یہ محض اتفاق نہیں کہا اولیور سٹون جیسے ذہین اور باریک بین ماہر سنیما نے اسکندر مقدونی کی زندگی پر بننے والی اپنی فلم کا آغاز ایسے سین سے کیا جس میں ارسطو ایک بڑے فاتح کے اوصاف بیان کر رہا ہے۔ اور نہ ہی اس لیے کہ اسکندر ارسطو کا شاگرد تھا اور اکثر معاملات میں اس کا فکری پیروکار تھا۔
اصل بات یہ ہے کہ او لیور سٹون ہمارے سامنے یہ بات لانا چاہتا ہے کہ قدیم ادوار میں کسی علاقے پر قبضہ کرنے کا کیا طریقہ کار تھا۔ اور اس طرح وہ ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ کیسے دوفاتح معلوم انسانی تاریخ میں مختلف ہیں۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ تاریخ انسانی جس طرح کے فاتحین سے واقف رہی ہے، یہ دونوں ان فاتحین سے کسی حد تک مختلف ہیں۔ اور وہ دو فاتحین ہیں: اسکندر اور نپولین بونا پارٹ۔
سرزمین غیر
یہ بات درست ہے کہ بادی النظر میں دونوں کے حملے کسی بھی عام حملے ہی کی طرح ہیں ۔ اور ان دونوں کا مقصد اپنے علاقوں سے دور اوروں کی سرزمین پر قبضہ جمانا تھا۔
یہ بھی درست ہے کہ ان دونوں کا مقصد ایک ایسی سلطنت کا حصول تھا جس میں سورج غروب نہ ہو۔ جیسے کہ دوسرے فاتحین بھی ایسا ہی چاہتے ہیں یا کم سے کم ایسی سلطنت کے حصول کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔
البتہ ایک بات جس میں یہ دونوں دیگر فاتحین سے ممتاز نظر آتے ہیں (اگرچہ ان دونوں کی مہمات میں ایک طویل زمانہ حائل ہے) وہ یہ ہے کہ دونوں کے حملے ایک تہذیب کے آبیاری کا باعث بنے۔
انہوں نے نہ تو مقبوضہ علاقوں پر اپنے افکار مسلط کیے (چاہے وہ دینی افکار ہوں یا غیر دینی) اور نہ ہی ان علاقوں سے دولت اپنے علاقوں میں منتقل کی۔ بلکہ انہیں ایک تہذیبی کاسموپولیٹن پروجیکٹ میں شامل کیا۔
دونوں حملہ آور اپنے پروجیکٹ کے معاملے میں نیک نیت تھے، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اس حملے کو اپنی اور اپنی قوم کی تعلیم کا ذریعہ بنایا اور ایک حد تک یہ کوشش کی کہ مفتوحہ اقوام کو نئے افکار سے روشناس کروایا جائے۔
انہوں نے مفتوحہ اقوام کو غلام بھی نہیں بنائے جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ فاتح اور مفتوح میں ایک قسم کی ہم آہنگی چاہتے تھے۔
کون مانے گا؟
اس طرح کی بات کو تسلیم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان خوش گمان ہو۔ لیکن ان دونوں ادوار کے بارے میں تاریخ جو کچھ ہمیں بتاتی ہے، اسے کسی قدر سخت دلی کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ بات ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ اسکندر کے پروجیکٹ کے پیچھے(اگرچہ کسی قدر دور) ارسطو تھا۔ یہ وہ فلسفی ہے جو تاریخ انسانیت میں چند نمایاں ترین لوگوں میں سے ایک ہے۔
اسکندر اسے اور اس جیسے دیگر مفکرین کو اپنے ساتھ رکھتا تھا اور ان سے مشورے لیتا رہتا تھا۔ اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ بوناپارٹ کے حملے کے پیچھے سان سیمونین مفکرین تھے۔
