خواتین سرد شاموں میں پہلے سے زیادہ خوف زدہ کیوں؟

جب گھڑیاں پیچھے کی جاتی ہیں تو ہم خواتین کے خوف بھی لوٹ آتے ہیں۔ ڈے لائٹ سیونگ کا نظام ختم کرنا چاہیے کیونکہ یہ فرسودہ، غیر ضروری اور خطرناک ہے۔

جب گھڑی کی سوئیاں ایک گھنٹے پیچھے کی جاتی ہیں تو اندھیرے کی وجہ سے خواتین میں اپنے تحفظ کا خوف بڑھ جاتا ہے (پکسا بے)

اکتوبر آ گیا ہے، میں اپنی آرام دہ حالت میں ہوں، یعنی ملبوسات کی تہیں، موٹے پاجامے، ہاٹ چاکلیٹ، نیٹ فلکس سیریز گلمور گرلز، ون پاٹ ریسیپیز اور ٹیلر سوئفٹ کے ریڈ (ٹیلر ورژن) البم سے لطف اندوز ہونا۔

لیکن سال کے ان دنوں کے بارے میں ایک چیز حقیقت میں مجھے خوف زدہ کر دیتی ہے، یعنی دن کی کم روشنی کی وجہ سے چھوٹے دن لیکن اس میں ڈرنے کی کیا وجہ ہے؟ کیونکہ میں ایک خاتون ہوں۔

جب گھڑی کی سوئیاں ایک گھنٹے پیچھے کر دی جاتی ہیں تو اپنے تحفظ کے لیے ہمارا خوف اسی تناسب بڑھ جاتا ہے، کیونکہ ہمیں گھر کے راستے میں تاریک گلیوں اور پارکوں سے گزرنا پڑتا ہے (یا دوسری صورت میں ہم گھر کے اندر ہی رہیں)۔

میری والدہ ایک سکول میں صفائی کے کام پر مامور ہیں اور عام طور پر اپنے دن کا آغاز صبح تین بجے کے قریب شروع کرتی ہیں، لیکن کم از کم گرمیوں میں انہیں کام پر جاتے ہوئے سورج کی روشنی میسر ہوتی ہے۔

موسم خزاں اور سردیوں میں، یہ دیکھتے ہوئے کہ برطانیہ کی مقامی کونسل نے رات ایک سے صبح ساڑھے پانچ بجے کے درمیان سٹریٹ لائٹس بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ان کے پاس گھپ اندھیرے میں اپنی بائیک چلانے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور یہ بات مجھے خوف زدہ کر دیتی ہے۔

یہاں تک کہ شام چھ بجے میرا گھر تک کا سفر بھی کبھی کبھی دھندلا محسوس ہوتا ہے۔

ہاں، میں زیادہ تر پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتی ہوں لیکن میرے سفر میں پیدل چلنا بھی شامل ہے اور اس دوران میں ان راستوں اور کم روشی والی گزرگاہوں سے واقف ہوں جہاں کوئی بھی چھپ سکتا ہے۔

بہت سی خواتین کی طرح میں اپنے ہیڈ فون پر آواز مدھم رکھتی ہوں، چابیاں اپنی انگلیوں کے درمیان پکڑتی ہوں اور ہر قیمت پر گزرنے والے افراد سے نظریں ملانے سے گریز کرتی ہوں اور یہ سب کچھ سماجی زندگی کے لیے باہر نکلنے سے پہلے ہوتا ہے۔

میں اپنے دوستوں کے ساتھ پارٹی میں اچھا وقت گزار سکتی ہوں، لیکن رات نو بجے کے بعد میں اپنے واپسی کے سفر کے بارے میں فکر مند ہونے لگتی ہوں اور خود کو گھڑی پر نظریں جمائے ہوئے محسوس کرتی ہوں۔

اس لمحے میں مکمل طور پر آرام کرنے اور فکروں سے فرار ہونے سے قاصر ہوں۔ مجھ پر ایک طرح کا خود ساختہ کرفیو لاگو ہے، جو مجھے شام کو باہر رہنے اور تفریح کے لیے باہر جانے سے روکتا ہے۔

جب میں واپس آتی ہوں تو ضروری نہیں کہ میں خوف سے آزاد ہو جاؤں۔ میں اس بات سے واقف ہوں کہ جب میں اپنے گھر میں داخل ہوتی ہوں تو مجھے لائٹس آن نہیں کرنی چاہییں یا پردے کھینچنے کے لیے کھڑکی کے پاس نہیں جانا چاہیے۔

کیوں؟ کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ کون آپ کا پیچھا کر رہا ہے یا کون اندھیرے سے اندر دیکھ رہا ہے اور آپ کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

اس سے مجھے یہ بھی پریشانی ہوتی ہے کہ میرے پڑوسی سامنے والے دروازے کو ڈبل لاک کر دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا کرنے سے وہ زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں لیکن اس سے مجھے مزید گھبراہٹ ہوتی ہے کیوں کہ مجھے تالا کھولنے کے لیے زیادہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے، وہ بھی اس وقت جب کوئی لڑکا قریب آتا ہے یا (بس یا میٹرو) سٹیشن سے میرا پیچھا کرتا ہوا یہاں تک پہنچ جاتا ہے (ہاں، ایسا ہی ہوتا ہے)۔

میں آپ کو خبطی لگ سکتی ہوں لیکن یہی حقیقت ہے۔ درحقیقت دو میں سے ایک خاتون اندھیرا ہونے کے بعد تنہا چلنے میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہے، چاہے وہ کسی مصروف علاقے میں ہو یا سنسان جگہ پر۔

منطقی طور پر میں جانتی ہوں کہ رات نو بجے زیادہ وقت نہیں۔ میں جانتی ہوں کہ مجھے باہر رہنے کے لیے آزاد ہونا چاہیے اور کسی مصیبت میں پڑنے کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔

مجھے موسیقی سننے میں محو ہونے کے قابل ہونا چاہیے اور کسی کے گھورنے کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔

مجھے اپنے کام سے کام رکھنے کے قابل ہونا چاہیے اور بدترین صورت حال میں پھنسنے کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے۔

ایسا نہیں کہ میں نے ایسا کبھی نہیں کیا لیکن اگر میں رات گئے چہل قدمی کے لیے جانا چاہوں تو مجھے خوف کے بغیر ایسا کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔

سو یہاں میرا خیال ہے کہ ڈے لائٹ سیونگ کا نظام ختم کریں۔ یہ فرسودہ، غیر ضروری اور خطرناک ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