’جون صاحب اپنی بیوی اور بچوں سے بہت محبت کرتے تھے لیکن وہ حد درجہ لاپروا تھے۔ وہ بحیثیت شوہر ایک ناکام شوہر اور بحیثیت باپ بھی ایک ناکام باپ ثابت ہوئے۔ وہ گھریلو ذمہ داریاں نبھا نہ سکے۔ شاید زاہدہ حنا کے پاس الگ ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔‘
یہ الفاظ سراج نقوی کے ہیں، جن کا تعلق امروہہ میں سید حسین جون اصغر نقوی المعروف جون ایلیا کے خاندان سے ہے اور ان کا شمار بھارت میں اردو صحافت کے معروف صحافیوں میں ہوتا ہے۔
سراج نقوی نے انڈپینڈنٹ اردو سے اپنی طویل گفتگو میں بتایا کہ جون ایلیا اردو ادب کے ایک عظیم شاعر ہیں لیکن وہ بحیثیت شوہر اور والد ناکام ثابت ہوئے۔
’جون صاحب میرے عزیز اور میرے خاندان سے تھے۔ زاہدہ حنا سے میرا کوئی خاندانی رشتہ نہیں۔ وہ اتر پردیش سے بھی نہیں ہیں۔ لیکن میں یہ بات ایمانداری سے کہنا چاہتا ہوں کہ جون ایلیا صاحب گھر کے نظام کو چلانے کے معاملے میں غلط تھے۔‘
’بحیثیت شاعر ان کی عظمت اپنی جگہ مقدم ہے لیکن ان پر ہجرت کا درد اس قدر حاوی ہو گیا تھا کہ وہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو بھلا بیٹھے تھے۔ میں نے ان کی بیٹی فینانہ فرنام کا ایک مضمون پڑھا جس میں وہ شکایت کرتی ہیں کہ دنیا کے لیے میرے ابو 2002 میں انتقال کر گئے لیکن ہمارے لیے بہت پہلے مر چکے تھے۔ انہوں نے اپنے اس مضمون میں جون ایلیا کی لاپروائی تفصیلاً بیان کی ہے۔
اردو ادب کی سب سے بڑی ویب سائٹ ’ریختہ ڈاٹ او آر جی‘ سے وابستہ نئی نسل کے شاعر سالم سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جون ایلیا بے شک اردو کے ایک مایہ ناز شاعر گزرے ہیں لیکن وہ معمول کی زندگی جینے کے ہنر سے عاری اور غافل تھے۔
’زاہدہ حنا آج بھی جون ایلیا کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ جشن ریختہ کے حاشیے پر میری ان سے گفتگو ہوئی تھی لیکن انہوں نے جون ایلیا کے متعلق بات کرنے سے صاف انکار کیا تھا۔ بچوں کو زاہدہ حنا نے ہی پالا پوسا۔ جون تو بازار سے سبزی لانے کا چھوٹا کام تک نہیں کرتے تھے۔ زاہدہ حنا اپنی جگہ ٹھیک تھیں۔‘
’جون صاحب کو شراب کی لت کھا گئی‘
سراج نقوی کہتے ہیں: ’معروف شاعر جون ایلیا کراچی ہجرت کرنے کے 18 سال بعد 1975 میں پہلی مرتبہ اپنے آبائی وطن امروہہ آئے ہوئے تھے۔ میں ان دنوں میرٹھ میں قیام پذیر تھا جہاں میرے والد وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ وہیں پہ میرے چچا اور جون صاحب کے بچپن کے دوست عاشق عباس نقوی بھارتی فوج کی انجینیئرنگ ونگ میں ملازم تھے۔‘
’جب عاشق عباس کی اپنے جگری دوست جون صاحب سے فون پر بات ہوئی تو فرمائش آئی کہ امروہہ آ ہی رہے ہو تو آرمی کینٹین سے شراب کی کچھ بوتلیں بھی اپنے ساتھ لیتے آنا۔ غالباً جون صاحب نے یہ فرمائش اس لیے کی تھی کیوں کہ تب یہ عام تاثر تھا کہ آرمی کینٹین میں شراب معیاری اور سستی ملتی ہے۔‘
’عباس نقوی صاحب انتہائی شریف اور شرمیلی طبیعت کے انسان تھے۔ وہ مجھ سے کہنے لگے کہ جون نے تو مجھے ایک بڑی مصیبت میں ڈال دیا۔ بہرحال وہ ڈیوٹی پر چلے گئے اور واپسی پر کہنے لگے کہ جون ایلیا نے آج میری ناک کٹوا دی۔ میں آرمی کینٹین شراب لینے گیا تو وہاں موجود میرے ساتھی مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ نقوی صاحب خیریت تو ہے آپ نے زندگی میں کبھی شراب سونگھی تک نہیں۔‘
’موقع غنیمت جان کر میں بھی چچا کے ساتھ امروہہ آ گیا۔ رات دیر گئے تک جون صاحب کے سامنے بیٹھا رہا۔ ‘
وہ مزید بتاتے ہیں:’امروہہ میں جس مکان میں بیٹھ کر میں آپ سے بات کر رہا ہوں، یہاں سے محض چند میٹر کے فاصلے پر وہ مکان ہے جہاں جون ایلیا کا بچپن گزرا ہے۔ میں نے انہیں قریب سے دیکھا اور سمجھا ہے۔‘
’یہ سچ ہے کہ جون صاحب کو شراب کی لت کھا گئی۔ ہمارے خاندان میں ایسا ہوتا تھا کہ جو زیادہ بگڑتا تھا اس کو بالکل ہی نظرانداز کیا جاتا تھا۔ اسی طرح جون صاحب کو بھی نظرانداز کیا گیا اور ان کا یہ شعر اس کی ترجمانی کر رہا ہے:
