آپریشنل طاقت اور ہائی پروفائل دہشت گردانہ حملے کرنے کی صلاحیت کی بنیاد پر کرنا گمراہ کن ہوگا۔
جو چیز القاعدہ کو زیادہ خطرناک بناتی ہے وہ طویل عرصے تک بڑے زمینی حملہ نہ کرنے کے باوجود عسکریت پسندی کے ایک ابھرتے ہوئے منظر نامے میں اس کی خود کو زندہ رکھنے کی صلاحیت ہے۔ آج القاعدہ کا مرکز کمزور ہے اور مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے مختلف حصوں میں اس کی علاقائی فرنچائزز مضبوط ہیں۔
افغانستان میں القاعدہ کی قیادت اپنے دنیا بھر سے وابستہ افراد کے لیے نظریاتی سرپرست کے کردار میں تبدیل ہو گئی ہے جو انہیں نظریاتی بیانیے اور دہشت گرد حملوں کا جواز فراہم کر رہی ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ کمزوری کی علامت ہے لیکن طویل المدتی نقطہ نظر سے اگر القاعدہ کی علاقائی وابستگیوں کا قد بڑھتا رہتا ہے تو افغانستان میں رہنمائی کے کردار میں سینیئر قیادت کو برقرار رکھنا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے۔
عالمی برادری اور پاکستان اور چین جیسی علاقائی طاقتوں کو طالبان پر القاعدہ کے رہنماؤں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے بجائے اس کے کہ افغانستان کی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کی خالی تسلیوں پر اکتفا کیا جائے۔ یہ افغان سرزمین سے ہونے والے دہشت گرد حملے نہیں، بلکہ یہ گروپ کی نظریاتی سرپرستی اور بیانیہ پھیلانے کی صلاحیت ہے جو بین الاقوامی امن اور استحکام کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں محقق ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