مصری ناول نگار ابراہیم عبدالمجید (پیدائش 1946) نے اپنے ناولوں اور افسانوں کے ذریعے عربی ادب میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہے۔ ان کے سفر کی ابتدا پچھلی صدی میں 70 کی دہائی میں ہوئی اور کچھ دن پہلے انہیں مصر کا سب سے بڑا ایوارڈ ’نیل ایوارڈ‘ ملا ہے۔
اس سے پہلے انہیں امریکی یونیورسٹی قاہرہ کی طرف سے نجیب محفوظ ایوارڈ، شیخ زاید ایوارڈ برائے مصنفین اور کتارا ایوارڈ برائے ناول مل چکا ہے۔ ابراہیم عبدالمجید اسکندریہ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 1973 میں جامعہ اسکندریہ سے ادب میں بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے وزات ثقافت میں مختلف عہدوں پر اپنے فرائض سرانجام دیے، اس دوران ان کا قیام قاہرہ میں رہا۔
ابراہیم عبدالمجید کے 20 سے زائد ناول شائع ہوچکے ہیں، جن میں سے کچھ کے نام مندرجہ ذیل ہیں: 67واں موسم ِگرما، دوری، بلبل اور شکاری، قصرِ یاسمین، شبِ عشق وخون، دوسرا ملک، سمندر کی روشنیاں، اسکندریہ میں کوئی نہیں سوتا، عنبر کے پرندے، اسکندریہ بادلوں میں، برجِ عذرا، قلعہ، ہر ہفتے میں ایک دن جمعہ ہوتا ہے، یہ قاہرہ ہے، اداجیو، پچھلے برس کی بلیاں، اِس سے پہلے کہ میں بھول جاؤں کہ میں یہاں تھا اور یادوں سے فرار۔
ان میں سے بعض ناولوں پر فلمیں اور ڈرامے بھی بن چکے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں ’بڑی دیواروں کے گرد کچھ چھوٹے مناظر،‘ ’درخت اور پرندے، ’دریچے باز ہوتے ہیں،‘ ’پہنائیاں‘ اور ’پرانی کشتیاں‘ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ متعدد موضوعات پر ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں سوانح، مضامین، سفرنامہ، فلسفہ، ڈراما اور ترجمہ شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ کہ نام یہ ہیں: ’امریکی غلام کی یادداشت‘ (انگریزی سے ترجمہ، مولف: فریڈرک ڈگلس)، ’جنگ سے پہلے 24 گھنٹے‘ (ڈراما)، ’سمندری پرندے کہاں چلے؟‘ (سفرنامہ)، ’کھنڈر کے پیچھے‘ (مذہب، شناخت، انقلاب اور تاریخی مضامین)، آزادی کے دن (انقلاب جنوری کے حوالے سے یادداشت)، مصر میں مسائل کون پیدا کرتا ہے؟(مضامین)، ماروائے تحریر اور تخلیق کے ساتھ میرا معاملہ (سوانح)
خوشبو کا ایک جھونکا
انڈپینڈنٹ عربی سے گفتگو کے دوران ہم نے ان سے سوال کیا کہ ’آپ کو اپنی ادبی زندگی کے دوران جو مختلف ایوارڈ ملے، ان کا آپ کی زندگی میں کیا عمل دخل رہا؟‘
اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا، ’ایوارڈ زندگی کے مختلف واقعات کی طرح چند واقعات ہیں۔ یہ درست ہے کہ معاشی لحاظ سے یہ ایک واقعات خوشبو کا جھونکا ہوتے ہیں لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے آپ کے اردگرد لوگوں کی خوشی ہوتی ہے، ان قارئین کی خوشی جنہیں آپ نہیں جانتے، یہی حقیقی خوشی کا منبع ہیں۔ ہر نسل سے تعلق رکھنے والے آپ کے لکھاری دوستوں کی خوشی جو یہ بتاتی ہے کہ آپ کی لوگوں کے ساتھ اچھی نبھی ہے۔ تخلیق کے ساتھ آپ کی یادیں کہ کیسے آپ سب کچھ چھوڑ کر صرف اس کے ساتھ وابستہ رہے۔ فقط ایک تمنا رہ جاتی ہے کہ آپ اپنے ناول کے کرداروں سے مل سکتے، اس لیے کہ انہوں نے آپ کو لکھنے پر ابھارا اور قدم قدم پر راہ سجھائی۔ آپ جتنا بھی ان کرداروں کو حقیقی تصور کر لیں، آخر میں یہ بھید کھلتا ہے کہ وہ فقط ایک حسین خیال ہیں۔ آپ انہیں گلی کوچوں میں نہیں مل سکتے اور ان کا ہاتھ تھام کر ان کی عنایات کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔
عربی ناول کے بارے میں عموماً اور مصری ناول کے بارے میں خصوصاً یہ سوال سامنے آتا ہے کہ آیا یہ ناول مصر سے باہر ایوارڈوں کے مقابلے کی دوڑ میں آتے بھی ہیں یا نہیں؟
اس حوالے سے ابراہیم عبدالمجید کا کہنا ہے، ’ناول کے حوالے سے یہ بات درست نہیں ہے۔ میرا تو یہ خیال ہے کہ اس وقت عربی ناول اپنے جوبن پر ہے۔ اس وقت (مصر کا) عربی ناول تمام عرب ممالک کی پہچان بن چکا ہےاور اس حوالے سے بہت سے نام جانے پہچانے ہیں۔ ان میں سے بعض ایوارڈوں کی نامزدگی میں بھی دکھائی دیتے ہیں اور دوسری زبانوں میں ان کے تراجم بھی ہورہے ہیں، میں نے الحمدللہ ان کو پڑھا ہے۔ اس وقت جو تبدیلیاں عرب ممالک میں رونما ہو رہی ہیں، اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ایسے ناول سامنے آئے ہیں جو اپنے موضوع اور قالب کے لحاظ سے جدید ہیں، اس سے پہلے عربی ناول میں ہمیں یہ صورت حال شاذ و نادر ہی دکھائی دیتی ہے۔
’ان ناولوں کے موضوعات میں ہجرت، جلاوطنی اور جنگیں شامل ہیں، جن سے اس وقت عرب ممالک دوچار ہیں۔ مصری ناول کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، اچھے لکھنے والے اور لکھنے والیاں اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ آپ نام لیتے چلے جائیے۔ جہاں تک مصری ناول کے اعلیٰ ہونے پر شک کی بات ہے تو یہ بیزار اور قنوطی لوگوں کا کام ہے اور ادبی دنیا ایسے لوگوں کے معاملے میں خودکفیل ہے۔ رہی یہ بات کہ کسی ملک کا ایک رنگ سامنے آنا چاہیے تو یہ بات درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی ایک ملک کا ایک رنگ سامنے آ سکے۔ ایک ایسے ملک میں جس کی آبادی دس کروڑ سے زائد ہے اور اس میں لکھاری باقی دوسرے عرب ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہیں، یہ کیسے ممکن ہے؟‘
جدید ناول نگاروں کو مشورے
مصر میں جدید ناول نگاروں کو ناول کی تخلیق کے حوالے سے مشورہ دینے کے بارے میں ان کا کہنا ہے، ’لکھاریوں کو مشورے فائدہ نہیں دیتے۔ اگر مشورہ دینا ہی ہوتو میں ان کودو مشورے دوں گا، ممکن ہے ان کا کوئی فائدہ ہو۔ ایک یہ کہ یہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ناول لکھنے کا مطلب صرف اور صرف کہانی لکھنا نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے مذاہب کی تاریخ اور ادبی خصائص سے آگاہی بھی ضروری ہے۔ تاکہ نئے لکھنے والے کو یہ انداز ہ ہو سکے کہ اس کا اگلا قدم کہاں پڑے گا۔ دوسرا مشورہ یہ ہے کہ ادیبوں کے آپس کے معاملات میں زیادہ عمل دخل نہیں دینا چاہیے۔ اور ان کی تنقیص و تعریف سے بے نیاز ہوجانا چاہیے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو لکھاری جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ صرف اپنی تخلیق پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ نئی نسل اور 70 کی دہائی کے بعد سامنے آنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔
’ان میں سے بے شمار ادب میں اپنا آپ منوا چکے ہیں اور سرفہرست ادیبوں میں شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ کو عربی اور مصری ایوارڈوں سے نوازا جا چکا ہے اور کچھ ایسے ہیں جن کے دوسری زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔ اس وقت مصری ناول اپنے خوب صورت ترین دور سے گزر رہاہے، چاہے وہ لکھاریوں کی تعداد کے لحاظ سے ہو، ناول میں جدیدیت کے عناصر کے لحاظ سے یا بے باک موضوعات کو اختیا رکرنے کے حوالے سے۔ میرا خیال یہ ہے اس میں ہر آتے دن کے ساتھ بہتری آرہی ہے۔‘
کیا صرف لکھنے سے ایک عرب مصنف گزر بسر کر سکتا ہے؟
ابراہیم عبدالمجید نے کہا، ’افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہیں۔ اگرچہ میں وہ شخص ہو کہ شروع میں میرے ناول کی پہلی طباعت کی تعداد تین ہزار ہوتی تھی۔ میں نے اپنی زندگی مضامین لکھ کر گزاری ہے کہ مضامین سے فوری آمدن ہو جاتی ہے۔ البتہ جب بعد میں ایوارڈ وغیرہ ملے اور اس کے ساتھ کچھ مالی معاونت ہوئی تو وہ دیگر معاملاتِ زندگی اور علاج وغیرہ میں صرف ہوئی۔ میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ یہ والا انعام خیر خیریت سے خرچ ہو۔
’اس وقت صورتِ حال ہے کہ قارئین کی ایک بڑی تعداد تفریحی ادب (جاسوسی ادب اور سائنس فکشن وغیرہ) پڑھنے والی ہے۔ ایسا پوری دنیا میں ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ ادب عالیہ پڑھنے والے ہی کم ہو جائیں۔ جبکہ ہمارے یہاں یہ صورت حال ہے کہ تفریحی ادب کے شائقین ناول اور شاعری سے کوسوں دور ہیں۔ تفریحی ادب برا نہیں ہے بلکہ وہ بھی ادب ہی ایک قسم ہے لیکن اکثر لوگ اس وقت تک کسی سنجیدہ ناول کو قابلِ قرات نہیں سمجھتے جب تک اس کے کئی ایڈیشن نہ چھپ جائیں۔ تو ایسی صورت حال میں کوئی بھی ناشر ایک ہزار سے زیادہ کتاب چھاپنے کا خطرہ مول نہیں لیتا۔ جبکہ سنہ 2000 تک صورت حال اس کے برعکس تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اسی طرح ایک لکھاری کے دیگر ذرائعِ آمدن بھی ختم ہوچکے ہیں۔ سینیما اور ٹیلی ویژن ناول سے بہت فاصلے پر ہیں۔ اسی طرح مکتبۃ الاسرۃ پروجیکٹ (ادب و فلسفہ کی ترویج کے لیے مصری سرکاری ادارہ) کے تحت شائع ہونے والی کتابوں کی تعداد بھی بہت کم ہو گئی ہے اور اس کے تحت کتابوں پر جو معاوضہ ملتا ہے وہ بہت کم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے اہم ناولوں کو مکتبۃ الاسرۃ سے چھپنے کا موقع میسر نہیں آتا۔
’اس لیے کہ بجٹ میں اس ادارے کو کم حصہ ملتا ہے۔ اسی طرح وزارت ِ ثقافت اور وزارت برائے نوجوانان بھی شاذ و نادر ہی کوئی کتاب خریدتے ہیں۔ اسی طرح کتابوں کو کنٹرول کرنے کا عمل ہے۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے مصر کے اندر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے لیکن ایک عجیب وغریب کنٹرول ہے کہ بعض اوقات کسی کتاب کو اس بنیاد پر خریدنے سے انکار کر دیا جاتا ہے کہ اس میں فحاشی ہے اور بعض اوقات اس وجہ سے کہ اس میں ایک کردار سگریٹ پی رہا ہے۔ یہ وہ ذرائع ہیں جو لکھاریوں کی آمدن میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت لکھاریوں کو ان میں سے کوئی بھی ذریعۂ آمدن میسر نہیں ہے۔
’حتیٰ کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں سے بھی لکھاریوں کو کوئی آمدن نہیں ہوتی، خاص طور پر کرونا کے بعد تو لگتا ہے کہ یہ معاملہ کبھی ختم ہی نہیں ہو گا۔ مختصر یہ کہ بہت سے ذرائع سے لکھاریوں کو آمدن ہوسکتی ہے لیکن سردست ان میں سے کوئی ذریعہ بھی میسر نہیں ہے۔‘
اسکندریہ کا آپ کی تخلیق میں کیا کردار ہے، اور قاہرہ آپ کی تخلیقات میں اتنی تاخیر سے کیوں آیا جبکہ آپ بہت ابتدا میں یہاں آ چکے تھے؟
ابراہیم عبدالمجید نے اس کے جواب میں کہا، ’ایک عوامی کہاوت ہے، بچپن کا علم پتھر پر لکیر ہوتا ہے۔ اسکندریہ میری جائے پیدائش ہے اور میں یہیں پلا بڑھا ہوں۔ میر ی فکری نشوونما میں بھی اس شہر کا کردار ہے۔ پھر مجھے اس بات کا ادراک ہوا کہ یہ عالمی شہر یونانی ورومی دور میں کن رفعتوں کا حامل رہا ہے، یہاں تک کہ ان دونوں ادوار کو عہدِ اسکندری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یوں اس شہر کے ساتھ میری وارفتگی بڑھتی گئی۔ خاص طور پر جب میں اپنے بچپن اور لڑکپن کے دنوں کو یاد کرتا ہوں تو مجھے دھیان آتا ہے کہ میرے اردگرد مختلف ممالک اور نسلوں کے لوگ تھے۔ اسکندریہ نے مجھے خوداعتمادی اور دور دیسوں کے سفر کا حوصلہ بخشا۔ اسکندریہ قاہرہ سے پرانا شہر ہے لیکن جب آپ یہاں آتے ہیں (یہ کچھ مکروہ تبدیلیوں سے پہلے کی بات ہے۔) تو آپ کا دل کرتا ہے کہ آپ چلتے جائیں اور کہیں بھی نہ ٹھہریں، چاہے آپ سڑکوں پر ہوں یا ساحلوں پر۔
’جبکہ قاہرہ میں اس کے برعکس صورت حال ہے۔ اگرچہ وہ اس سے جدید ہے لیکن جب آپ وہاں جاتے ہیں تو بھیڑ کی وجہ سے آپ کا دل کرتا ہے کہ واپس لوٹ جائیں۔ یہ فطری بات ہے کہ قاہرہ میری تخلیقات میں تاخیر سے آیا۔ میں جب اس شوروشغب سے بھرپور شہر میں 27 برس کی عمر میں آیا۔ مجھے یہ اندازہ تھا کہ میں اس شہر میں گزارا نہیں کر سکتا۔ اس لیے میں نے قصرِ ثقافت میں کام کے لیے شام کا وقت منتخب کیا۔
’برسوں تک میں نے قاہرہ کو دن میں دیکھا ہی نہیں، پھر میں واپس آ گیا۔ البتہ رات کے وقت میں نے اس شہر کو بھرپور دیکھا۔ اس وقت اس شہر کی آبادی چند لاکھ تھی، آج کی طرح دو کروڑ نہیں تھی۔ قاہرہ میرے افسانوں میں تو جھلکتا رہا لیکن میرے ناولوں میں بہت بعد میں آیا۔ لیکن اسکندریہ ہمہ وقت میرے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ بعد میں جب میں نے قاہرہ کو دیکھا تو وہ بہت بدل چکا تھا تو اس وقت میں نے اس کے بارے میں نوسٹیلجیا کے تحت بہت کچھ لکھا۔ پھر میں نے جب گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا تو اس کے حال کے بارے میں لکھا۔‘
کیا عربی ادب یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ اس کے لکھنے والوں کو نوبل پرائز ملے؟
انہوں نے کہا، ’جی بالکل، ہمارے کئی لکھنے والے اس کے مستحق ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا ہمیں سیاسی واقعات کے تحت دیکھتی ہے۔ اپنے یا کسی دوسرے کے ترجمہ شدہ ناول کے سلسلے میں جب کبھی مجھے یورپ کے کسی اجلاس میں جانا پڑا تو ہمیشہ سیاست، آمریت اور دہشت گردی سے متعلق سوالات کا سامنا کرنا پڑا اور ناول اور اس کا موضوع کہیں طاقِ نسیان پر دھرے رہ جاتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سیاست نے سب کچھ تباہ کردیا ہے، اس وجہ سے عربی ادبا کو نوبل پرائز ملنے میں دیر ہورہی ہے۔‘
ابراہیم عبدالجمید اس رائے کو درست نہیں سمجھتے کہ ان کے بعد میں آنے والے ناول ماضی پرستی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے۔ مثال کے طور ’عابرۃ،‘ ’سائیکلوب‘ اور ’یادوں سے فرار‘ اور اس سے پہلے ’پچھلے برس کی بلیاں‘ اور ’اس سے پہلے کہ میں بھول جاؤں کہ میں یہاں تھا،‘ یہ سب زمانۂ حال پر محیط ہیں۔ یہ سب عرب بہار کے انقلاب کی ناکامی کے بعد لکھے گئے ہیں۔ ممکن ہے ان ناولوں کے بعض کردار کی باتوں سے ماضی پرستی جھلکتی ہو لیکن یہ تمام ناول زمانۂ حال کے آئینہ دار ہیں۔‘
آپ کی اکثر تخلیقات کی تہہ میں طلسم اور فینٹسی کارفرما دکھائی دیتی ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
انہوں نے کہا، میری نشوونما بنیادی طور پر لوک کہانیاں سنتے ہوئے ہوئی ہے۔ رُباب پر کہانیاں سنانے والے ہمارے موجود تھے اور اسی طرح میلوں ٹھیلوں میں لوک کہانیاں سنائی جاتی تھیں، ہمارے بچپن میں ابا جان ہمیں قرآن پاک سے ماخوذ قصے سناتے تھے، 50 کی دہائی میں ریڈیو سے الف لیلہ نشر ہوتی تھی۔ بعد میں میں نے فوک ادب کے بڑے بڑے مصنفین کو پڑھا جن میں احمد رشدی صالح، فاروق خورشید، فوزی العنتیل، شوقی عبدالحکیم، عبدالحمید حواس، احمد مرسی اور سعید المصری جیسے مصنفین شامل ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ 70 کی دہائی میں میں نے ایک پورا سال صرف اور صرف فوک ادب ہی پڑھا۔
’اسی طرح وزارت ثقافت میں ملازمت کے دوران ریٹائرمنٹ سے پہلے مجھے فوک ادب کے اطلس کا مدیر بنا دیا گیا اور یوں مجھے کچھ برس فوک ادب کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا۔ اِس دوران اِس میدان کے چوٹی کے ماہرین سے استفادے کا موقع ملا۔ اسی طرح میری ڈگری بھی بشریات میں ہے اور اس عرصے میں مجھے اس حوالے سے بہت کچھ پڑھنے کا موقع ملا۔ تو اس طرح کے متعدد اسباب ہیں۔
موجودہ دور میں جبکہ مصری اور عربی لکھاریوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ایسی صورت حال میں ادبی تخلیقات میں تجربات اور لکھنے کے عمل کو جاری رکھنے کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے ؟
’جب میں لکھتا ہوں تو تمام رکاوٹوں اور پریشانیوں کو ایک طرف رکھ دیتا ہوں۔ میں اس وقت اپنے گر دوپیش کے تمام مسائل کو بھول جاتا ہوں، اس وقت میرا سب سے بڑا مسئلہ میرے کردار ہوتے ہیں کہ میں کیسے انہیں فنی چابک دستی کے ساتھ اور حقیقی رنگ میں پیش کروں۔
’اب اس کی تخلیق میں مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ زبان کے استعمال اور مکان کی تبدیلی سے کردار اور واقعے پر بھی اثر پڑتا ہے۔ اس حوالے سے میں نے اپنی دو کتابوں ’ماروائے تحریر‘ اور ’تخلیق سے میرا معاملہ‘ میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
’تجربہ بنیادی طور پر زمان ومکان، واقعات اور کرداروں کے تحرک کا مرہون منت ہے۔ میں اپنے تاریخ ادب کے مطالعے کی روشنی میں سمجھتا ہوں کہ اصل بات یہ نہیں کہ آپ کیا لکھتے ہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ آپ کیسے لکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ کہانی فکشن لکھنے کا ایک آلہ ہے لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ لوک کہانیوں تک میں اسالیب کا تنوع موجود ہے۔ جب ابوزید الہلالی کی کہانی یا الہلالی کے اسفار کو بیان کیا جاتا ہے تو قصہ گو کہانی کے مضمون اور پلاٹ کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اپنی آواز بھی تبدیل کر لیتا ہے۔
’جب قصہ گوئی تک میں یہ تنوع موجود ہے تو فکشن نگاری میں اس تنوع کا دھیان کیوں نہیں رکھا جا سکتا؟ فکشن میں تو لکھاری بآسانی موضوعات، مقامات، کرداروں کے مکالموں کا مناسب انتخاب کرسکتا ہے۔ خاص طور پر ایسے دور میں جب سینما، مصوری اور موسیقی سے استفادے کے مواقع بھی موجود ہیں۔
’میں ہمیشہ سے یہ سمجھتا ہوں کہ تخلیق یہ نہیں کہ آپ کیا لکھتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ کیسے لکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر میرے ناول ’دوری‘ میں دیومالائی عناصر موجود ہیں، اس لیے کہ اس میں ایک ایسے صحرا کی کہانی ہے جہاں کوئی نہیں آتا، اس میں ایک ایسا سمندر ہے جس میں کوئی سفر نہیں کرتا اور نہ ہی ادھر سے کوئی ریل گاڑی گزرتی ہے۔
’ناول ’شبِ عشق و خون‘ میں میں نے سینیما کی تکنیک استعمال کی ہے، اس لیے کہ کہانی کا پلاٹ اس بات کا متقاضی تھا۔ اس میں دو گھنٹوں کی کہانی ہے اور مجھے دو گھنٹوں میں ماضی وحال کو سمیٹنا تھا تو میں نے سینما کے تصویری اسالیب سے مدد لی۔ اسی طرح ایک اور ناولٹ ’شکاری اور بلبل‘ ہے۔ اس میں ایسے کردار کو پیش کیا ہے جو ماضی میں جی رہا ہے تو اس کے ماضی کو بیان کرتے ہوئے فعل مضارع (حال و مستقبل) کو استعمال کیا گیا ہے اور وہ حال میں اجنبی ہے، اس لیے اس کے حال کے لیے ماضی کے صیغے استعمال کیے گئے ہیں۔
اسی طرح ناول ’اسکندریہ میں کوئی نہیں سوتا‘ میں میں نے محض تاریخ نگاری نہیں کی، کیونکہ یہ کام تو پہلے ہو چکا ہے اور اس سے آپ کی تخلیق کا دائرہ کار محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔ میں نے اس میں یہ کوشش کی ہے کہ قاری کو موجودہ دور میں رکھتے ہوئے عالمی جنگ کے واقعات کے روبرو کر دوں۔ میں نے اس دور کے اہم واقعات اور خبروں کو بیان کرتے ہوئے موجودہ دور کی خبروں کو بھی درج کر دیا ہے۔
’بعض اوقات یہ صورت بڑی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔ آپ اس ناول میں دیکھیں گے کہ کہیں ہزاروں ٹینکوں کے میدانِ جنگ سے واپسی کی خبر ہے اور اس کے ساتھ کسی حجام یارقاصہ کی خبر ہے، موجودہ دور کے کسی گیت یا سینیما میں کسی نئی فلم کی خبر ہے۔ تو اس طرح میں نے صورت حال کے مطابق مختلف ناولوں میں تجربے کیے ہیں۔‘
اپنی نئی تخلیقات کے حوالے سے ابراہیم عبدالحمید کا کہنا ہے، ’میں ابھی ایک ناول کی تکمیل سے فارغ ہوا ہوں لیکن جیسے کہ میری عادت ہے کہ میں اپنی تخلیق کو چند مہینوں کے لیے رکھ دیتا ہوں اور اس کے بعد غیرجانب داری سے اس کا جائزہ لیتا ہوں۔ اور اس کی زبان اور ہیئت کے بارے میں غور کرتا ہے۔ میں موسم ِ گرما گزرنے کا انتظار کر رہا ہوں، اس کے بعد میں اپنی اس نئی تخلیق کا جائزہ لوں گا۔
’میرے ذہن میں لکھنے پڑھنے کے علاوہ اور کوئی لائحۂ عمل نہیں ہے۔ میں بس یہ چاہتا ہوں کہ مضامین لکھنے کا سلسلہ جاری رہے تاکہ کاروانِ زندگی چلتا رہے۔ میں اپنی، اپنی اہلیہ اور بچوں کی صحت، سلامتی کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا۔‘
نوٹ: یہ تحریر پہلے انڈپینڈنٹ عربی میں شائع ہوئی تھی۔ اصل مضمون یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