لاہور کی قدیم عمارتوں کی بحالی: ’نواز شریف کی وجہ سے بیوروکریسی کا فیتہ کام کرے گا‘

سیاسی تجزیہ کار نواز شریف کے لاہور کی قدیم عمارتوں کی بحالی کی ذمہ دار نئی اتھارٹی لہر کے سرپرست اعلیٰ بننے کو کیسے دیکھتے ہیں؟

مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف 29 جنوری، 2024 کو لاہور میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پنجاب کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیر اعظم نواز شریف لاہور کی قدیم عمارتوں کی بحالی کی ذمہ دار نئی اتھارٹی کے سرپرست اعلیٰ بن گئے ہیں۔

اتوار کو نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی صدارت میں ہونے والے ایک خصوصی اجلاس میں ’لاہور اتھارٹی فار ہیرٹیج ریوایئول(لہر) قائم کی گئی جس کا پیٹرن ان چیف نواز شریف کو بنایا گیا ہے۔

اجلاس میں لاہور کے تاریخی مقامات سے تجاوزات کی نشاندہی اور ہٹانے پر اتفاق کیا گیا- اجلاس میں بتایا گیا کہ لاہور میں کم از کم 115 عمارتیں تاریخی ورثے کی حیثیت رکھتی ہیں اور نوآبادیاتی دور کی 75 قدیم عمارتوں میں سے 48 عمارتوں پر کام جاری ہے۔

اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ مال روڈ پر سعادت منٹو، شورش کاشمیری اور دیگر ادبی شخصیات کی رہائش گاہوں پر تختی لگا کر نمایاں کیا جائے گا۔

اجلاس میں شاہی قلعہ، مقبرہ جہانگیر ونور جہاں، شالا مار باغ، کامران کی بارہ دری اور دیگر مقامات کو بھی بحال کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

لاہور کے ہیری ٹیج ایریاز کی بحالی کے لیے نواز شریف نے جامع پلان طلب کیا ہے-

انہوں نے اس موقعے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پرانا لاہور بہت خوبصورت ہے، اسے اصل حالت میں بحال کیا جانا ضروری ہے۔ تاریخی ورثے کی کھوئی ہوئی میراث کو واپس لانے کا کام قومی فریضہ سمجھ کر سرانجام دیا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ شہروں کی اصل اور قدیم صورتحال میں بگاڑ پیدا کرنا مناسب طرز عمل نہیں۔ ’یورپ نے اپنے شہروں کو صدیوں بعد بھی پرانی شکل میں بحال رکھا۔ یورپ میں صدیاں گزرنے کے باوجود پرانے محلات اور عمارتیں اصل حالت میں موجود ہیں۔‘

نواز شریف کو ’لہر‘ کا پیٹرن ان چیف بنانے کے پنجاب حکومت کے فیصلے پر جہاں سوشل میڈیا پر گفتگو ہو رہی ہے، وہیں سیاسی تجزیہ کار اس پیش رفت کو ایک مختلف انداز سے بھی دیکھ رہے ہیں۔

صحافی اور تجزیہ کار عاصم نصیر  کہتے ہیں کہ اعتراض اٹھ رہا ہے کہ نواز شریف کو کیوں اس اتھارٹی کا پیٹرن ان چیف بنایا گیا؟ ’ان کا سیاسی قد اتنا بڑا ہے کہ انہیں اس قسم کی کسی اتھارٹی میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ پیچھے رہ کر ہدایات دیتے تو زیادہ بہتر تھا۔

’لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس وقت نواز شریف کا سیاست سے زیادہ ثقافت پر توجہ ہے اور شاید سیاسی پولرائزیشن سے بچنے کے لیے وہ ثقافتی لائن اپنا رہے ہیں اور بجائے سیاسی بیانات دینے یا کسی سیاسی کمیٹی کا حصہ بننے کے وہ اس طرح کی چیزوں میں کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لوگ جو مرضی کہیں لیکن نواز شریف اس وقت اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ وہ سیاسی جھگڑوں سے دور ہیں اس کے لیے انہوں نے اپنے بھائی اور اسحاق ڈار کو آگے کیا ہوا ہے۔‘

عاصم نصیر کا کہنا ہے کہ ’نواز شریف ہمیشہ سے خوبصورتی پسند کرتے ہیں، وہ چاہے رستے ہوں پہاڑ یا پاکستان کی قدیم عمارتیں ان کے ساتھ ان کا لگاؤ رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا اس کی مثال مری ہے جس کی پرانی شکل کو بحال کرنے کے لیے اب بھی کام جاری ہے۔

’اپنے پچھلے دور حکومت میں جب یہ (نواز شریف) وزیر اعظم تھے تب بھی بہت کوشش کرتے رہے اور اب انہوں نے مریم نواز کو ٹارگٹ دیا ہے کہ مری کی قدرتی خوبصورتی کو بحال کروائیں۔‘

اس سلسلے میں پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری سے ردعمل جاننے کے لیے بھی رابطہ کیا گیا لیکن خبر چھپنے تک ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔

سینیئر تجزیہ کار سلمان غنی نے اس حوالے سے کہا کہ ’یہ نہ دیکھا جائے کہ وہ تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہے ہیں بلکہ ان کی لاہور کے ساتھ ایک وابستگی بھی ہے وہ خالصتاً لاہور یے ہیں۔

’ان کی پیدائش گوالمنڈی کی ہے لحاظ اگر وہ تاریخی ورثے کی بحالی کے لیے کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

سلمان غنی نے بتایا کہ نواز شریف اتھارٹی کے چیئر مین نہیں نہ ان کی اس میں کوئی سرکاری حیثیت ہے بلکہ اس اتھارٹی میں انہیں سرپرست اعلیٰ بنایا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’نواز شریف کی موجودگی میں بیورو کریسی کا فیتہ بھی کام کرے گا۔ بات یہ ہے کہ اتنی بھاری بھرکم شخصیت اگر کسی کام کا ذمہ لیتی ہے تو کام کرنے والے اداروں اور لوگوں کی رفتار بھی تیز ہوتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اگر نواز شریف براہ راست سیاسی سرگرمیوں میں دکھائی نہیں دے رہے تو اس طرح کی مثبت سرگرمیوں میں ان کا کردار ضرور ہونا چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست