13 صدیوں پرانی عربی کتاب جس نے دنیا پر اثر ڈالا

آٹھویں صدی عیسوی میں فارسی سے ایک کتاب عربی میں ترجمہ ہوئی جس کا اثر آج تک برقرار ہے۔

اس کتاب میں مختلف جانوروں کو بطور کردار پیش کیا گیا ہے (پبلک ڈومین)

آٹھویں صدی عیسوی میں عرب مصنف ابوالمقفع نے ایک کتاب ترجمہ کی، جس کے یورپی زبانوں میں بھی تراجم ہوئے جو یورپ میں ہاتھوں ہاتھ لیے گئے اور اسی کتاب نے ہندوستانی دانش کو دنیا بھر میں متعارف کروایا، حتیٰ کہ میکیاویلی اور جارج آوویل جیسے مصنف بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔

مفکر و سیاح محمد عابد الجابری نے اپنی کتاب ’نقد عربی دانش‘ کے چوتھے اور آخری حصے ’عربی اخلاقی دانش‘ میں لکھا ہے کہ اپنے ابتدائی دور سے لے کر (جب یہ کتاب ترجمہ ہوئی) بیسویں صدی کے نصف تک جبکہ عربی زبان اپنے عروج پر ہے، عربی زبان میں موجود اخلاقی دانش کی تشکیل میں اس کتاب کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل رہا ہے۔

جابری نے مزید کہا، ’یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس تمام مدت میں یہ کتاب بڑی قدر وقیمت کی حامل رہی۔ زبان کے حوالے سے بھی اور ادب کے حوالے سے بھی اور اس طرح یہ کتاب جدید عربی ثقافت کی پہلی باقاعدہ درسی کتاب ہے۔‘

الجابری کی بات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس کتاب میں بعض متضاد باتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک جگہ بادشاہ کی اطاعت کی ترغیب دی گئی ہے تو دوسری جگہ بادشاہ کی مصاحبت کے نقصانات سے ڈراتے ہوئے اس سے دور رہنے کا کہا گیا ہے۔ جن عبارتوں میں بادشاہ کی اطاعت کی ترغیب دی گئی ہے، وہ فارسی سے آئی ہیں اور جن میں اس کی مصاحبت سے ڈرایا گیا ہے، وہ ہندی نسخوں پر مبنی ہیں۔

الجابری نے مزید بتایا ہے کہ عبداللہ بن المقفع نے یہ کتاب عربی دانش کے اس سنہری دور میں ترجمہ کی، جب اپنی ہمسایہ زبانوں سے دانش کو منتقل کرنے کا رواج اپنے عروج پر تھا۔ دنیا میں بہت سی مقبول کتابیں جنہوں نے سیاسی اور اخلاقی حوالوں سے روشن خیالی کو عام کیا اسی کتاب کی مرہون منت ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مشہور اطالوی مفکر میکاؤلی بھی اس کتاب سے متاثر تھے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ عربی ہی وہ زبان تھی، جس کی بدولت یہ متن یورپ میں پہنچا۔

ہسپانوی ترجمہ

یہاں یہ بھی ذکر کرنا مناسب رہے گا کہ ہسپانوی بادشاہ دہم الفانسو نے (جن کا لقب حکیم تھا) 13ویں صدی عیسوی کے وسط میں یہ حکم دیا تھا کہ ’کلیلہ و دمنہ‘ کو عربی سے ہسپانوی میں براہِ راست ترجمہ کیا جائے۔ اس کے بعد اس ترجمے کے بہت اثرات مرتب ہوئے۔ یہ اثرات نہ صرف ہسپانوی و یورپی علامتی ادب میں ہوئے (اس لیے کہ یہ کتاب علامتی ادب پر مشتمل ہے) بلکہ سیاسی افکار بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد جس نے بھی سیاست، سیاسی معاملات یا امورِ مملکت پر لکھا (جس میں کتاب ’دی پرنس‘ کے مصنف میکیاویلی بھی شامل ہیں) بالواسطہ یا بلاواسطہ اس نے اس کتاب سے استفادہ کیا۔ ممکن ہے یہ بات کسی حد تک مبالغے پر مبنی ہو لیکن اس سے اس کتاب کی اثر پذیری کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔

کتاب کلیلہ ودمنہ کو آٹھویں صدی عیسوی میں عربی زبان میں منتقل کیا گیا لیکن اس سے پہلے یہ کتاب مختلف ایشیائی زبانوں میں مختلف صدیوں میں ترجمہ ہو چکی تھی۔ ان میں سے ایک ترجمہ فارسی زبان کا بھی ہے، جسے بادشاہ نوشیروان کے حکم سے ترجمہ کیا گیا۔

اس کتاب نے جہاں یورپ کی جدید سیاسی فکر کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا، وہیں عربی زبان میں دانش کی ترویج میں بھی اس کتاب نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگرچہ اس کتاب کی جڑیں خالص سنسکرت سے اٹھی ہیں اور باوجود اس کے کہ اہل فارس اسلام کی آمد سے پہلے اس سے واقف تھے، کلیلہ و دمنہ کی شہرت عربی کلاسک کے طور پر ہے اور اس کی وجہ ہے عبداللہ ابن المقفع۔ ابن المقفع نے اسے اس مہارت سے عربی میں منتقل کیا ہے کہ اسے بجا طور پر تاریخِ اسلام کے چنیدہ لوگوں میں شامل کیا جاتا ہے۔

دابشلیم اور بیدپائے

کلیلہ و دمنہ کی کہانیاں (کم سے کم عربی نسخے میں) ہمیشہ بادشاہ دابشلیم کے فلسفی بید پائے سے خطاب سے شروع ہوتی ہیں۔ اکثر محققین کا خیال ہے کہ بیدپائے ہی ان کہانیوں کا اصل خالق ہے۔ بید پائے اخلاقی فلسفی اور مفکر تھا۔ وہ اپنی کہانیوں کے ذریعے سے فلسفیانہ نکات سامنے لاتا ہے اور اس کے لیے جانوروں کی زبان سے اور ان کے آپس کے تعلقات سے ذریعے سے علامتی اسلوب میں باتیں پیش کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب بیدپائے کے بعد مختلف ادوار میں متعدد مرتبہ مرتب ہوئی۔ ان نسخوں میں سے سب سے مشہور پنچ تنتر (پانچ کتابیں) ہے۔ اس نسخے میں ہم پہلی بار کہانیوں کے مرکزی کردار دو لومڑیوں ’کارتک‘ (جس کا نام عربی میں کلیلہ رکھا گیا) اور ’دامانک‘ (جس کا عربی نام دمنہ ہے) سے متعارف ہوتے ہیں۔

ان لومڑیوں کے ذریعے سے ہم برہمن پنڈت فیزنوز ارمان کی حکمت و دانائی کی باتوں سے روشناس ہوتے ہیں۔ اس کو راجہ نے تین جاہل شہزادوں کی تعلیم پر مامور کیا تھا۔ اس طرح ہمیں اس کتاب کا ایک اور نام ’شہزادوں کی کتاب‘ معلوم ہوتا ہے اور اس نام کو کئی یورپی نسخوں میں اپنایا گیا ہے۔

کلیلہ و دمنہ کا سفر

ابن المقفع تک یہ کتاب پہنچنے سے پہلے اس کتاب کے اصل متن نے وسطی ایشیا اور فارس کا طویل سفر طے کیا اور اس کتاب کے ساتھ وہی ہوا جو اس طرح کی کتابوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے، یہ کتاب راستے میں (دیگر کہانیوں سے) مالا مال ہوتی گئی۔

جب ابن المقفع نے بغداد میں اس کا ترجمہ کرنا شروع کیا (بغداد اس وقت ثقافی و تہذیبی حوالوں سے دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک تھا) تو یہ بات بالکل فطری بات تھی کہ اس میں نئی کہانیوں کا اضافہ ہو اور وہی ہوا کہ عربی نسخے میں 17 ابواب اور ہر ایک میں ایک کہانی تھی، جب کہ اصل ہندوستانی نسخے میں صرف پانچ کہانیاں تھیں۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابن المقفع کا نسخہ سب سے زیادہ ثروت مند ہے۔ اس میں عربی سیاسیات واخلاقیات، قدیم ہندوستانی دانش سے بھی زیادہ موجود ہے۔ جس کی بنیاد پر اسے ایشیا کے دیگر متون کے مقابلے میں (جو عربی میں منتقل ہوئے) عربی متن ہی سمجھا جاسکتا ہے۔

سوفسطائی فکر

ابن المقفع نے مقدار میں تو زیادہ اضافے نہیں کیے البتہ اس نے فکری حوالے سے اس میں تبدیلیاں کی ہیں۔ یہ تبدیلی ہمیں اس فصل میں زیادہ نمایاں طور پر نظر آتی ہے جس میں دمنہ (جو جانوروں میں اختلاف کے بیج بوتا رہتا ہے) کا محاکمہ ہے۔ اس محاکمے کو بیان کرنے کا مقصد تو محض اخلاقی افکار کی پیش کش ہے لیکن اس میں کچھ ایسی باتیں بیان کی گئی ہیں، جس سے یہ اخلاقی سے زیادہ سیاسی بن گیا ہے، جس کی وجہ سے اس محاکمے میں تضاد در آیا ہے۔

عربی کلیلہ ودمنہ میں چار مقدمے ہیں، ان میں سے غالباً سب سے اہم مقدمہ وہ ہے جس میں فارسی دانش ور بروزیہ کی سوانح حیات کو بیان کرتے ہوئے روحانی و فکری مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے جس سے یہ علم ہوتا ہے کہ سیاسی انتشار کے دور میں کیا عمل اختیار کرنا چاہیے۔ باقی ابواب میں مختلف کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔ قاری جب ان کہانیوں کو پڑھتا ہے تو اسے ان کہانیوں میں رمز، علامت اور تمثیل ملتی ہے۔ جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے کہ ان کہانیوں کا مقصدبہت محدود تھا اوروہ مقصد یہ تھا کہ اشرافیہ کی اخلاقی تعلیم کے ساتھ ساتھ سیاسی تربیت بھی ہو۔ ان کہانیوں میں جو ’اخلاق‘ بیان کیا گیا ہے وہ زیادہ تر نتائج پسند ہے۔ اس قسم کا اخلاق ہمیں زیادہ تر مندرجہ ذیل کہانیوں میں ملتا ہے:

’خرگوش اور فیلہ کا بادشاہ،‘ ’لومڑی اور ڈھول،‘ ’خرگوش اور شیر،‘ ’بےچارہ عبادت گزار‘ اور ’بھیڑیا، گیڈر اور کوا،‘ وغیرہ۔ محققین کا خیال ہے کہ کلیلہ ودمنہ میں موجود کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ سوائے دمنہ کے ممکن نہیں ہے۔ دمنہ ایک ایسا کردار ہے جو میکیاویلائی شخصیت کا حامل ہے اور وہ قدیم یونانی مفکر سوفسطائی کے قریب ہے۔

لافونتین سے جارج آرویل تک

جیسے کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ کلیلہ ودمنہ کا ہسپانوی زبان میں ترجمہ ہوا۔ اس کے بعد دیگر یورپی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا۔ خاص طور پر لاطینی زبان اس سے بہت متاثر ہوئی۔ بہت سے مصنفین نے اسی طرز پر کتابیں لکھیں، جن میں سے اے، ایف دونی ہے جس نے 1525 میں ایک کتاب ’اخلاقی فلسفہ‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ لافونتین نے اپنی کہانیوں میں اس سے استفادہ کیا اور ایسے ہی جارج آرویل نے بیسویں صدی میں اپنی کتاب ’انیمل فارم‘ میں کلیلہ و دمنہ سے استفادہ کیا۔

ابن الندیم نے اپنی کتاب ’الفہرست‘ میں ابن المقفع کے بارے میں لکھا ہے کہ ’عبداللہ ابن المقفع کا نام فارسی میں روزبہ تھا، اسلام لانے قبل اس کی کنیت ابوعمرو تھی اور اسلام لانے کے بعد اس نے ابومحمد کنیت اختیار کی۔ اسے ابن المقفع اس لیے کہتے ہیں کہ اسے حجاج بن یوسف نے بصرہ میں مارا تھا اور اس کے دونوں ہاتھوں کو شدید نقصان پہنچا تھا اور اس کے دونوں ہاتھ مڑ گئے تھے۔ اس کا تعلق خوز سے تھا جو کہ جنوب ایران کا ایک شہر ہے۔

وہ آٹھویں صدی (ہجری) میں تھا اور نہایت فصاحت بلاغت کا حامل، مصنف اور مشاق شاعر تھا۔ اسے سفیان بن معاویہ نے ارتداد کے الزام کے تحت زندہ جلا کر مروا دیا تھا۔ وہ ایسا شخص تھا جس نے بہت سے علوم کو عربی سے فارسی میں منتقل کیا، وہ دونوں زبانوں میں یکساں مہارت رکھتا تھا۔ کلیلہ و دمنہ کے علاوہ اس نے کئی کتابوں کے تراجم کیے جن میں ’کتاب الادب الکبیر‘ اور کتاب ’الادب الصغیر‘ ہیں جنھیں عربی نثر کی معتبر کتابیں تصور کیا جاتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر پہلے عربی زبان میں independentarabia.com پر شائع ہوئی تھی۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ادب