ایوان صدر کی اپنی آن شان اور بان ہے۔ ایک وسیع و عریض میدان اور معلوم نہیں کتنے کمرے اور ہال کہ ایک شخص شاید پورے دن میں نہ دیکھ پائے۔
لیکن اس عالی شان عمارت کے اونچے چوباروں سے غلام اسحاق خان سے لے کر ڈاکٹر عارف علویٰ تک مکین ملکی سیاست کے اتار چڑھاؤ 1988 سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔
ان میں سے ایک پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری بھی تھے، جو آج بھاری اکثریت سے صدارتی الیکشن جیت کر دوبارہ اس ایوان صدر میں آ رہے ہیں۔
جیسا انہوں نے ہم سے ایک ملاقات میں کہا تھا ویسا پھر کر بھی دکھایا، یعنی پہلی سیاسی حکومت اور اس کے صدر نے 2008 سے لے کر 2013 تک مل کر ملکی تاریخ میں پانچ سال مکمل کیے۔
یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس عجوبے پر غیرملکی صحافی بھی ان کے معترف تھے۔ ایک دوسرا سیاسی چھکا ان کی جانب سے بھٹو خاندان کی سیاسی جاگیر میں زرداری عنصر کو کامیابی سے داخل کرنا تھا۔
ان کی اہلیہ بےنظیر بھٹو کے دنیا سے جانے کے بعد انہوں نے نہ صرف سیاسی اعتبار سے اہم چالیں کھیلیں بلکہ محض بھٹو سے سندھ کی سیاسی جاگیر کو بھٹو۔ زرداری خاندان بنا دیا۔
غریب ملک کے اس امیر محل میں کئی صدور سے ملنے کا موقع ملتا رہا۔ مرحوم ممنون حسین سے گپ شپ اور ڈاکٹر عارف علویٰ سے انٹرویو کی غرض سے ملا۔ دونوں اچھی ملاقاتیں رہیں۔ آپ کو اندر کا حال فرسٹ ہینڈ معلوم ہوتا ہے۔
بی بی سی ورلڈ کے سابق نامہ نگار اوون بینٹ جونز اور مجھے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ظہرانے کا موقع ملا تھا۔
ممنون حسین سے ملاقاتیوں کے صوفوں والے کمرے جبکہ ڈاکٹر عارف علویٰ کے ساتھ کرسی پر ایک ہال میں حال احوال ہوا۔ تاہم آصف علی زرداری سے وہ دوپہر کی ملاقات کئی حوالوں سے مختلف تھی۔
پہلے تو صدر پاکستان آصف علی زرداری سے یہ ملاقات ان کے دفتر میں ہوئی۔ پہلی اور آخری مرتبہ صدر کا یعنیٰ ریاست کے سربراہ کا دفتر دیکھنے کا موقع ملا۔
روایتی بڑی سے میز کے پیچھے بیٹھے زرداری صاحب نے اٹھ کر استقبال کیا۔ اس وقت تاثر ملا کہ شاید زرداری صاحب نے خود کو سکیورٹی خدشات کی وجہ سے اپنے دفتر اور اس سے منسلک کمرے تک محدود کر رکھا تھا۔
میز پر انگریزی اور اردو کے چند اخبار ترتیب سے پڑے تھے۔ ایسے جیسے کسی نے انہیں ابھی پڑھا نہیں۔ سیاسی حالات و واقعات پر تبادلہ خیال ہوا۔
ہم نے ان کی بھنڈیوں والی محبوب ڈش پر مبنی ظہرانہ بھی اسی دفتر کے ایک کونے میں پڑی ایک چھوٹی سی میز پر کھایا۔
دوران ظہرانہ بھی گفتگو جاری رہی۔ ان سے بی بی سی کے لیے ’ایک دن صدر کے ساتھ‘ جیسی رپورٹ کا آئیڈیا پیش کیا تو انہوں نے فوراً مسترد کر دیا۔
ان کا استفسار تھا کہ ’مجھے اپنی مدت مکمل کرنے دو۔ میں کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتا جس سے کوئی سیاسی بھونچال آئے۔‘
یہ ظہرانہ 2010 میں ہوا تھا۔ اس کے بعد آصف علی زرداری نے سر نیچے کرکے جیسے تیسے حکومت اور صدارت کی مدت مکمل کی۔
القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد میں امریکی چھاپے میں موت کے بعد کمزور ہوئی عسکری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بہت سے اقدامات، جن میں آرمی چیف کی تبدیلی شامل ہے، کرسکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں کیا۔
ان کی نظریں پانچ سالہ مدت پر رہیں اور اسے ان کی سب سے بڑی سیاسی کامیابی مانا جاسکتا ہے۔
اپنی اہلیہ کی وجہ سے بھی وہ خبروں اور سیاسی و معاشی تنازعات میں الجھے رہے۔ بےنظیر ان سے اختلافات کی بہت سے وجوہات کے باوجود انہیں اپنا ’شیر‘ کہتی تھیں۔
امریکی ٹی وی کی صحافی ڈیفنی باراک، جو بےنظیر کو قریب سے جانتی تھیں، کہتی ہیں کہ بےنظیر ’مکمل طور پر اپنے شوہر کی محبت میں گرفتار‘ تھیں۔
