تقسیمِ دولت کی ناہمواریاں دنیا بھر میں ہیں، امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں، اور یہ فرق کرونا کی عالمی وبا میں مزید بڑھ گیا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی گذشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی 10 فیصد آبادی کی سالانہ آمدن دنیا کے 52 فیصد غریب لوگوں سے زیادہ ہے۔ لیکن جب بات امیر لوگوں کی مجموعی دولت کی ہو تو وہ دنیا کی مجموعی دولت کے 76 فیصد پر قابض ہیں۔ کریڈٹ سوئز کی ویب سائٹ کہتی ہے کہ 2020 میں دنیا کے پانچ کروڑ 61 لاکھ امیر افراد کے پاس 4183 کھرب ڈالر موجود تھے۔
بلوم برگ کی فہرست جس میں دنیا کے 500 ارب پتی افراد شامل ہیں، اس میں ہمسایہ ملک بھارت کے 16 افراد شامل ہیں مگر پاکستان کا کوئی فرد اس فہرست میں جگہ نہیں بنا سکا۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ پاکستانی ارب پتی نہیں ہیں۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں کے پاس 20 ارب ڈالر کی کرپٹو کرنسی موجود ہے جو کہ ملک کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر سے تقریباً دوگنی ہے۔ 21-2020 کے گلوبل کرپٹو اڈاپشن انڈیکس کے مطابق پاکستان، بھارت اور ویت نام کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق ہمارے ہاں ایک درجن سے زیادہ ایسے لوگ موجود ہیں جو ڈالروں میں ارب پتی ہیں۔
پاکستانی اشرافیہ فلاحی کاموں میں پیچھے کیوں؟
سرمایہ دارانہ نظام میں جہاں کئی خوبیاں ہیں وہاں ایک خامی یہ بھی ہے کہ اس میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف اس نظام کے حق میں یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ یہی لوگ سرمایہ کاری کرتے ہیں تو لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور سرکاری خزانے میں ٹیکسوں کی صورت رقم جاتی ہے۔
مغرب میں امیر افراد کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنی دولت کا بیشتر حصہ فلاحی کاموں کے لیے عطیہ کرتے ہیں اور اس کے لیے ریاستیں انہیں ٹیکس میں چھوٹ دیتی ہیں۔
پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے کہ امیر افراد اپنی آمدن کا ایک بڑا حصہ ٹرسٹ بنا کر اس میں خرچ ظاہر کرتے ہیں لیکن عملاً اس رقم کا بہت کم حصہ خرچ کیا جاتا ہے اور صرف کاغذوں کا پیٹ بھر کر حکومت سے ٹیکس چھوٹ لے لی جاتی ہے۔
دنیا کے فیاض ترین افراد میں بل گیٹس پہلے نمبر پر ہیں جو اپنی آمدن میں سے 27 ارب ڈالر فلاحی کاموں پر خرچ کر چکے ہیں۔ امریکہ کے ہی وارن بفٹ 21.5 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے اور جارج سورس جن کی ایک تنظیم اوپن سوسائٹی پر پاکستان میں پابندی عائد ہے، وہ اپنی آمدن کا آٹھ ارب ڈالر فلاحی کاموں پر خرچ کر چکے ہیں۔
حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ہمسایہ ملک کے ایک سرمایہ کار عظیم پریم جی بھی اپنی آمدن میں سے آٹھ ارب ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔ ان کا تعلق ایک گجراتی مسلم گھرانے سے ہے۔ سعودی عرب کے بزنس مین سلیمان بن عبد العزیز الراجی اس فہرست میں 5.7 ارب ڈالر کے عطیہ کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہیں۔
اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار 383 ارب ڈالر ہے۔ ورلڈ گِونگ انڈیکس کے مطابق فیاض ترین دنیا کے 144ممالک میں سے پاکستان کا نمبر91 ہے۔ دوسری طرف مسلمان ملک انڈونیشیا اس وقت ورلڈ گیونگ انڈیکس میں امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ کر پہلے نمبر پر آ چکا ہے۔ اس کی ایک توجیہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ وہاں لوگوں نے زکوٰۃ دیانت داری سے ادا کرنی شروع کر دی ہے۔
