باہمت اخبار مالک یا ٹرمپ کی کٹھ پتلی: جیف بیزوز کیا بنیں گے؟

جب آپ اہم موقعوں پر ہمت ہار جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے قارئین کو بھی کھو دیتے ہیں۔

19 ستمبر، 2018 کو اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مالک جیف بیزوز میری لینڈ میں ایئر فورس ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ایک تقریب میں شریک (اے ایف پی)

وہ کتا جو بھونکا نہیں، شرلک ہومز کی سب سے مشہور پراسرار کہانیوں میں سے ایک میں ملنے والا سراغ تھا۔

کہانی میں موجود راز تک پہنچنے کے لیے انہیں تین پائپ پینے کی ضرورت پڑتی۔ اس کے برعکس وہ اخبار جس نے کسی امیدوار کی حمایت نہیں کی، اس میں کوئی بڑا راز نہیں۔ جیف بیزوز نے اس کا حکم دیا تھا۔

اور جب آپ دنیا کے تین امیر ترین افراد میں سے ایک ہوں تو لوگ عموماً وہی کرتے ہیں جو آپ انہیں کرنے کا کہتے ہیں۔

چناںچہ دنیا میں خبروں کے عظیم ترین اداروں میں سے ایک، واشنگٹن پوسٹ (آگے چل کر اسے واشپو کہا جائے گا)، اب اپنے قارئین کو یہ نہیں بتا رہا کہ وہ کس امیدوار کو اگلے امریکی صدر کے لیے بہترین سمجھتا ہے۔ اس کی آواز کو اس کے مالک نے خاموش کر دیا ہے۔

یہ کام واشپو کے حریف نیو یارک ٹائمز پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ اس بات کی وضاحت کرے کہ ایسا کیسے ہوا۔

واشپو کے ایڈیٹوریل بورڈ نے حمایتی اداریہ تیار کیا (جس میں موجودہ نائب صدر کملا ہیرس کی حمایت کی گئی۔) یہ وہ روایت ہے جو یہ اخبار 1976 کے بعد ہر انتخاب میں پوری کرتا آیا ہے۔

مگر بورڈ کے علم میں لائے بغیر، بیزوز، جنہوں نے 2013 میں اخبار خریدا، نے چند ہفتے پہلے نجی طور پر کسی بھی قسم کی حمایت پر شبہے کا اظہار کیا۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق دو اعلیٰ عہدے داروں پبلشر ولیم لیوس اور ایڈیٹوریل ایڈیٹر ڈیوڈ شپلی نے حمایت شائع کرنے کے حق میں پوری کوشش کی۔

لیکن بیزوز کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور یہ ذمہ داری لیوس پر آن پڑی کہ وہ دوسرے عملے کو یہ خبر دیں اور ایک مضمون لکھیں جس میں یہ ناقابل یقین دعویٰ کیا گیا کہ حمایت روکنا اخبار کی اعلیٰ ترین روایات کے عین مطابق ہے۔

ایڈیٹوریل بورڈ نے اس فیصلے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا لیکن اس غصے کی شدت اُن کے قارئین کے ردعمل کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی۔

اخبار کی اپنی رپورٹنگ کے مطابق کم از کم 2 لاکھ 50 ہزار قارئین (جو اخبار کے ڈیجیٹل سبسکرائبرز کا تقریباً 10 فیصد بنتے ہیں) نے فوراً اپنی سبسکرپشنز منسوخ کر دیں۔

اگر بیزوز کو اپنی صحافتی ٹیم اور قارئین کے جذبات کو اتنی بری طرح سے گزند پہنچانے پر کچھ پشیمانی ہوئی ہو تو انہوں نے اس کا اظہار نہیں کیا۔

اس کی بجائے انہوں نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے تفصیل سے وضاحت کی کہ وہ کیوں صحیح تھے اور دوسرے لوگ غلط تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ لوگ میڈیا پر اعتماد نہیں کرتے کیونکہ وہ اسے جانب دار سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کو شرم آنی چاہیے جو یہ سمجھتے تھے کہ بیزوز نے حمایت کے اظہار  کو روکنے کا حکم اس لیے دیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ان کے دیگر کاروباری مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بیزوز کا کہنا تھا کہ حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔

اب ذرا بیزوز کے نقطہ نظر کو منصفانہ طور پر دیکھیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ خبروں کے ذرائع پر اعتماد کا مسئلہ واقعی موجود ہے اور متعدد جائزے یہ بتاتے ہیں کہ لوگ ذرائع ابلاغ کے اداوں کو جانبدار سمجھتے ہیں۔

مزید یہ کہ سیاسی حمایت  سے پرہیز کرنا بذات خود کوئی بے تکی بات نہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اب تک بیزوز نے، بہت سے پہلوؤں میں، ایک فراخ دل اور مداخلت نہ کرنے والے مالک کا کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر اس اخبار کے لیے جو مالی اور ادارتی لحاظ سے مشکلات کا شکار تھا۔

لیکن میڈیا ادارے کے مالک’افسانوی مدد گار‘ کی بھی کمزوریاں ہیں۔ ایک یہ کہ ایسے مالکان اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صلاحیتیں جن کی بدولت انہیں بے پناہ دولت ملی، وہ باآسانی زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

بیزوز وہ شخص ہیں جنہوں نے اتنی بڑی تعداد میں کپڑے، گھریلو سامان اور بیوٹی پراڈکٹس فروخت کی ہیں کہ وہ اپنے لیے 417 فٹ کی بہت بڑی کشتی خرید سکتے۔ تو کیا ایک اخبار چلانا مشکل ہو سکتا ہے؟

یہی زعم ایلون مسک میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ ایسے شخص ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ اگلے 20 سال میں مریخ پر ایک شہر آباد کر لے گا اور شاید وہ یہ کر بھی لیں۔ تو پھر ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم چلانا تو آسان ہونا چاہیے۔ ہے نا؟

یہ سب پڑھ کر مجھے عظیم مدیر سی پی سکاٹ کے وہ دانش مندانہ الفاظ یاد آتے ہیں جو انہوں نے 1921 میں مانچسٹر گارڈین کی صد سالہ تقریبات کے موقعے پر لکھے۔

انہوں نے لکھا: ’کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اخبار چلانا اتنا ہی آسان ہے جتنا آگ کو ہوا دینا اور ان کے خیال میں علم، تربیت اور قابلیت غیر ضروری ہیں۔اس نظریے کی بنیاد پر کچھ تجربے بھی کیے گئے مگر انہیں کامیابی نہیں ملی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری بڑی غلطی جو ارب پتی مالکان کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے دوسرے کاروباروں کے اصول میڈیا پر بھی لاگو ہونے چاہییں۔

اس ہفتے واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایمازون کے موجودہ چیف ایگزیکٹیو افسر اینڈی جاسی سے کہا کہ انہیں ’(ان) کے لیے  بڑی رقم کا چیک کاٹنا‘ چاہیے اور یہ کہ ’ایمازون کو ان کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ یہ کمپنی کے بہترین مفاد میں ہوگا۔‘

اسی دن جب  واشنگٹن پوسٹ نے اعلان کیا کہ اسے خاموش کر دیا گیا ہے، جیف بیزوز کی خلائی کمپنی بیلو اوریجن کے سی ای او نے ٹرمپ کے ساتھ خوشگوار انداز میں مصافحہ کیا۔

بیزوز کہتے ہیں کہ یہ ’محض اتفاق‘ ہے۔ لیکن بیلو اوریجن بڑے ٹیکنالوجی ٹھیکوں کے لیے ایلون مسک کی سپیس ایکس کے ساتھ سخت مقابلہ کر رہی ہے اور مسک، ٹرمپ کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں۔

’اس لیے اگر یہ اتفاق بھی تھا تو یقیناً ایک کارآمد اتفاق تھا۔

سوچتا ہوں کہ کیا بیزوز نے واشنگٹن پوسٹ کی سابقہ مالکہ، نامور شخصیت کیتھرین گریم کی یادداشت پڑھی؟ اگر انہوں نے پڑھی ہے تو وہ ضرور یاد کریں گے وہ لمحہ جب رچرڈ نکسن کے اٹارنی جنرل، جان مچل نے رپورٹر کارل برنسٹائن کو دھمکی دی تھی کہ اگر واٹرگیٹ کی رپورٹنگ زیادہ عرصہ جاری رہی تو کیتھرین ’مشکل میں پڑ جائیں گی۔‘ لیکن کیتھرین گریم ڈٹی رہیں۔

آخر کار نکسن نے استعفیٰ دیا اور مچل جیل چلے گئے۔ برنسٹائن اور باب ووڈورڈ اپنے دور کے سب سے زیادہ معزز صحافی بن گئے۔

واشنگٹن پوسٹ بہادری کی علامت بن گیا۔ معتبر اخبارات دھمکیوں کے سامنے نہیں جھکتے بلکہ وہ ان سے طاقت حاصل کرتے ہیں۔

اس ہفتے اپنے ہی اخبار میں لکھے گئے مضمون میں، بیزوز ایک بات میں ٹھیک تھے یعنی ’جہاں مفادات کے ٹکراؤ کا تاثر آتا ہے، میں واشنگٹن پوسٹ کا مثالی مالک نہیں ہوں۔‘

لیکن حل بالکل سیدھا اور آسان ہے یعنی مداخلت مت کریں۔ لیوس کو فون نہ کریں، کمنٹس ایڈیٹر سے سرگوشی میں بات نہ کریں۔ وٹس ایپ پیغام بھیجنے کی خواہش پر قابو رکھیں۔ ای میل سے دور رہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کے لیے ایسا آئین بنائیں جو مالک کی ادارتی معاملات میں مداخلت روکے۔ با اصول افراد پر مشتمل بورڈ بنائیں جو اس بات کی تصدیق کر سکے کہ یہ آئین واقعی مؤثر ہے۔

تب، جب ٹرمپ آپ کو غصے سے کال کریں، تو آپ حقیقی معصومیت اور بےبسی کا دعویٰ کر سکیں گے۔

آپ کا عملہ آپ سے محبت کرے گا۔ آپ کے قارئین آپ پر زیادہ بھروسہ کریں گے۔ اخبار اپنی بےباکی کی شہرت واپس حاصل کر لے گا۔ آپ کے رپورٹرز مزید بہتر کام کریں گے۔ سبسکرپشنز بڑھیں گی۔

اس کی بجائے، بیزوز نے ٹرمپ کو خوش کرنے کی جھوٹی کوشش کرتے ہوئے اپنے پبلشر سے اپنے صحافیوں اور قارئین کی ذہانت کی توہین کروائی۔

یہ معاملہ، معاف کیجیے گا، کوئی راکٹ سائنس نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