کراچی میں وفاقی اردو یونیورسٹی کے اساتذہ اور عملے کے تنخواہوں اور پینشنوں کی عدم ادائیگی پر حالیہ مظاہرے ملکی جامعات کو درپیش مالی اور انتظامی مسائل کے صرف چند پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) پر اربوں روپے خرچ کیے جانے کے باوجود پاکستان کی جامعات کے علمی معیار میں اضافہ نہیں ہوا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ وفاقی اردو یونیورسٹی کے اساتذہ اور عملے نے اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ کیا ہو، بلکہ یہ سلسلہ گذشتہ کچھ برسوں سے چل رہا ہے۔
ایک طرف جامعات میں بھاری بھرکم تنخواہوں اور مراعات پر مختلف غیر تدریسی افراد کو سکیورٹی اور دوسرے بہانوں سے پُرکشش تقرریوں سے نوازا جا رہا ہے تو دوسری طرف جامعات کے پاس اتنا پیسہ بھی نہیں کہ وہ اپنے عملے کی تنخواہیں اور پینشن وقت پر ادا کر سکیں یا لائبریری اور سائنس لیب پر موثر انداز میں خرچ کر سکیں۔
جامعات میں میرٹ کی صورت حال یہ ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے اردو ڈیپارٹمنٹ میں کچھ اساتذہ کی ترقیوں کے وقت ان کے سکول اور کالج کا تدریسی تجربہ بھی پروموشن کے لیے شامل کر لیا گیا۔
کئی ناقدین کے مطابق یہ قواعد کی خلاف ورزی ہے جبکہ کچھ ایسے افراد کو ترقیوں سے محروم کر دیا گیا، جن کے تحقیقی مقالے بھی مختلف ریسرچ جنرلز میں چھپ چکے ہیں۔
دنیا بھر کی جامعات میں پروفیسرز ریسرچ اپنے متعلقہ مضامین میں کرتے ہیں لیکن کراچی یونیورسٹی کے علم ارضیات کے ایک پروفیسر نے مذہبی موضوع پر پی ایچ ڈی کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
جامعات میں کئی عشروں سے سیلف فنانس سکیم جاری و ساری ہے۔ اس سکیم کے تحت تعلیم کو بازارِ جنس بنا کر بہت سارے غریب طالب علموں کو مجبور کیا گیا کہ وہ بینکوں سے قرضہ لے کر یا اپنے گھر والوں کی بچت میں سے پیسے نکال کر تعلیم حاصل کریں۔
کئی مبصرین کا خیال ہے کہ تعلیم کی اس فروخت سے یونیورسٹی میں انرولمنٹ کم ہو رہی ہے۔
سندھ میں صورت حال یہ ہے کہ سکولوں کے لیے بی ایس سی کی ڈگری رکھنے والے اساتذہ نہیں مل پا رہے۔
نجی جامعات اپنے منافعے سے آگے سوچنا نہیں چاہتیں۔ ان جامعات کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ ان سے کوئی بہت بڑے سائنس دان یا تخلیق کار نہیں نکلے۔
یہ جامعات پسماندہ علاقوں میں اپنے کیمپسز قائم کرنا نہیں چاہتیں اور صرف منافع بخش علاقوں میں ہی کیمپس کھولتی ہیں۔
جامعات کی مالی بدحالی ایک یا دو دن کی بات نہیں بلکہ اس کے پیچھے پورا وہ فلسفہ ہے جس کے تحت پہلے جامعات میں سرکار کی طرف سے سرمایہ کاری بند کی گئی، جس کی وجہ سے بہت سارے اداروں کی کارکردگی خراب ہوئی اور جب اداروں کی کارکردگی خراب ہوئی تو نجی شعبے میں چلنے والی جامعات کی منافعے کی فیکٹریاں کھل گئیں۔
کسی دور میں سرکاری میڈیکل اور انجینیئرنگ کالجوں میں تعلیم تقریباً مکمل طور پر مفت ہوا کرتی تھی اور ان اداروں نے بہترین ڈاکٹر اور انجینیئر پیدا کیے۔
ان سرکاری اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے بہت سارے ڈاکٹروں نے رفاعی ادارے قائم کیے، جہاں مریضوں کو مفت علاج کی سہولت فراہم کی گئی۔
لیکن اب نجی تعلیمی ادارے میڈیکل یا انجینیئرنگ کی تعلیم کے لیے کروڑوں روپے وصول کر رہے ہیں جب کہ سرکاری ادارے بھی مہنگے ہو گئے ہیں اور ان میں نشستیں کم ہیں۔
