گذشتہ روز پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ’دہشت گردی ختم نہ ہوئی تو پاکستان کے وجود کو خطرہ ہو سکتا ہے‘ کا بیان دیا ہے۔ تو دوسری جانب ملک کی قومی اسمبلی نے بلوچستان کے علاقے بولان رینج میں تین روز قبل ٹرین جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کیے جانے پر مذمتی قرارداد منظور کی ہے۔
حکومتی جماعت مسلم لیگ ن سے منسلک وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری کی جانب سے پیش کی جانے والی اس قرارداد پر اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین نے دستخط کیے۔
جہاں ایک جانب دو روز قبل پاکستانی فوجی کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے سکیورٹی فورسز کی جانب سے کیے گئے کلیئرنس آپریشن کے مکمل ہونے اور ملوث تمام شدت پسندوں کے مارے جانے کا بیان دیا وہیں دوسری جانب گذشتہ روز بلوچستان لبریشن آرمی کے ترجمان کی جانب سے ’زمینی حقیقت یہ ہے کہ جنگ متعدد محاذوں پر جاری ہے‘ کا بیان دیا گیا ہے۔
پارلیمان کے پلیٹ فارم سے قرارداد کے ذریعہ ’بلا تفریق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحد ہونے‘ کا بیان تو دیا گیا لیکن کیا واقعی پارلیمان صوبہ بلوچستان کے معاملے پر متحد ہے؟ کیا سیاسی جماعتیں اور رہنما اپنے مابین ہونے والے اختلافات کو چھوڑ کر اکٹھے بیٹھ سکیں گی؟ صوبے کی صورتحال کے پیش نظر کیا واقعی مذاکرات ممکن ہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماوں سے بات کر کے ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔
’بلوچستان کے پاس وسائل نہ ہوتے تو بنگلہ دیش جیسا حال ہوتا‘
سردار اختر مینگل سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے پاس وسائل نہ ہوتے تو اس کے ساتھ وہ ہوتا جو بنگلہ دیش کے ساتھ ہوا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ہے کہ جب بھی بلوچستان میں بڑا واقعہ ہوتا ہے تو پارلیمنٹ حرکت میں آ جاتی ہے۔ ’نہ صوبائی اسمبلیاں اور نہ قومی اسمبلی نے کبھی اس صوبے کے مسئلے پر بحث کی، سیاسی جماعتوں کی دلچسپی صرف صوبے کے قدرتی وسائل اور معدنیات ہیں۔‘
انہوں نے کہا ’بلوچستان کے پاس وسائل اور معدنیات نہ ہوتے تو سٹیک ہولڈرز کہتے ادھر ہم ادھر تم۔ اس کے ساتھ وہ ہوتا جو بنگلہ دیش کے ساتھ ہوا۔‘
اختر مینگل نے سوال اٹھایا ’پارلیمان میں موجودہ اور ماضی کی سیاسی جماعتیں دور اقتدار میں آ کر صوبے میں آپریشن پر بضد رہی ہیں۔ کیا کبھی بلوچستان میں آپریشن رکا ہے؟ حکومت نے کبھی مجھے باضابطہ طور پر مزاکرات کا نہیں کہا۔ اگر انہوں نے کبھی مجھے غیر رسمی طور پر کہا بھی تو میں نے یہی کہا کہ جب آپ مجھے قائل نہیں کر سکے تو انہیں کیا کریں گے؟‘
بلاول نے متحد ہو کر ’دہشت گردی ختم‘ کرنے پر زور دیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھے ہو کر بلوچستان میں پیدا ہونے والی صورتحال کا حل نکالنا ہو گا۔
اس سے قبل انہوں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم سے نیشنل ایکشن پلان ٹو بنانے کا مطالبہ کیا۔
’ہم متحد نہ ہوئے تو یہ آگ پھیلے گی۔ یہ دہشت گرد نہ مذہب چاہتے ہیں اور نہ حقوق۔ اتفاق رائے پیدا نہیں کریں گے تو دشمن ہمارے خلاف متحد ہو گا۔‘
’صوبوں کی بڑی آوازوں سے بھی بات کرنا ہو گی‘
پی ٹی آئی کے ارباب شیر علی نے پارلیمان کے متحد ہونے کے علاوہ ماہ رنگ بلوچ جیسے صوبہ کے نوجوان ایکٹیویسٹس سے کے ساتھ بیٹھنے کا بھی کہا ہے۔
اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ارباب شیر علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا اس واقعہ پر آل پارٹیز کانفرنس بلانا ہو گی تاکہ علاقہ کے تمام سٹیک ہولڈرز بشمول علاقہ کے سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھا جائے اور صوبے کی محرومیاں دور کی جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا ’جو فرد ملک کے آئین کو مانتا ہے ان سب کے ساتھ بیٹھنا چاہیے، جب کہ صوبوں کی بڑی آوازوں جیسے خیبر پختونخوا سے منظور پشتین اور بلوچستان سے ماہ رنگ بلوچ سے بھی بات کی جانا چاہیے کیونکہ صوبے کے نوجوان ان کی بات سنتے ہیں۔‘
“نہیں لگتا پارلیمان بلوچستان کے معاملے پر متحد ہو گی‘
نور عالم خان کے خیال میں پارلیمان بلوچستان کے معاملے پر متحد ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔
اپوزیشن بینچز پر بیٹھنے والی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے رہنما عالم خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ماضی میں بھی پارلیمان نے سال 2014 میں افواج پاکستان کو آپریشن کے اختیارات دے دیے تھے۔
انہوں نے کہا پارلیمان کو متحد ہونا چاہیے لیکن وہ اس کی خواہش ہی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ گذشتہ برس سے نہیں لگ رہا کہ پارلیمان بلوچستان کے معاملے پر متحد ہو گی۔
انہوں نے مذاکرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات نہ بندوق والوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور نہ اداروں کو ٹارگٹ کرنے والوں کے ساتھ۔
صحافی سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ مسائل کا سیاسی حل نکالا جائے تو بات آگے بڑھ سکتی ہے،
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ایسے مسائل طاقت اور قوت سے حل نہیں ہوتے بلکہ سیاسی عمل کے ذریعہ ہوتے ہیں۔
’بلوچ قیادت کو بلا کر بٹھایا جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اور ریاست کے خلاف شکایت ہے تو اس کا قانونی راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔‘