اچھا شاعر اور روحانی پیشوا ہونے کی نشانی یہ ہے کہ آپ جو بات کریں اس میں سے اگلے ہزار سال تک اپنی مرضی کا مطلب نکالا جا سکے۔ کرونا دماغوں پہ چھایا ہوا ہے۔ ہر گھنٹے بعد خبر آتی ہے اتنے لوگ چلے گئے، اتنوں کو ہو گیا۔ اس میں بھی جون ایلیا کا ایک شعر وائرل نکل آیا۔
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
سبحان اللہ ہو گیا۔ اس سے اچھی کیا بات ہو سکتی ہے کہ آپ ادب کا چسکہ بھی پورا کریں اور کرنٹ افئیرز سے بھی چھیڑ چھاڑ کرتے رہیں۔
کرونا کی وجہ سے دنیا بھر میں چلتی زندگی رک چکی ہے، جو زیادہ رکی وہ مر گئی، جو کم رکی وہ قرنطینہ میں ہے۔ کھیل ختم، ملنا جلنا ختم، باہر جانا ختم، سینیما ختم، عنقریب دفتر کے کام بھی گھر بیٹھ کے ہوں گے۔ ایسے میں بندہ یا تو موبائل بازی کر سکتا ہے یا کوئی بہت ہی فارغ ہے تو کتاب اٹھا لے گا۔ تو بس کتاب اٹھا لی گئی۔ میں یا میں، کتاب کا نام ہے اور جون ایلیا کے بارے میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے تقریباً سبھی کچھ موجود ہے اس میں۔
جون ایلیا کی زندگی میں دو انسان ایسے تھے جنہوں نے انہیں کمرشلی مشہور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن آئے دونوں دیر سے۔ سلیم جعفری وہ تھے جنہوں نے ان سے مشاعرے پڑھوائے اور خالد احمد انصاری وہ ہیں جنہوں نے جون ایلیا کا لکھا ہر کاغذ محفوظ کیا اور کتابیں بناتے گئے۔ پہلی کتاب کے بعد جو کچھ بھی جون ایلیا کے نام سے چھپا وہ سب خالد انصاری کا جمع کیا ہوا تھا۔ زاہدہ حنا کو لکھے گئے خطوط سمیت بہت کچھ ایسا ہے جو انہوں نے اب بھی نہیں چھاپا، اچھا ہی کیا۔
تنقید کرنا اور اسے لکھ دینا، دونوں کام بہت آسان ہیں۔ کسی شاعر کے کلام میں کیا خوبیاں تھیں، اس پر تو ایک ہزار صفحوں کی پانچ کتابیں لکھوا لیں، بھائی لکھ دے گا، لیکن یار پڑھنے کو نہیں بولنا۔ ساری تاریں جل جاتی ہیں اندر تک کی۔ بھائی کہانیوں کا شوقین ہے، لوگوں کی زندگی میں کیا ہوا، یہ پڑھنے کا مزا آتا ہے۔ تو اس کتاب میں بھی یہ ساری تماش بینی کوئی ڈیڑھ سو پیج کے بعد آتی ہے، اس کے بعد چل سو چل۔
غم سے بہل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
درد میں ڈھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
میری جہالت کہ میں یہ شعر جون ایلیا کا ہی سمجھتا تھا، معلوم ہوا پیرزادہ قاسم کا ہے۔ اپنے مضمون میں انہوں نے بتایا کہ یہ جون صاحب کے لیے ہی کہا گیا تھا اور انہیں پوری غزل یہ والی جو ہے، بہت پسند تھی۔
رات کے دو ڈھائی بجے جون ایلیا کے یہاں ایک فون آیا۔ گھر والوں نے بتایا کہ سو رہے ہیں۔ فون کرنے والے قریبی دوست تھے، کہا جگا دیں۔ گھر والوں نے اٹھا دیا، جون صاحب آئے، فون اٹھایا، آدھی نیند میں آنکھیں ملتے ہوئے ہیلو کہا تو ادھر سے انہوں نے بتایا کہ جون بھائی، روسی فوج ماسکو میں داخل ہو چکی ہے اور لینن کا مجسمہ تباہ کیا جا رہا ہے۔ جون صاحب کو یقین نہ آئے۔ کہنے لگے نہیں بھئی، یہ کیسے ۔۔۔ دوست بتانے لگے کہ وہ خود سی این این پہ دیکھ رہے ہیں۔ جون صاحب بولے، ہاں جانی، فوج کہیں کی بھی ہو، ہوتی پنجابی ہے!
