’نہیں چلے گا نہیں چلے گا، پاکستان کا جھنڈا نہیں چلے گا۔‘ یہ نعرہ انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی اسمبلی میں بلند کر رہے تھے، جب نیشنل کانفرنس کے نائب وزیراعلی سریندر کمار چوہدری نے اندرونی خودمختاری بحال کرنے سے متعلق ایک قرار داد پیش کی۔
سماجی کارکن اشوک کمار کہتے ہیں کہ ‘ بی جے پی کو پاکستان سے اتنا لگاؤ ہے کہ ہر اجلاس، پارلیمان، انتخابی ریلے اور اسمبلی میں اس کا نام لیے بغیر بات ہی نہیں کرتی، اس کا یہ لو ہیٹ رشتہ کب ختم ہوگا؟‘
یہ کالم مصنفہ کی آواز میں سننے کے لیے کلک کیجیے:
جو کام حکمران جماعت کو پہلے دن کرنا تھا، جس کے لیے ووٹروں نے نیشنل کانفرنس کو جتایا اور جس کے انتظار میں عوام چار نومبر کو ٹیلی ویژن سکرینز کے سامنے بیٹھے تھے، وہ معرکہ اپوزیشن پارٹی پی ڈی پی کے نوجوان رہنما وحید پرا نے انجام دیا۔
جب انہوں نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی نئی اسمبلی شروع ہوتے ہی اندرونی خود مختاری بحال کرنے سے متعلق اپنا بیان پڑھا اور حکومت سے قرارداد پیش کرنے کی اپیل کی۔
ابھی وحید پرا اپنا بیان ہی پڑھ رہے تھے کہ حکمران جماعت اور بعض دوسری جماعتوں کے چند ارکان وحید پرا پر جھپٹ پڑے، دھکم دھکا ہوئی اور وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اسے محض کیمرہ کے لیے ایک رچا ہوا ڈرامہ قرار دے دیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اور آپ پارٹی کے بغیر تمام اپوزیشن نے قرارداد کے حق میں وحید پرا کی حامی بھری۔
اسمبلی کے مناظر اس لیے بھی دیکھنے کے لائق تھے کہ بی جے پی کے اراکین اُس وقت اپنی کرسیوں پر براجمان تھے جبکہ مسلم ارکان ایک دوسرے کے گلے تک پہنچ گئے، بلکہ حکمران جماعت کے ایک رُکن نے غیر شائستہ حرکت بھی کی جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔
نئی اسمبلی کی پہلے روز کی کارروائی سے لوگ دم بخود رہ گئے اور نیشنل کانفرنس کی خاموشی پر سوشل میڈیا پر متحرک دکھائے دیے۔
عوام کا غیض و غضب دیکھ کر نیشنل کانفرنس کے بعض رکن اسمبلی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر صفائیاں دینے لگے اور آخر کار سخت عوامی ردعمل کے نتیجے میں بدُھ کو خصوصی درجہ بحال کرنے سے متعلق نیشنل کانفرنس کی قرارداد میں مرکزی سرکار سے مذاکرات کا عمل شروع کرنے کی اپیل کی گئی۔
ابھی یہ قرارداد پوری طرح پیش نہیں ہوئی تھی کہ بی جے پی کے اراکین کرسیوں سے اُٹھ کر ایوان میں آ گئے، نعرے، شور وشرابہ اور ہنگامہ برپا کرنے کے پیش نظر سپیکر کو اسمبلی کچھ وقت کے لیے معطل کرنا پڑی۔
نیشنل کانفرنس کی قرارداد میں گو کہ نرم لہجہ برتا گیا ہے اور آرٹیکل 370 اور 35A کی واضح طور نشاندہی نہیں کی گئی ہے مگر یہ پارٹی کی جانب سے دوسرا ماسٹر سٹروک تھا جب جموں کے ہندو نائب وزیراعلیٰ سے خودمختاری کی قرارداد پیش کروائی گئی، جنہیں پہلے نائب وزیر اعلیٰ بنا کر بی جے پی کو خاموش کردیا گیا جو گذشتہ برسوں سے ہندو وزیراعلیٰ کا مطالبہ کر رہی تھی۔
عوامی حلقوں کا سخت دباؤ جاری رہا کہ چار یا پانچ روز پر مشتمل اسمبلی کے پہلے اجلاس میں آرٹیکل 370 کے حق میں قرارداد اور پانچ اگست 2019 کے مرکزی فیصلے کا مذمتی بیان پیش کیا جائے کیونکہ لوگوں نے بی جے پی کو ٹھکرا کر نیشنل کانفرنس کو واضح اکثریت سے کامیاب کرایا ہے۔
خود حکمران جماعت کے رکن پارلیمان آغا روح اللہ نے سوشل میڈیا پر اپنی پارٹی کو الٹی میٹم دیا تھا کہ اُن کی جماعت نے اگر پہلے اجلاس میں اندرونی خودمختاری سے متعلق قرارداد پیش نہیں کی تو وہ اس جماعت سے الگ ہو جانے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائیں گے۔