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
’امروہہ سے بے انتہا محبت‘
جون ایلیا کے قریبی رشتہ دار محمد علی حیدر نقوی نے امروہہ میں جون ایلیا کے آبائی مکان سے انڈپینڈنٹ اردو سے مختصر بات چیت کی۔
’میں اس وقت بھائی جون کے مکان میں ہی بیٹھ کر آپ سے بات کر رہا ہوں۔ دراصل ہمارے ہاں خاندان میں ایک شادی ہے، جس کے میں انتظامات دیکھ رہا ہوں۔‘
حیدر نقوی کا کہنا ہے کہ جون ایلیا کو اپنے وطن امروہہ اور اپنے ملک ہندوستان سے بے انتہا محبت تھی اور ان کے کئی اشعار میں بان ندی اور گنگا جمنا کا ذکر ملتا ہے۔
’اپنے وطن کی ایک الگ ہی بات ہوتی ہے مگر بھائی جون کے اندر امروہہ سے محبت کی شدت کچھ زیادہ ہی تھی۔ یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ آج کی تاریخ میں وہ سب سے زیادہ مشہور شاعر ہیں۔ نوجوان نسل میں ان کی شاعری کو لے کر جنون ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سالم سلیم کہتے ہیں کہ جون ایلیا کثیر الجہت شخصیت کے مالک تھے جس کا ثبوت ان کی شاعری پیش کرتی ہے۔
’جب سنہ 1988 میں جون ایلیا امروہہ ریلوے سٹیشن پہنچے تو ریل گاڑی سے اترتے ہی زمین پر لیٹ گئے۔ سر پر مٹی پھینک کر زار و وقطار رونے لگے۔ وہ امروہہ کی یاد میں روتے تھے لیکن ہمیشہ کے لیے واپس آنا بھی نہیں چاہتے تھے۔‘
’جون ایلیا کو بے شک بھارت اور امروہہ کی بہت یاد ستا رہی تھی لیکن 1965 کی جنگ کے وقت یہی شخص پاکستان بحریہ کے لیے ترانہ بھی لکھ ڈالتے ہیں۔ یہ ان کے کثیر الجہت شخصیت ہونے کا ثبوت ہے۔‘
سالم سلیم مزید کہتے ہیں کہ ’ریختہ ڈاٹ او آر جی‘ پر آج کل جون ایلیا سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعروں میں شامل ہیں۔
’جون ایلیا کی مقبولیت کی کئی وجوہات ہیں۔ ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جس کو سمجھنے کے لیے کسی لغت کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے اشعار دل کو فوراً چھوتے ہیں اور ذہن میں گھر کر جاتے ہیں۔ حالاں کہ انہوں نے مشکل شاعری بھی کی ہے۔‘
’جون ایلیا کا انوکھا اور منفرد لب و لہجہ نوجوان نسل کو بہت زیادہ اٹریکٹ کرتا ہے۔ خاص طور پر ان کا مشاعروں میں اپنے اشعار جھوم کے پڑھنا۔‘
سراج نقوی کا کہنا ہے کہ جون ایلیا اپنے آبائی وطن امروہہ کو کبھی بھلا نہیں پائے اور اس کو اپنے اشعار میں یاد کرتے رہے۔
’جب جون صاحب ہجرت کے بعد پہلی مرتبہ امروہہ آئے تو میں نے ان کے اندر کی بے قراری اور بے چینی کو محسوس کیا۔ اس وقت امروہہ ضلع مرادآباد کا حصہ تھا۔ ان کے استقبال کی مناسبت سے یہاں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی جس میں مرادآباد کے مجسٹریٹ بھی شرکت فرما تھے۔‘
’جون ایلیا صاحب نے اس تقریب میں ایک غزل پڑھ کر سنائی تھی جس میں امروہہ سے جدائی کا درد صاف نظر آ رہا ہے۔ اس کے چند اشعار یوں ہیں۔
ہم آندھیوں کے بن میں کسی کارواں کے تھے
جانے کہاں سے آئے ہیں جانے کہاں کے تھے
مل کر تپاک سے نہ ہمیں کیجیے اداس
خاطر نہ کیجیے کبھی ہم بھی یہاں کے تھے
کیا پوچھتے ہو نام و نشان مسافراں
ہندوستاں میں آئے ہیں ہندوستاں کے تھے
سراج نقوی کہتے ہیں کہ کراچی میں رہ کر انہیں اپنے آبائی مکان اور بان ندی کی یاد اکثر تڑپاتی تھی، جس کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے۔
ہے نسیم بہار گرد آلود
خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا
اس سمندر پہ تشنہ کام ہوں میں
بان تم اب بھی بہہ رہی ہو کیا
’ان اشعار کو وہ شخص اچھی طرح سمجھ سکتا ہے جو امروہہ کا رہنے والا ہو۔ جون صاحب کے جانے کے بعد ان کا امروہہ میں مکان بند ہوگیا تھا، تاہم بعد ازاں اسے کمال امروہی نے خرید لیا۔ ہجرت کے بعد جب بھی وہ یہاں آئے تو اس مکان کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے تھے اور روتے رہتے تھے۔‘