امریکہ کی معیشت کا حجم بھی زیادہ ہے اور وہاں خیرات کرنے کا رجحان بھی زیادہ ہے۔ 2020 میں امریکیوں نے 471 ارب ڈالر کی رقم خیرات کی اور امریکہ کی 25.9 فیصد آبادی کسی نہ کسی شکل میں خیرات دے رہی ہے۔
سی ایس آر، کھانے کے دانت اور دکھانے کے اور
پاکستان میں گذشتہ دو دہائیوں میں رئیل اسٹیٹ نے بہت ترقی کی ہے اور اس میں سب سے زیادہ حصہ بحریہ ٹاؤن کا ہے۔ غیر سرکاری اندازوں کی مطابق ملک ریاض کئی ارب ڈالر کے اثاثوں کے مالک ہیں اور پاکستان کے سب سے امیر ترین شخص ہیں۔ ان کی ویب سائٹ ملک ریاض ڈاٹ کام کے مطابق وہ کئی فلاحی کاموں میں شریک ہیں جن میں ’بحریہ دستر خوان‘ اور خیراتی ہسپتال بھی شامل ہیں۔
ویب سائٹ کے مطابق وہ روزانہ ایک لاکھ لوگوں کو مفت کھانا کھلاتے ہیں، البتہ ان کے ہسپتالوں میں مفت علاج صرف بحریہ ٹاؤن کے ملازمین کا ہوتا ہے باقی تمام مریضوں سے فیس لی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پاکستان میں جو امیر افراد اور ادارے خیراتی کام کر رہے ہیں ان کا مقصد ٹیکس مراعات لینا اور 10 روپے کا کام کر کے 100 روپے دکھانا ہے۔ آج تک کسی بڑے گروپ یا فرد نے کسی یونیورسٹی اور تھنک ٹینک کو امداد کیوں نہیں دی؟ وہ صرف اپنے ہی ٹرسٹوں کے تحت رقم اس لیے خرچ کرتے ہیں تاکہ کاغذوں میں ہیر پھیر کیا جا سکے۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ حبیب گروپ نے حبیب یونیورسٹی اور پیکجز کے سید عابد علی نے لمز یونیورسٹی بنائی ہے تو ندیم الحق کا کہنا تھا کہ ’یہ بھی ویلفیئر سے زیادہ کاروبار کے لیے بنائی گئی ہے۔ وہ خود ہی یونیورسٹی کے بورڈ میں ہیں۔ امریکہ میں راکا فیلر جب یونیورسٹی بناتا ہے تو خود ہی بورڈ کا رکن نہیں بن بیٹھتا۔ لمز تو ویسے بھی امیر بچوں کی یونیورسٹی ہے۔ آج تک پاکستان کا کوئی امیر یہ بتا سکتا ہے کہ اس نے کسی پبلک سیکٹر یونیورسٹی کو کوئی پیسہ دیا ہو یا غریب بچوں کے لیے کسی سکالر شپ کا اعلان کیا ہو؟‘
معاشی امور کی رپورٹنگ سے منسلک صحافی مہتاب حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان میں امیر افراد خیراتی کاموں کو ٹیکس بچانے کے لیے بطور آلہ استعمال کرتے ہیں۔ ایف بی آر اور ان کے مہنگے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ مل کر ایک جال بنتے ہیں جن میں اربوں روپے خیراتی کاموں میں ظاہر کر کے ٹیکس کریڈٹس لیے جاتے ہیں۔
یہ کام کیسے کیا جاتا ہے، اس کی وضاحت کے لیے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے فنانشیل کنسلٹنٹ فیاض احمد، جو پچھلے 20 سال سے کارپوریٹ سیکٹر میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، نے کہا کہ ’پاکستان میں کاروباری ادارے اپنا ٹیکس بچانے کے لیے خیراتی ادارے یا ٹرسٹ رجسٹر کرا لیتے ہیں جس کا مقصد وہ سی ایس آر یعنی کارپوریٹ سوشل ریسپانسیبلٹی بتاتے ہیں۔
’اس میں ہوتا یہ ہے کہ ایک کاروباری ادارہ جس کی آمدن ایک سو روپے ہے تو آج کے ٹیکس کے حساب سے اسے 29 روپے سرکار کو بطور ٹیکس جمع کروانے پڑتے ہیں اس کا توڑ وہ سی ایس آر میں نکالتے ہیں اور اپنے خرچے بڑھا دیتے ہیں اور حکومت کو بتاتے ہیں کہ اپنے منافع میں سے انہوں نے ساڑھے 14 روپے فلاں ٹرسٹ کو عطیہ کر دیے ہیں۔
’اب ان کا بقایا ٹیکس ساڑھے 14 روپے رہ جاتا ہے۔ اس کا سد باب اس طرح ہونا چاہیے کہ حکومت ٹیکس قوانین میں ترامیم کرے اور صرف وہی خیراتی ادارے منظور کرے جن کا تعلق کسی طرح کے کاروباری ادارے سے نہ ہو تاکہ یا تو حکومت کا ٹیکس بڑھے یا پھر وہ رقم حقیقی فلاحی اداروں کے ذریعے غریب عوام پر خرچ ہو سکے۔‘
عام آدمی کتنا فیاض ہے؟
