گگن گیر حملہ، اسمبلی اور برکس پیش رفت

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد خطے کو سیاسی طور پر بے اختیار کر دیا گیا اور سرکاری بندوق کی رٹ اب بھی جاری ہے، البتہ عوام میں اب خون خرابہ یا لاشیں اُٹھانے کی طاقت ختم ہو چکی۔

21 اکتوبر، 2024 کو سری نگر کے بڈگام ضلع میں ایک  حملے میں ہلاک ہونے کے ایک دن بعد، ایک ڈاکٹر کی آخری رسومات کے دوران رشتہ دار اور سوگوار ماتم کرتے ہوئے (اے ایف پی)

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے طول و عرض میں تشدد اور اموات کا سلسلہ مکمل طور پر بند نہیں ہوا۔

حکومت نے کئی بار دہرایا کہ خطے میں بندوق برداروں کا صفایا کر دیا گیا ہے جس کا واضح ثبوت حالیہ پُرامن انتخابی عمل ہے۔

مصنفہ کی آواز میں سننے کے لیے کلک کیجیے:

تقریباً تین دہائیوں کے بعد عوام نے بے خوف ہو کر انتخابات میں حصہ لیا، اپنے نمائندے چُنے اور تشدد کرنے والوں کو پیغام دیا کہ ہم نے ایک بار پھر جمہوریت پر بھروسہ کر کے اپنی سوچ کو تبدیل کیا ہے۔

مگر نئی اسمبلی کی حلف وفاداری کا عمل شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ شمالی کشمیر میں شدید حملے کی خبر آئی جس نے ہر ایک پر سکتہ طاری کر دیا۔

یہ حملہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو لداخ سے ملانے والی شاہراہ پر زیر تعمیر ٹنل ’زیڈ مہر‘ کے قریب ہوا جس کی دفاعی لحاظ سے نہ صرف بڑی اہمیت ہے بلکہ انتہائی سخت سیکورٹی والے اس علاقے میں ایسا حملہ ہونا تشویش کا باعث بھی ہے۔

اگرچہ بیشتر لوگوں نے اس حملے کی شدید مذمت کی مگر سکیورٹی اداروں کی نگہداشت سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ یہ شاہراہ 24 گھنٹے انڈین افواج کی نقل و حمل میں رہتی ہے۔

چار سال قبل لداخ کے گلوان علاقے میں لائن آف ایکچول کنٹرول پر چینی افواج کے ساتھ معرکہ آرائی کے بعد یہ خطہ خاصی کشیدگی کا باعث رہا اور افواج کی نقل وحمل میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

انڈیا نے اضافی فوج، اسلحہ اور بارود سرحد پر پہنچانے کے لیے سڑک کی تعمیر پر بڑی رقم خرچ کی ہے۔

موسم کی شدت اور برف باری کے باعث یہ شاہراہ سردیوں میں بند ہو جاتی ہے جس کا توڑ کرنے کے لیے زیڈ مہر کی سرنگ کا جامع منصوبہ بنایا گیا جو تکمیل کے مراحل میں ہے۔

اسی سرنگ کے پاس تشدد کا دل دہلانے والا یہ واقعہ رونما ہوا۔

پولیس کے مطابق اتوار کی شام کام ختم کر کے سرنگ کے ملازم اور انجینیئر واپس اپنے گھروں کو جا رہے تھے کہ کچھ ’دہشت گردوں‘ نے ان پر گولیاں چلائیں۔

ایک مقامی ڈاکٹر سمیت چھ ملازمین کی اموات کا بتایا گیا ہے، جبکہ کئی اور ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

واقعے کے فوراً بعد انڈیا نے اعلان کیا کہ چین کے ساتھ سرحدی تنازع ختم کرنے پر دونوں ملکوں کے مابین پیش رفت ہوئی ہے اور لداخ میں دو متنازع سرحدی چوٹیوں اور گشت کے بارے میں دونوں کے تحفظات کو کسی حد تک سلجھایا گیا ہے۔

وزارت خارجہ کی پریس بریفنگ میں بیان کے بعد وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں نے سرحدی معاملے کو باہمی گفت و شنید سے طے کیا ہے، جس کے بعد کازان میں برکس سربراہ اجلاس میں شی جن پنگ اور نریندر مودی کے بیچ ملاقات ہوئی اور سرحدی مسئلے باہمی طور پر سلجھانے کا وعدہ کیا۔

گو یہ باہمی تعلقات کو سُدھارنے میں بڑی پیش رفت ہے اور دونوں ملکوں کے عوام کے لیے خوش آئند بات ہے البتہ گگن گیر کے قریب ہونے والے حملے کے پس منظر میں اس کی خوشی ماند پڑ گئی۔

لداخ کے بیشتر عوام اس وقت ریاستی درجہ حاصل کرنے کی لڑائی دہلی کے ایوانوں میں لڑ رہے ہیں جس کے لیے پد یاترا، کارکنوں کی حراست اور اب مرکزی حکومت کی بات چیت کرنے کے وعدے تو ٹھیک ہیں لیکن اس علاقے پر چین کا بھی خاصا اثر رسوخ ہے جو لداخ کو یونین ٹریٹری بنانے کے بعد مزید بڑھ گیا ہے۔

