ستمبر 1965 کی جنگ میں جہاں مادام نورجہاں، استاد امانت علی خاں اور مہدی حسن نے گانے گائے اور عوام کا خون گرمایا وہیں اعلیٰ ادب کے معمار بھی پیچھے نہیں رہے۔
جون 1967 میں راولپنڈی سے ایک کتاب 'جنگ ترنگ 'کے نام سے شائع ہوئی جس میں پاکستان کے مشہور شاعروں کا وہ کلام شامل تھا جو انہوں نے جنگی جذبے یا اس وقت کے حالات سے متاثر ہو کے لکھا تھا۔
دی انٹر سروسز پریس کراچی کے زیر اہتمام چھپنے والی اس کتاب کے دیباچے میں شان الحق حقی نے لکھا: ’ہماری شاعری کے سر ایک عرصے تک یہ الزام رہا ہے کہ اس میں صرف گل و بلبل کی داستانیں پائی جاتی ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس نے قومی زندگی کے ہر مرحلے اور ہر موڑ پر نہ صرف زندگی کا ساتھ دیا بلکہ اسے آگے بڑھایا اور اپنی رجز خوانی سے رفتار کارواں کو تیز کیا۔‘
زہرہ نگاہ اور ثریا مقصود نے کتاب مرتب کرتے ہوئے حرف آغاز میں لکھا: ’یہ نگارشات بحیثیت فن اور معانی ہمارے اعلیٰ ادب کے سر کا تاج اور ہماری سیاست کا حرف آخر ہیں۔‘
اس دعوے کے بعد اسی مضمون میں انہوں نے مزید بتایا: ’جنگ کے زمانے میں لگ بھگ دو ہزار نظمیں صرف اردو میں لکھی گئی تھیں جن میں سے اکثر نہایت مقبول ہوئیں اور اب تک زبان زد خاص و عام ہیں۔ اکثر نگارشات براہ راست محکمے تک نہیں پہنچیں تاہم جہاں تک ممکن ہو سکا، ریڈیو سٹیشن، اخباروں، رسالوں اور مختلف کتابوں میں سے ان نظموں کو حاصل کرکے اس مجموعے میں شامل کرلیا گیا ہے۔‘
مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے لکھا: ’عام آدمیوں کی طرح ہر لکھنے والے فنکار بھی اسی کاروان فکر کا مسافر ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس نے دوسروں کے مقابلے میں اس جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔‘
مذکورہ کتاب مرتب کرنے کی تفصیل انہوں نے یوں بتائیں؛
'زیر نظر مجموعہ نہ تو اردوادب کا تذکرہ ہے نہ پاکستان کی سیاسی تاریخ، اس کی صحیح تعریف یوں ہو سکے گی کہ اسے عرصہ جنگ میں ایک قوم کے واردات قلبی کا آئینہ اور اس قوم کے ایمان، اتفاق، محبت، بے لوث خدمت کے احساسات کا نفسیاتی جائزہ سمجھا جائے ۔ ان تمام نگارشات کو قومی امانت کے طور پر محفوظ کر دیا گیا ہے جو وزارت اطلاعات و نشریات کو ان کی درخواست پر موصول ہوئی تھیں'۔
اس مجموعے میں جون ایلیا پاک بحریہ کے حوصلے بڑھانے کے لیے رجز خوانی کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں رئیس امروہوی پاک فضائیہ کا مورال بلند کرتے اور مجاہدوں کو سلام کرتے نظر آتے ہیں۔ فہمیدہ ریاض زبیری یونس شہید پر نظم کہتی ملتی ہیں اور کشور ناہید میجر عزیز بھٹی شہید کی شان میں پابند مصرعے باندھتی سامنے آتی ہیں۔ جون ایلیا کے قلم سے لاہور زندہ باد اور گہوارہ اقبال سیالکوٹ کے عنوانات سے بھی نظمیں سامنے آتی ہیں۔
عطا الحق قاسمی 'انسانیت کی جاں' کے تحت نظم سرائی کرتے ہیں۔ مجید امجد، احمد فراز، سرمد صہبائی، مشفق خواجہ، صفدر میر، مصطفی زیدی، تنویر نقوی، شفیع عقیل،حبیب جالب، انور شعور اور ناصر کاظمی بھی مختلف عنوانات سے قافیہ پیمائی کرتے پڑھنے کو ملتے ہیں۔
فیض احمد فیض کی نظم بھی اس مجموعے میں شامل ہے لیکن وہ اپنی روایت سے انحراف نہ کرتے ہوئے اسی مخصوص رنگ میں نظر آتے ہیں جس طرح وہ انقلاب کی دعوت دیا کرتے تھے۔ نظم کا عنوان ہے، ’لو وصل کی ساعت آ پہنچی۔‘
پڑھنے والوں کی دلچسپی کے غرض سے نمونہ کلام اس مضمون میں شامل کیا جاتا ہے، مکمل نظمیں اس صفحے کے آخر میں پائی جانے والی گیلری پر کلک کر کے ملاحظہ کیجیے۔
رئیس امروہوی
جہاد حق کا سماں لا الہ الااللہ
شہید کی وہ اذاں لا الہ الااللہ
ایک اور نظم کا آغاز انہوں نے کچھ اس طرح سے کیا:
اپنی فضائیہ کے یہ اندازدیکھیے
شاہیں بچوں کا جذبہ پرواز دیکھیے
جون ایلیا
مزار قائد اعظم تجھے مبارک ہو
ہمارے شہر ہمارے دیار جیت گئے
ایک اور نظم کا مصرعِ اولی ہے؛
فرمانروائے بحر عرب پاک بحریہ
بھارت میں ترا نام ہے بیباک بحریہ
اے پاک بحریہ۔۔۔
تنویر نقوی
ملک کو اب مری ضرورت ہے
تم سے میں پیار کر نہیں سکتا
حبیب جالب
سیالکوٹ زندہ باد
عدو کرے گا تجھ کو یاد
ستم کا سرجھکا دیا
جہان کو بتا دیا
کہ زیر سایہ جہاد
قوم اپنی ہے پلی
مشفق خواجہ
بزم اپنی ہے وہی، نغمہ گر اپنے ہیں وہی
نیا انداز نیا حسن بیاں دیکھو تو
عطاالحق قاسمی
میرے وطن کے شیر جوانوں کی خیر ہو
جرات کے بے مثال نشانوں کی خیر ہو
عظمت کی سربلند چٹانوں کی خیر ہو
کشور ناہید
عزیز بھٹی تیرا نام جراتوں کا نشاں
نشان حیدر و جرات تری وفا کا بیاں
فہمیدہ ریاض زبیری
وہ پیکر عزم و فخر ملت
عقاب خصلت، دلیر شاہیں
جہاں میں بے مثل اس کی غیرت
مذکورہ تمام شاعروں کا نمونہ کلام ملاحظہ کرنے کے لیے گیلری پر کلک کیجیے۔