باراک نے ایک مرتبہ لکھا کہ زرداری کے سامنے انہوں نے بےنظیر کی ایک مرتبہ فرانسیسی سیاست دان سیگولین رائل کے ساتھ بہت زیادہ مشابہت بتانے کی کوشش کی تو ’آصف نے فوری طور پر زوردار طریقے سے اسے رد کرتے ہوئے کہا میری بیوی سے زیادہ کوئی خوبصورت نہیں۔‘
بےنظیر اس وقت بلش کر رہی تھیں۔ زرداری کے خلاف غلام اسحاق خان سے لے کر عمران خان تک ہر حکمران نے بدعنوانی کے مقدمات بنوائے۔
ایک مرتبہ تو آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو اپنی ایک رپورٹ میں ان مقدمات پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپوں کو قومی خزانے پر بوجھ اور غیر قانونی قرار دینا پڑا۔
اس سب کے باوجود آصف علی زرداری نے کبھی نہ تو شکایت کی اور نہ معافی ناموں پر دستخط کیے۔
یہ احتساب کے نظام کی کمزوریاں تھیں یا ان مقدمات کا سیاسی ہونے کی وجہ سے کوئی بنیاد نہ ہونا تھا کہ وہ سزا سے دور رہے۔
سینیئر صحافی اویس توحید نے ایک مضمون میں لکھا کہ بےنظیر بھٹو کے آصف زرداری کے بارے میں الفاظ انہیں یاد ہیں: ’دیکھو بے چارہ میرا شوہر۔۔۔ سازش میرے خلاف اور جیل ہمیشہ یہ بھگتتا ہے۔۔۔ یا تو پرائم منسٹر ہاؤس یا پھر جیل میں۔‘
بی بی کے پہلے دورِ حکومت کے خاتمے پر بھی زرداری کو جیل بھگتنا پڑی تھی۔ لیکن بےنظیر کو شکایات بھی تھیں جن کا اظہار انہوں نے ایک مرتبہ ہیلری کلنٹن کے ساتھ گفتگو میں کیا۔
ان کا لوینسکی سکینڈل کے تناظر میں کہنا تھا کہ ’ہم دونوں اپنی زندگیوں سے جان گئے ہیں کہ مرد گلی کی بلی کی طرح ہوتے ہیں اور اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔‘
اوون بینٹ جونز کہتے تھے کہ علیحدگی کا کوئی امکان نہیں تھا کیونکہ یہ ناکامی تصور کی جاتی اور دوسرا بےنظیر بہت زیادہ قدامت پسند تھیں اور شادی توڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔
1991 میں ایسی افواہیں تھی کہ بےنظیر انہیں چھوڑنا چاہتی ہیں لیکن پھر ایسا کچھ نہیں ہوا۔
ان افواہوں کے بارے میں جب آصف علی زرداری سے پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ’وہ ایک مشرقی خاتون ہیں وہ مجھے کیوں چھوڑیں گی؟‘
دونوں نے طویل مدتیں جیلوں میں گزاریں لہٰذا انہیں علیحدگی کی عادت سی ہوگئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معاشی الزامات
بےنظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے چند ماہ کے اندر ہی آصف علی زرداری کی مالی لین دین کے چرچے شروع ہوگئے تھے۔
حزب اختلاف نے وزیر اعظم ہاؤس کو سٹاک ایکسچینج بنائے جانے جیسے الزامات بھی عائد کیے۔
بےنظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد صدر غلام اسحاق کے اس وقت کے بااعتماد مشیر روئیداد خان کو عبوری حکومت میں دونوں میاں بیوی کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات تیار کرنے کا حکم دیا۔
اصل ہدف آصف علی زرداری تھے جو وہ آخری وقت تک رہے۔ ان کو 11 اکتوبر، 1990 کو انتخابی مہم کے دوران اس الزام میں گرفتار کر لیا گیا کہ انہوں نے ایک شخص سے بم باندھ کر اسے بینک سے آٹھ لاکھ ڈالرز نکلوانے کا حکم دیا۔
ایسا نہ کرنے کی صورت میں الزام تھا کہ اسے ریمورٹ کنٹرول سے اڑا دیا جائے گا۔ زرداری نے ان الزامات کو مسترد کیا لیکن انہیں پہلی مرتبہ جیل کی سیر کرنی پڑ گئی۔
سینیئر صحافی روف کلاسرا نے اپنی کتاب ’ایک سیاست کئی کہانیاں‘ میں زرداری کے ساتھ گفتگو کے حوالے سے بتایا کہ جب انہوں نے ان سے خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ رابطے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ’سنو میں فل ٹائم سیاست دان ہوں۔ میں چاہوں تو سیاسی رازوں سے پردہ اٹھا کر اس ملک میں بہت بڑے سیاسی طوفان لاسکتا ہوں لیکن میں یہ راز افشا کرکے صرف ایک دن کی سیاست نہیں کرنا چاہتا۔‘
آصف علی زرداری کے کردار کے بارے میں آپ جو کہیں ان کی سیاست کے داؤ پیچ ہر کوئی تسلیم کرتا ہے۔ وہ جو بھی سیاسی ہدف طے کرتے ہیں پھر اس کے حصول کے لیے انہیں پوری دنیا جو کہے کوئی پرواہ نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