گذشتہ چند برسوں میں تمام مرکزی دھارے کی جماعتوں سمیت نیشنل کانفرنس کی ساخت اور اعتباریت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور پہنچایا گیا ہے، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی موجودہ سیاسی حالات کا ذمہ دار ان جماعتوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔
عوام کے بیشتر طبقوں کا ماننا ہے کہ آزادی پسندوں کو زیر کرنے میں مرکزی جماعتوں نے مرکزی سرکار کی سخت گیر پالسیوں پر لبیک کہا اور خون و خرابہ یا عوام پر تشدد روکنے میں ذرا بھی پرواہ نہیں کی، بلکہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے دور میں بُلیٹ اور پیلیٹ کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔
دونوں جماعتیں بی جے پی کی ماضی میں حلیف بھی رہ چکی ہیں اور شکوک کے باوجود عوام نے بھاری ووٹنگ سے نیشنل کانفرنس کو اس بار کامیابی دلائی جس کے پیچھے ایک ہی مقصد کارفرما تھا کہ پارٹی نے انتخابی منشور میں اندرونی خودمختاری کی بحالی اور ریاست کا درجہ واپس لانے کا عزم جتایا ہے۔
اس کے برعکس وزیراعلی عمر عبداللہ نے دوسری جماعتوں کو اعتماد میں لیے بنا ہی کابینہ میٹنگ میں ریاستی درجہ واپس لانے سے متعلق قرارداد پاس کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عوامی اور سیاسی طبقوں نے ہنگامہ برپا کیا اور الزام لگایا کہ انہوں نے جان بوجھ کر اندرونی خودمختاری کو بی جے پی کے کہنے پر پس پشت ڈالا۔
چند روز پہلے عمر عبداللہ انتخابات جیتنے کے بعد پہلی بار دہلی میں وزیراعظم، وزیر داخلہ اور دوسرے رہنماؤں سے ملے اور اُنہیں کشمیری شال بطور تحفہ دینے کی تصویریں وائرل ہو گئیں جن پر عوام نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ شال دے کر اپنی کرسی کو پختہ کر رہے ہیں ورنہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو معاشی اور سیاسی طور پر بے اختیارکرنے میں بی جے پی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
بقول ایک روزنامے کے ایڈیٹر ‘عوام نے بی جے پی کے خلاف نیشنل کانفرنس کو ووٹ دیا اور اب یہ این سی بی جے پی سے پینگیں بڑھا رہیں ہیں جس کو لوگ پسند نہیں کرتے ہیں۔‘
نیشنل کانفرنس کے بعض رہنماؤں نے اپنی صفائیاں دیتے ہوئے کہا کہ نیشنل کانفرنس اپنے موقف پر کاربند ہے اور وہ اندرونی خودمختاری کی بحالی پر شدو مد سے کام کرے گی۔
بی جے پی نے قرارداد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر اُس حربے کو روکے گی جو انڈیا اور جموں و کشمیر کے بیچ میں جاری ہم آہنگی کے عمل میں مشکلات کھڑی کرے گا۔
چونکہ نینشنل کانفرنس کے ماضی کے ریکارڈ پر عوام کا بڑا طبقہ بدظن ہے لہذا جہاں ایک جانب اس کے ٹریک ریکارڈ پر کڑی نظریں ہیں وہیں دوسری جانب آج پہلی بار عوام اپنے ووٹ کا حساب چکانے پر کاربند دکھائی دے رہے ہیں۔
نیشنل کانفرنس شاید اس بار اپنے وعدے سے مکر جانے کا کوئی رسک نہیں لے سکتی، کیونکہ اس پارٹی کو ووٹروں نے بستر مرگ سے واپس لا کر ایک بار پھر زندگی عطا کی ہے۔
نیشنل کانفرنس کی قرارداد کے متن کو لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے اسمبلی کے پہلے خطاب کے ساتھ ملایا جارہا ہے۔
جس میں منوج سنہا نے ریاستی درجہ اور آئینی اختیارات دینے کا مرکزی حکومت کا اپنا وعدہ دہرایا جو آرٹیکل 371 کے عین مطابق بھی ہو سکتا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ شاید پس پردہ بی جے پی اور نیشنل کانفرنس کے مابین کوئی مفاہمت ہوئی ہے جس میں آرٹیکل 370 کو بھلا کر آرٹیکل 371 کی بات کی گئی ہو گی۔
یاد رہے آرٹیکل 371 کا انڈیا کی کئی ریاستوں پر اطلاق ہے، جن میں حق اراضی اور حق روزگار کو مقامی باشندوں تک مختص رکھا گیا ہے۔
قرارداد پیش کرنے کے بعد ہر ووٹر اور اپوزیشن کی نظریں نیشنل کانفرنس پر ٹکی ہوئی ہیں کہ وہ اندرونی خودمختاری کی بحالی کے لیے کتنی سنجیدہ ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے کون سا لائحہ عمل اپناتی ہے۔