جمعیت علما اسلام کے مرکزی رہنما حافظ حسین احمد گردوں کی بیماری کے باعث بدھ کی شام انتقال کر گئے ہیں۔
جے یو آئی کے رکن قومی اسمبلی عثمان بادینی کے مطابق ’حافظ حسین احمد نہ صرف باعمل عالم دین تھے بلکہ مدبر سیاسی رہنما بھی تھے۔ ان کی کمی کبھی پوری نہیں ہوسکے گی۔ جے یو آئی سے ان کے اختلافات عارضی تھے جو مولانا فضل الرحمن سے ملاقات میں ختم ہوگئے اور وہ دوبارہ پارٹی کے لیے کام کرتے رہے۔‘
رکن قومی اسمبلی جے یو آئی سید سمیع اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’بلوچستان میں حافظ حسین احمد کی مثالی مذہبی خدمات کے باعث بڑے بڑے مدارس اور مساجد کا نظام چلتا رہا ہے۔ انہوں نے اپنی سادہ طبیعت اور دھیمے لہجے سے مدلل گفتگو کے ذریعے پورے بلوچستان میں جے یو آئی کو متحرک رکھا ہوا تھا۔‘
’حافظ حسین احمد کو سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا تھا۔ بلوچستان صوبے میں سیاسی فیصلوں میں بھی ان کا اہم کردار رہا ہے۔ صوبائی اسمبلی ہو یا وفاق کی سیاست میں اہم فیصلے ان کی مشاورت کو پارٹی میں اہم سمجھا جاتا تھا۔ لیکن کچھ عرصہ سے گردوں کی بیماری کے باعث وہ زیادہ متحرک نہیں تھے۔‘
حافظ حسین احمد کا سیاست میں کردار
ایم این اے عثمان بادینی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حافظ صاحب کا تعلق بلوچستان سے تھا انہوں نے سیاسی سفر کا آغاز بھی صوبائی سطح سے کیا۔ وہ جے یو آئی کے بنیادی اراکین میں سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے 1973میں جے یو آئی سے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا۔
صوبائی سطح پر پارٹی کے مختلف عہدوں پر فرائض سرانجام دیتے ہوئے انہوں نے وفاقی سطح پر اپنی صلاحیتیوں کو منوایا، اسی لیے گذشتہ 35سال سے وہ پارلیمانی سیاست کا حصہ بنے رہے۔ جے یو آئی کے سیکرٹری جنرل، نائب صدرات سمیت مرکزی ترجمان کا عہدہ بھی ان کے پاس رہا۔ مجلس شوری کے بھی اہم رکن رہے ہیں۔‘
الیکشن کمیشن ریکارڈ کے مطابق حافظ حسین احمد بلوچستان کے علاقے مستونگ سے جو اب قومی اسمبلی کا حلقہ 260 ہے وہاں سے پہلی بار جے یو آئی کی ٹکٹ پر 1988سے 1990تک رکن قومی اسمبلی رہے۔
دوسری بار 2002 میں منتخب ہوئے اور 2007تک ایم این اے رہے۔ اب اس حلقہ 260مستونگ سے جے یو آئی کی ٹکٹ پر عثمان بادینی ایم این اے ہیں۔
اس کے علاوہ 1991سے 1994تک حافظ حسین احمد جے یو آئی کی جانب سے سینٹر بھی رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ پارٹی میں موروثیت کے خلاف اور جمہوریت کے حامی تھے۔ انہوں نے پارٹی کو فضل الرحمن سے منسوب کرکے جے یو آئی (ایف ) کے نام سے رجسٹریشن کرانے پر بھی اختلاف کیا تھا۔
جب 2020 میں اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم بنائی گئی تو انہوں نے نواز شریف سے اتحاد پر پارٹی قیادت پر بھی تنقید کی جس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے انہیں پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے عہدے سے ہٹا دیا اور رکنیت بھی ختم کر دی۔
اس کے بعد حافظ حسین احمد نے مولانا محمد خان شیرانی اور جے یو آئی کے فضل الرحمان مخالف رہنماؤں کے ساتھ مل کر محاذ کھولا تاہم جب مولانا محمد خان شیرانی نے الگ جماعت بنائی تو حافظ حسین احمد نے ان سے بھی راہیں جدا کرلیں۔
2022 میں مولانا فضل الرحمان نے کوئٹہ جاکر انہیں منایا اور ان کے تحفظات دور کر دیے۔ تاہم انہیں 2024 کے انتخابات میں ٹکٹ اور نہ ہی پارٹی میں کوئی عہدہ دیا گیا۔ ان کے والد مولانا عرض محمد ایک معروف عالم، سیاستدان اور ریاست قلات کے دور میں پارلیمان کے رکن تھے۔
حافظ حسین احمد نے قرآن و حدیث، فقہ اور عربی ادب میں تعلیم حاصل کی تھی، درسِ نظامی اور حفظِ قرآن کی اسناد حاصل کر رکھی تھیں۔ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی جے یو آئی کی طلبہ تنظیم کا حصہ رہے۔
سید سمیع اللہ کے بقول، ’حافظ حسین احمد نے پارٹی کے اندر رہ کر ہمیشہ اپنا موقف واضح کیا اور وہ کئی فیصلوں پر تنقید بھی کرتے تھے۔ اختلافات کے باوجود انہوں نے جے یو آئی کبھی نہیں چھوڑی۔‘