کرونا کی عالمی وبا کے خلاف چینی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے چینی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ایسے پاکستانی طالب علم جو وبا کے پاکستان میں پھنس کر رہ گئے تھے، اب ان کی واپسی ہو رہی ہے۔
چینی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ایسے پاکستانی طالب علم جو وبا کے آغاز میں یا اس سے قبل پاکستان واپس آئے تھے، چین واپس نہیں جا سکے تھے۔
یہ طالب علم کافی عرصے سے چین واپس جانے کی کوششیں کر رہے تھے۔ بالآخر سوموار کو ان میں سے 90 طالب علموں کی چین واپسی ہوئی ہے، لیکن اس کے لیے انہیں کن مراحل سے گزرنا پڑا اور اس پر ان کا کتنا خرچ آیا، یہ جاننے کے لیے میں نے ان طالب علموں میں سے ایک سے رابطہ کیا۔
ان کا نام سلمان علی ہے۔ سلمان کا سنہ 2019 میں چین کے شہر شنگھائی میں قائم فوڈان یونیورسٹی کے ایک پی ایچ ڈی پراگرام میں داخلہ ہوا تھا۔ سلمان اس وقت چین آئے تھے، لیکن جب جنوری 2020 میں موسمِ سرما کی تعطیلات ہوئیں تو وہ اپنے خاندان والوں سے ملنے پاکستان چلے گئے۔
ان کے جاتے ہی ووہان میں کرونا کی وبا کا آغاز ہو گیا۔ چین نے کچھ ہی ہفتوں میں اپنی سرحدیں بند کر دیں اور اس وقت چین سے باہر موجود چینی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم بین الاقوامی طالب علموں کے ویزے منسوخ کر دیے۔
ان طالب علموں کو ان کی یونیورسٹیوں کی طرف سے اپنی تعلیم کا سلسلہ آن لائن جاری رکھنے کا کہا گیا تھا۔ تب سے یہ طالب علم اپنے اپنے ملکوں سے ہی آن لائن اپنی تعلیم مکمل کر رہے تھے۔
گذشتہ برس جنوبی کوریا کے طالب علموں کو چین واپس آنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس کے بعد پاکستانی طالب علم اپنی چین واپسی کے لیے بےتاب ہو گئے تھے۔ کبھی سیاست دانوں سے ملتے، کبھی صحافیوں سے بات کرتے۔ سوشل میڈیا پر بھی آئے دن ان کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتا رہتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سلمان نے بتایا کہ انہیں اس سال فروری میں ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے رابطہ کر کے بتایا گیا کہ چینی حکومت نے پاکستانی طالب علموں کو مرحلہ وار واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ پہلے مرحلے میں بلائے جانے والے طالب علموں میں ان کا نام بھی شامل ہے۔ اگر وہ واپس جانا چاہتے ہیں تو اپنی یونیورسٹی کی مدد سے اسلام آباد میں موجود چینی سفارت خانے کو اپنے ویزے کی درخواست جمع کروا دیں۔
پاکستان میں پھنسے ہوئے طالب علموں کی چین واپسی کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان، دونوں ممالک کی وزارتِ امور خارجہ، وزارتِ تعلیم، بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانہ اور اسلام آباد میں چینی سفارت خانہ مل کر کام کر رہے تھے۔
سلمان نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں کل 114 طالب علموں کی رجسٹریشن کی گئی تھی۔ تاہم 24 طالب علموں کا کرونا ٹیسٹ مثبت آنے پر ان کی رجسٹریشن منسوخ کر دی گئی۔
سوموار کو ان سمیت کل 90 پاکستانی طالب علم پی آئی اے کے ایک چارٹرڈ طیارے پر چین کے ایک شہر شی آن واپس آئے ہیں۔
سلمان نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے سبسڈی حاصل ہونے کے بعد انہیں اس پرواز کا ٹکٹ چار لاکھ 81 ہزار پاکستانی روپے میں ملا ہے۔ اس کے علاوہ چین آنے کے بعد دو ہفتوں کے قرنطینہ کا خرچہ بھی ہر طالب علم اپنی جیب سے ادا کر رہا ہے۔
ہر طالب علم کو پرواز سے پہلے کے 48 گھنٹوں میں پاکستان میں چینی حکومت کے منتخب شدہ ٹیسٹ پوائنٹس سے دو مرتبہ کرونا ٹیسٹ کروانا تھا۔
پرواز سے قبل ایئرپورٹ پر بھی ہر طالب علم کا ریپڈ کرونا ٹیسٹ کیا گیا تھا۔ ان تمام ٹیسٹوں کے منفی نتائج حاصل ہونے کے بعد انہیں چینی وزارتِ خارجہ کی طرف سے چین آنے کے لیے ہیلتھ کوڈ جاری کیا گیا تھا۔
سلمان نے بتایا کہ شی آن ایئرپورٹ پر پہنچنے کے بعد سب سے پہلے ان کا کرونا ٹیسٹ کیا گیا۔ پھر انہیں امیگریشن کے عمل سے گزارنے کے بعد ایئرپورٹ کے باہر پہلے سے موجود بسوں کے ذریعے ہوٹل لایا گیا جہاں وہ اگلے 14 دن اپنے اپنے کمروں میں قرنطینہ میں گزاریں گے۔
ہوٹل کے کمرے کا یومیہ کرایہ 330 یو آن ہے جو پاکستانی روپوں میں دس ہزار 360 روپے بنتا ہے۔ کھانے کے اضافی سو یوآن دینے ہوں گے جو پاکستانی روپوں میں تین ہزار روپوں سے زائد بنتے ہیں۔
14 دن بعد کرونا ٹیسٹ منفی آنے پر انہیں شی آن میں یا اس سے باہر جانے کی اجازت ملے گی۔ سلمان کی طرح وہ طالب علم جن کی منزل چین کے دیگر شہر ہیں، انہیں وہاں جا کر پھر سے اپنے خرچ پر 14 دن کا قرنطینہ پورا کرنا ہو گا۔ اس کے بعد انہیں اپنی اپنی یونیورسٹیوں میں داخلے کی اجازت ملے گی۔ وہاں وہ یونیورسٹی کے خرچ پر سات دن کا قرنطینہ کریں گے۔
اس کے بعد انہیں چین میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ملے گی۔
سلمان نے بتایا کہ چین آنے کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ کرونا کی وبا واقعی وجود رکھتی ہے، پاکستان میں لوگ کرونا کی وبا کو تقریباً بھلا چکے ہیں لیکن چین اب بھی 2020 میں رہ رہا ہے۔