پاکستان کے سابق صدر جنرل مشرف کے دور میں جب ہائر ایجوکیشن کمیشن کو تشکیل دیا گیا تو امید کی جا رہی تھی کہ ملک میں تعلیم کا معیار بہتر ہوگا۔
کمیشن کے قیام کے وقت صرف 60 جامعات تھیں، جو اب 160 ہوگئی ہیں، گو ان کے معیار پر کئی ناقدین سوال اٹھاتے ہیں۔
ماضی میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ مقالات جعل سازی کے ذریعے چھپوائے گئے اور جامعات کے معیار کے حوالے سے رقم کی ادائیگی دے کر سروے کروائے گئے۔
ایچ ای سی پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے اپنی عمارتوں، عملے کی مراعات، بیرونی سکالر شپس، بیرونی دوروں اور کانفرنسوں پر بھی بہت پیسہ خرچ کیا۔
ناقدین کا خیال ہے کہ اگر اتنا پیسہ براہ راست جامعات پر لگایا جاتا تو ملک میں نظامِ تعلیم کی بہتری میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا۔
سرکار کی طرف سے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بہتری کے لیے جو اقدامات کیے گئے، اس سے صرف نجی سرمائے کو فائدہ ہوا۔
مثال کے طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کی 2013 میں آنے والی حکومت نے ایک وزیراعظم فنڈ قائم کیا، جس کے مطابق طالب علموں کو اجازت دی گئی کہ وہ ملک کے مہنگے نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں اور ان کے اخراجات ریاست اٹھائے۔
عمران خان کے دور میں روحانیت پر ادارے قائم کیے گئے اور تعلیمی اداروں میں مزید رجعت پسندی بڑھانے کے لیے پیسہ پھینکا گیا۔
بلاول بھٹو جامعات کی زمینوں پر قبضہ تو نہیں چھڑوا سکے لیکن انہوں نے کئی ایکڑ زمین ایک تبلیغی ادارے کو مفت میں دینے کا اعلان ضرور کیا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ملک کی جامعات میں ہر سال فیسوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے صرف کراچی یونیورسٹی میں 35 فیصد طلبہ پر ایک ارب 76 کروڑ روپے کی فیس واجب ادا ہوگئی ہے۔
فیسوں میں بے تحاشہ اضافے، سلیف فنانس سکیم اور جامعات کی زمینوں پر قبضے کے باوجود اعلیٰ تعلیمی اداروں کا مالی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اساتذہ کی تنظیمیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ 500 ارب کیا جائے۔
دوسری طرف عالمی مالیاتی ادارے کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کو گرانٹ بالکل نہ دی جائے۔
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اگر سرکار کی طرف سے مثبت اقدامات کیے جائیں تو تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن قائم کیا گیا اور جامعات کی مالی طور پر مدد کی گئی، جس سے جامعات میں انرولمنٹ میں 56 فیصد تک اضافہ ہوا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ رینجرز یا دیگر پیرا ملٹری فورسز کو تعلیمی اداروں سے ہٹایا جائے۔ کانفرنسوں کے نام پر سیر سپاٹے بند کیے جائیں۔
جامعات کی زمین سے قبضے ختم کروائے جائیں اور جنہوں نے ماضی میں ان زمینوں کو بیچا ہے، ان کا احتساب کیا جائے جبکہ خریداروں سے زمین واپس لی جائے۔
اسی طرح طالب علموں کو سکالرشپ پر باہر بھیجنے کی بجائے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کو ملک میں لایا جائے۔
اساتذہ خصوصاً سائنس کے اساتذہ کو پابند کیا جائے کہ وہ متعلقہ موضوعات پر ریسرچ کریں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