پاکستان تو علی گڑھ کے لونڈوں نے بنایا تھا، یہ ڈائیلاگ ہو یا دنیا کی ہر فوج کا مزاج پنجابی ہونے والا یہ لطیفہ، دونوں چیزیں جون ایلیا کے اینٹی پنجابی، اینٹی فوج ہونے کو ظاہر کرتے ہیں لیکن وہی جون ایلیا تھے جنہوں نے 1965 کی جنگ میں فوج کے لیے ترانے بھی لکھے اور اس کتاب کے مطابق انہیں پنجابی سیکھنے کا بھی بہت شوق تھا۔ نہ صرف شوق تھا بلکہ سیکھ بھی رہے تھے۔ کہتے تھے میں چاہتا ہوں لوگ مجھ سے پنجابی میں بات کریں لیکن جتنے پنجابی کراچی میں ہیں وہ مجھ سے بات ہی اردو میں کرتے ہیں۔ وہ تو بھئی پنجابی میں شعر بھی کہنا چاہتے تھے بلکہ ان کی اماں کی زبان پر بھی پنجابی کا اثر تھا۔ وارث شاہ کی شاعری بھی جون ایلیا کو پسند تھی اور یہ بھی لکھا ہے کہ پنجابی نوحے اپنی تاثیر میں انہیں اردو سے بہت زیادہ شدت والے لگتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ وہ پنجاب میں ابتدائی تعلیم بھی مادری زبان میں چاہتے تھے، یعنی اردو نہ انگریزی بلکہ بچہ پنجابی میں ہی قاعدہ پڑھے۔ خیر، فقیر کمینے پن پہ آیا ہوا ہے، مقصد جون صاحب کو پرو پنجابی ثابت کرنا ہے ہی نہیں، بھائی چاہتا ہے کہ آپ دوبارہ کالم کی پہلی لائن پڑھیں اور دیکھیں کہ ایک اچھا شاعر کیسے ہر گھڑی ہر پل کچھ نہ کچھ ایسی بات کر دیتا ہے جس سے اسے پنجابی یا اینٹی پنجابی اور فوج پسند یا اینٹی فوج ثابت کیا جا سکتا ہے۔ یعنی اگلے ایک ہزار سال تک اپنی مرضی کا مطلب نکالتے پھریں۔ تھوڑا آگے جائیں گے تو الیکشنوں میں جون صاحب کا بنایا ایک نعرہ بھی مل جائے گا:
ہم ہیں ملت کا منشور
کون نورانی کون غفور
امروہہ میں جون صاحب کی منگیتر جو تھیں، ان کی والدہ جون صاحب کی شاگرد تھیں۔ یہ اس چکر میں وہاں جاتے تھے کہ ان کو پڑھانے کا معاملہ تھا۔ ایک دن گئے تو معلوم ہوا کہ منگیتر صاحبہ سو رہی ہیں۔ ’مجھے انتہائی صدمہ ہوا، مجھے لگا کہ منگنی کے بعد میری اہمیت میں کمی آ گئی ہے، مجھے روزمرہ سمجھا جا رہا ہے۔ یہ میرے عشق کی توہین تھی۔‘ انہوں نے منگنی کیا توڑی بلکہ تعلق ہی ختم کر لیا۔ اب ایسا ہی ایک سین کراچی میں ہوا۔ کوئی خاتون تھیں جن کے ساتھ یہ چائے پینے گئے کسی ریسٹورانٹ، انہوں نے چینی پوچھی یہ بولے ڈیڑھ چمچ۔ بات ختم۔ کچھ دن بعد یہ پھر انہی کے ساتھ چائے پینے گئے، بے چاری نے دوبارہ پوچھ لیا چینی کا۔ ختم! سب کچھ وہیں ختم۔ بتاتے ہیں ’میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ محبوب کے بارے میں ایسی بنیادی باتیں فراموش کر دینا میرے تصور عشق کی نفی تھی، وہ اس لڑکی سے میری آخری ملاقات تھی۔‘ تو ایسے کئی قصے آپ کو اس کتاب میں نظر آئیں گے۔
خالد انصاری ان کے آخری دنوں کے ساتھی تھے۔ کئی برس ان کے ساتھ گزارے۔ لکھتے ہیں کہ ایک دن جون انہیں کہنے لگے کہ میرا خیال تھا آدمی کو 40 سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد خود کشی کر لینی چاہیے کیونکہ تب تک چیزوں کی اصلیت نظر آنے لگتی ہے اور پھر دنیا سے اکتاہٹ اور بے زاری بھی شروع ہو جاتی ہے۔ جب پوچھا کہ پھر کیسے بچ گئے تو کہنے لگے منطق نے بچایا لیا۔ پوچھا کیسے، جون بولے ’منطق کے مطابق مرنے کے بعد کچھ نہیں ہے۔ جب کچھ ہے ہی نہیں تو یہ جو کچھ ہے، اسی پر گزارا کر لو۔‘ ایک دفعہ زیادہ پیے ہوئے تھے کہ اوپر سے کسی نے بھری سگریٹ بھی پلا دی۔ اب چوتھی منزل پہ ہیں ہوٹل کے کمرے میں اور ایسے لگ رہا ہے جیسے کوئی انہیں کان میں کہہ رہا ہے، کھڑکی کھول اور نیچے کود جا۔ ہڑبڑا کے اٹھے اور کھڑکی بند کر دی، لیٹ گئے۔ پھر آواز آئی تو باتھ روم میں چھپ گئے ڈر کے، پھر بھی آواز بند نہ ہوئی تو آخر ایک اور دوست کے کمرے میں ان کے پاس جا کے سوئے۔ یہ قصہ بھی خالد بھائی نے لکھا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ 40 سال والا فیصلہ ٹھیک نہیں تھا؟ اور جو حالات مرنے تک انہوں نے دیکھے کیا ہی اچھا ہوتا جو بیس تیس سال پہلے چلے جاتے۔ شاعری کی شہرت کا فائدہ کیا جب زندگی رل کھل جائے بندے کی؟ اور وہ شہرت جس میں اضافہ مرنے کے بعد ہو، وہ تو چالیس سال تک والی شاعری کے بعد بھی ہو ہی جانا تھا۔ خیر، چھڈ گلاں دیو، اگے چلو۔
ایک بار جون صاحب کے چاہنے والوں نے ان کے لیے ایک ادبی تنظیم بنا دی۔ اب جہاں وہ رہتے تھے، وہیں مشاعرہ ہوا، جون صاحب نے بھی آخر میں پڑھا۔ کھانا ہوا، کھا پی کے سب چلے گئے تو خالد صاحب نے کہا کہ بھئی مجھے تو بہت برا لگا کہ آپ اپنے ہی گھر پہ مشاعرہ رکھوائیں، خود اپنا ہی کلام پڑھیں اور لوگوں کو سنائیں اور پھر کھانا بھی خود ہی کھلائیں، یہ کیا ہوا؟ کیا اب جون ایلیا اپنا کلام اس طرح گھر پہ بلا کے لوگوں کو سنائیں گے۔ جو پھر جواب دیا جون ایلیا نے، آہا، وہ پڑھنے والا ہے۔ کہنے لگے۔ ’تو بے فکر ہو جا، آئندہ ایسا کچھ نہیں ہو گا، یہ تو بالکل ایسا ہی ہے کہ امام خود اپنے ہی نام کی نیاز دے رہے ہوں۔‘ جون اصغر عالی سے جون عصری اور پھر جون ایلیا ہونے والا ہی یہ کہہ سکتا تھا!
ایک سین رہ گیا بس۔ دیکھیں جون ایلیا کی شاعری یا ان کے شعروں میں پائی جانے والی خصوصیات پر میں لکھ تو دوں لیکن جب میں خود ہی ایسا کچھ نہیں پڑھنا چاہتا تے فیدا کی؟ بندہ وہی لکھے جو بعد میں کبھی پڑھنے کا موڈ ہو تو انجوائے بھی کرے۔ تو بس آخری منظر دیکھیں جو یقیناً بہت سوں کو کام بھی آئے گا۔ دوسرا عشق شروع ہو رہا تھا۔ پہلی فارہہ تھیں، یہ والی فروزینہ۔ فروزینہ کو انہوں نے خط لکھا تو ادھر سے جواب میں بھی خط آیا لیکن وہ شروع ہوتا تھا بھائی سے، یعنی پیارے جون بھائی، یا جون ایلیا بھائی، یا کچھ بھی۔ جون صاحب کی ہٹ گئی۔ اس کے بعد ایک نظم ہوئی اور نظم کے بس دو شعر، تیور چیک کریں۔
تم اگر بھائی سمجھتی ہو تو یہ بھی لکھو
بھائی کے خط کو بھی چھپ چھپ کے پڑھا کرتے ہیں؟
تم اگر بھائی سمجھتی ہو تو یہ بھی بتلاؤ
بھائی کا نام بھی شرما کے لیا کرتے ہیں؟
باقی پھر عشق کہاں تک پہنچے، شاعری کیسے چلی، لوگوں سے کیا ویہار رہا، آخری دنوں میں کیا کچھ دیکھا اور جون ایلیا کے بارے میں ان کی بیٹی فینانہ فرنام کیا کہتی ہیں، ان کے شاگرد خاص وسعت اللہ خان کیا لکھتے ہیں، ان سے بہت قریب عقیل عباس جعفری کیا بتاتے ہیں، فرنود عالم کیا سناتے ہیں، علی زریون کیا یاد کرتے ہیں وہ سب کچھ کتاب خرید کے موج کریں، ساڑھے سات سو صفحوں کو 1700 لفظوں میں اور کتنا بند کروں یار؟