پاکستان سینٹر فار فلنتھراپی کی 20-2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق 479 پبلک لسٹیڈ، 137 ان لسٹیڈ اور 486 پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کی رپورٹوں کو دیکھنے کے بعد انہیں معلوم ہوا ہے کہ 16.45 ارب روپے انہوں نے خیراتی کاموں میں صرف کیے ہیں۔
یہ رقم پچھلے سال سے چار ارب روپے زیادہ ہے۔ پی ایس پی کے سینیئر پروگرام آفیسر ارسلان کشفی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پاکستان میں عام آدمی اشرافیہ سے کہیں زیادہ خیرات کرتا ہے۔ پی سی پی نے 2015 میں گھر گھر جا کر ایک سروے کیا تھا جس میں 15 ہزار گھرانے شامل تھے۔ اس سے اکٹھے ہونے والے ڈیٹا کا جب تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ عام پاکستانی سالانہ 240 ارب روپے کی خیرات کرتے ہیں۔‘
عام آدمی یہ رقم ہر سال ماہ رمضان میں سالانہ زکوٰۃ اور فطرانہ کی مد میں خیراتی اداروں کو دیتا ہے۔ اس حوالے سے وزارت اطلاعات نے ایک پروگرام شروع کیا تھا جس کا سلوگن تھا ’حق حق دار تک۔‘ اس کا مقصد لوگوں میں شعور اجاگر کرنا تھا کہ وہ کہیں ایسے اداروں کی مدد تو نہیں کر رہے جن کا تعلق ممنوعہ اداروں سے ہے۔
نیکٹا کی جانب سے جاری کی گئی اس فہرست میں 212 ممنوعہ ادارے شامل ہیں جنہیں خیرات کی رقم دینا غیر قانونی ہے۔ حکومت نے اس مہم کے سوشل میڈیا پیج پر لکھا ہے کہ عام لوگ جو خیرات مدارس، ہسپتالوں اور دیگر سماجی اداروں کو دے رہے ہیں اس کا صرف 30 فیصد اصل مقاصد پر خرچ ہوتا ہے اور باقی کا 70 فیصد انتظامی اخراجات پر صرف ہو جاتا ہے۔
’الخدمت فاؤنڈیشن‘ اس لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا خیراتی ادارہ ہے کہ اس کا نیٹ ورک پاکستان کے تمام اضلاع میں موجود ہے۔
اس مہم پر مذہبی حلقوں کی جانب سے کافی تنقید کی گئی جس کے بعد یہ مہم روک دی گئی۔ حکومت نے مجموعی طور پر کہیں بھی ایسے اعداد و شمار نہیں دیے جن سے معلوم ہو سکے کہ اس مد میں پاکستانی سالانہ کتنی رقم خیراتی اداروں کو دیتے ہیں۔ لیکن اس مہم کا فائدہ یہ ضرور ہوا کہ ایسے خیراتی ادارے جن کا تعلق مفاد عامہ سے ہے ان پر عوامی اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔
عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ کراچی میں قائم ایک خیراتی ادارہ ہے۔ اس کے چیئرمین چوہدری نثار احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ سال انہوں نے فلاحی کاموں پر ایک ارب 70 کروڑ روپے خرچ کیے جس میں سے تقریباً 60 فیصد عطیہ عام آدمی کی طرف سے آیا۔ باقی 40 فیصد امیر افراد یا کمپنیوں کی جانب سے آیا جس میں سے ٹیکس کریڈٹ کے لیے ہم سے 10سے 12 فیصد لوگ ہی رابطہ کرتے ہیں۔
’الخدمت فاؤنڈیشن‘ اس لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا خیراتی ادارہ ہے کہ اس کا نیٹ ورک پاکستان کے تمام اضلاع میں موجود ہے۔
اس کے صدر محمد عبد الشکور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس کا سالانہ بجٹ چھ ارب سے تجاوز کر چکا ہے اور ہر سال اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق نو سال پہلے ادارے کا بجٹ ایک ارب سے کم تھا۔ ’الخدمت کا بڑا ڈونر بھی متوسط طبقہ ہے لیکن اب کارپوریٹ سیکٹر بھی تعاون بڑھا رہا ہے۔‘
سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ نے گذشتہ سال 11 ارب روپے فلاحی سرگرمیوں پر صرف کیے ہیں جن میں دسترخوان، راشن، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، فنی تعلیم اور نادار بچیوں کی شادیاں وغیرہ شامل ہیں۔
سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے سی او محمد غزال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عطیات میں 90 فیصد حصہ متوسط طبقے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور چھوٹے کاروباری افراد کا ہے اور 10 فیصد اشرافیہ اور کارپوریٹ سیکٹر کا ہے۔