سرحد کے اُس پار چینی افواج، بارود میں اضافہ اور بستیوں کی تعمیر بڑھتی جا رہی ہے۔

دہلی کے دفاعی تجزیہ نگار روہت کمار کہتے ہیں کہ ’انڈیا اور چین اس وقت دنیا کی دو اُبھرتی معیشتیں ہیں اور دونوں کا عالمی سیاست پر خاصہ اثر رسوخ ہے۔

’اگر دونوں ایک دوسرے کے قریب آکر اپنے مسائل حل کرنے کا عہد کرتے ہیں تو یہ اس خطے کےامن و ترقی کے لیے بڑی پیش رفت ہے، البتہ کیا انڈیا چین کے وعدوں پر بھروسہ کرسکتا ہے اس پر مجھے ذاتی تحفظات ہیں۔‘

سرینگر اور لداخ کے بیچ اس شاہراہ پر ہونے والے حالیہ حملے کے بعد سکیورٹی انتظامات کا پھر جائزہ لیا جا رہا ہے۔

یاد رہے جموں میں پچھلے دو برسوں میں ایک درجن سے زائد حملے انڈین افواج پر ہوئے ہیں اور جن علاقوں میں حملے ہوئے وہ زیادہ تر ہندو علاقے ہیں۔

سیکورٹی ادارے کہتے رہے ہیں کہ وادی میں بندوق برداروں کو کشمیری مسلمان اپنے گھروں میں پناہ دیتے آ رہے ہیں ۔

لداخ میں بودھ اور کرگل میں مسلم آبادی ہے، البتہ یہاں کی آبادی میں آزادی یا علحیدگی پسند رحجانات کا کوئی شائبہ تک نہیں بلکہ یہ 100 فیصد خود کو انڈین تصور کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ حالیہ حملہ آور کون ہیں؟ ان کا مسکن کہاں ہے؟ اور یہ کن راستوں سے گزر کر یہاں تک پہنچے؟

اس کے بارے میں حکومت کو ایک غیرجانب دار ادارے سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا جانے لگا ہے۔

میڈیا کو کُھل کر بات کرنے کی اجازت نہیں، سرکاری بیانات واحد ذریعہ ہیں اور عوام بات کرنے سے کتراتے ہیں۔

کشمیر، لداخ اور جموں کے عوام نے گگن گیر حملے کی شدید مذمت کی اور ایسے عناصر کی نشاندہی کرنے پر زور دیا جو اس خطے کا امن درہم برہم کرنے پر گامزن ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مذمتی بیان پہلی بار آج اُن حلقوں سے بھی آئے جو کبھی مسلح تحریک کے طرفدار ہوا کرتے تھے۔

سماجی کارکن نذیر احمد کہتے ہیں کہ ’ہم نے ایک بار پھر جمہوریت کا ہاتھ تھاما، ووٹ ڈالے، اسمبلی منتخب کی، اب ہم اپنے بنیادی حقوق، آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کریں گے۔

’انڈین حکومت کے لیے یہ بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ کیا وہ ہمیں انڈین سمجھ کر اپنے آئینی حقوق واپس لوٹا دے گی یا وہ اس خطے میں مسلح تحریک کے بیانیے کو مظبوط کرے گی جس کا جواز رہا ہے کہ کشمیر میں جمہوریت کی آڑ میں یہاں کے باشندوں سے زمین، زراعت، شناخت اور وقار چھین لیا جارہا ہے اور عنقریب اب گھروں سے بھی بے دخل کر دیے جائیں گے۔‘

ایسا رویہ پہلی بار نظر آ رہا ہے کہ عوام کے بڑے طبقوں نے تشدد کو مسترد کر کے اپنے حقوق کے حصول کی پُرامن جدوجہد چلانے کا تہیہ کیا ہے اور جس میں کسی اور ملک کو اپنی ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں۔

بیشتر لوگ پاکستان کا ذکر کرنے سے کتراتے ہیں۔ حُریت کانفرنس کے ایک سابق سرکردہ رہنما (نام سکیورٹی کے لیے خفیہ رکھا گیا ہے) کے بقول ’جب پاکستان خود مسئلہ کشمیر سے دستبردار ہوا ہے اور انڈیا سے مراسم یا تجارت کو ترجیح دے رہا ہے تو کشمیری اپنی جانوں کا زیاں کیوں ہونے دیں۔

’پاکستان نوازوں کواپنا بیانیہ بدل کر انڈین آئین کے تحت اپنی مخصوص جگہ حاصل کرنی چاہیے۔

’کشمیریوں کو استمال کرنے کی بجائے انہیں زندہ رہنے کا موقع دینا چاہیے کیونکہ اس قوم پر نوجوانوں کی کئی نسلیں قبروں میں دفنا کر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں۔‘

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد اندرونی طور پر اس خطے کو سیاسی طور پر بے اختیار کر دیا گیا ہے اور سرکاری بندوق کی رٹ اب بھی جاری ہے البتہ عوام میں اب خون خرابہ یا لاشیں اُٹھانے کی طاقت ختم ہو چکی ہے۔

نعیمہ احمد مہجور سینیئر صحافی اور مصنفہ ہیں اور ایک طویل عرصہ بی بی سی سے منسلک رہ چکی ہیں۔ ان کا تعلق انڈین کے زیرِ انتظام کشمیر سے ہے۔ 

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