اقوام متحدہ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغانستان میں مقیم غیر ملکی عسکریت پسندوں کا ایک ایسا نیٹ ورک قرار دیا ہے جس کو گذشتہ سال اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کا ’سب سے زیادہ فائدہ ہوا‘۔
عرب نیوز کے مطابق افغانستان پر سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس گروپ کی سرگرمیاں پاکستان کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔
ٹی ٹی پی کی شناخت الگ ہے مگر ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند یا پاکستانی طالبان نظریاتی طور پر افغانستان کے موجودہ حکمرانوں سے متاثر ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق سرحد پار سے ٹی ٹی پی کے کارندوں کی جانب سے ہونے والے حملوں کے خلاف پاکستان نے کئی بار متنبہ کیا ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ ملک نے وقتاً فوقتاً ٹی ٹی پی قیادت کے ساتھ امن مذاکرات شروع بھی کیے ہیں۔
سرکاری خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’افغانستان میں موجود غیر ملکی دہشت گردوں کی سب سے زیادہ تعداد ٹی ٹی پی میں ہے۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے: ’طالبان کے برسراقتدار آنے سے افغانستان کے تمام غیر ملکی انتہا پسند گروہوں کی نسبت سب سے زیادہ فائدہ ٹی ٹی پی کو ہوا ہے۔ اس نے پاکستان میں متعدد حملے اور کارروائیاں کی ہیں۔‘
اس رپورٹ میں یہ ذکر بھی ہے کہ ’کالعدم ٹی ٹی پی کے پاس افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے ساتھ مشرقی اور جنوب مشرقی علاقوں میں چار ہزار جنگجو تھے اور یہ وہاں موجود غیر ملکی جنگجوؤں کا سب سے بڑا گروپ تھا۔‘
یہ رپورٹ افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے جمعے کو جاری کی تھی۔
اس رپورٹ میں ٹی ٹی پی کے افغان طالبان کے ساتھ روابط کا ذکر کیا گیا ہے، اس بات کی وضاحت کی بھی گئی ہے کہ گذشتہ سال اشرف غنی حکومت کے خاتمے سے اس گروپ نے کس طرح فائدہ اٹھایا اور افغانستان سے متحرک دیگر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ اپنے تعلقات بنائے۔
اگرچہ یہ ٹیم ماضی میں بھی افغانستان کے متعلق کافی دستاویزات سامنے لائی ہے لیکن طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد اس ملک کے بارے میں یہ اس کا پہلا حالیہ جائزہ ہے۔
یہ دستاویز عین اس وقت سامنے آیا ہے جب رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان اور ٹی ٹی پی قیادت کے درمیان امن مذاکرات کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹی ٹی پی نے عید کی تعطیلات کے لیے جنگ بندی کا بھی اعلان کیا اور اپنے اراکین سے کہا کہ وہ ’مرکزی کمانڈ کے فیصلے کی خلاف ورزی نہ کریں۔‘
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’جنگ بندی کے معاہدوں میں کامیابی کے امکانات محدود ہیں۔‘
’’ٹی ٹی پی اپنے جنگجوؤں کو افغان طالبان کے یونٹس میں ضم کرنے کے لیے دباؤ محسوس کرنے کی بجائے انفرای طور پر موجود ہے جیسا کہ زیادہ تر غیر ملکی دہشت گرد جنگجوؤں کا امکان ہے۔‘
ریڈیو پاکستان کے مطابق اسلام آباد نے پہلے ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ساتھ ایک ڈوزیئر شیئر کیا ہے، جس میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے پاکستانی فوج اور شہری اہداف کے خلاف سرحد پار دہشت گردانہ حملے کرنے کے لیے ٹی ٹی پی کو فراہم کی گئی مالی اور مادی مدد کے ثبوت موجود ہیں۔