ان مفکرین اور فن کاروں کی اکثریت اس کے حملے کہ حامی تھی اور وہ اسے نت نئے مشورے دیتے رہتے تھے۔
فکری نتائج
اگرچہ بونا پارٹ حملہ اساسی طور پر استعماری حملہ تھا لیکن ہم یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس کے کیا نتائج سامنے آئے۔ ی
ہاں تک کہ بونا پارٹ کی شکست کے بعد بھی اس کے اثرات بڑی حد تک موجود رہے۔
صرف کتاب ’وصفِ مصر‘ (مصر کے بارے میں 20 جلدوں پرمشتمل یہ کتاب فرانسیسی عمل داری کے دوران بونا پارٹ نے ماہرین سے لکھوائی)، تصویری لکھائی کی دریافت، نہر سویز کی کھدائی کا پروجیکٹ، دیگر آثارِ قدیمہ کے ساتھ ساتھ فرعونوں کے آثار کی بازیافت ہی ایسے عوامل نہیں ہیں جنھوں نے بتدریج عربی فکر کو جدیدیت سے روشناس کروایا اور زمانے کے ہم قدم کر دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم بونا پارٹ کے حملے کے بعد مقامی تبدیلیوں اور کامیابوں کی صرف فہرست ہی یہاں نقل کرنا چاہیے تو اس عجلت میں ممکن نہیں۔ اس لیے ہم یہاں صرف اس کی طرف چند اشارے کریں گے۔
’وصفِ مصر‘ کے بارے میں سب لوگ جانتے ہیں کہ اس فکری پروجیکٹ کے پیچھے ایک ادارجاتی فکر کارفرماتھی جو کہ آج بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہے، اس سے ہماری مراد ’مصر اکادمی‘ ہے۔
اس کی بنیاد بونا پارٹ نے قاہرہ میں قدم جمانے کے فورا بعد رکھی۔ اس نے مختلف شبعوں کے ماہرین کو یکجا کیا اور انہیں اس ادارے کی تشکیل کے لیے مواد اکٹھا کرنے کا کہا۔
بونا پارٹ کا مقصد یہ تھا کہ اس ادارے میں مصر کی تاریخ، جغرافیے، اس کی اقوام، وسائل، آبی وسائل وغیرہ کے بارے میں ہر طرح کا مواد موجود ہو۔
حملہ آور، محققین اور مشیر
مصر اکادمی کی بنیادبونا پارٹ نے 22 اگست 1978 ء کو رکھی اور اس سے اگلے ہی دن اس کا پہلا اجلاس گاسبارمونج کی صدارت میں ہوا۔
اس میں بونا پارٹ صدر (جو کہ اس کا نائب تھا) کی تمام گفتگو کے دوران خاموشی سے بیٹھ کر اس کی گفتگو سنتا رہا۔ اس اکادمی کا 79واں اور آخری اجلاس 22 مارچ 1801 کو ہوا۔
اس اکادمی نے ایسے بڑے اور نادر کارنامے سرانجام دیے کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس سے ملتے جلتے کارنامے ہو سکتے ہیں لیکن ان کارناموں جیسا کوئی کارنامہ نہیں۔ جن بنیادی مشیروں کو بونا پارٹ نے اس میں شامل کیا ان میں لوئس کوسٹاس، ڈیجنٹ، جافری سینٹ ہیلری اور فاریلی سرفہرست ہیں۔
اس ادارے کی تاسیس کے پیچھے یہ فکر کارفرما تھی کہ قاہرہ علوم و فنون کا مرکز بن جائے۔ اس ادارے کے بنیادی مقاصد میں مصر میں روشن خیالی کی ترویج، فطری سائنس، انڈسٹری اور تاریخ کے شعبوں میں تحقیق اور حکومت کو پیش آمدہ مسائل کے بارے میں مفید مشورے دینا شامل تھے۔
ادارے میں کام کرنے والوں کی سہولت کے لیے انہیں مشیروں کی زیر نگرانی چار شعبوں میں تقسیم کیا گیا۔ شعبۂ ریاضی (عجیب بات یہ ہے کہ بونا پارٹ خود اس کا رکن بنا۔)
شعبۂ طبیعیات: اس میں کانوں، معدنیات، علم الحیوان اور سرجری کے ماہرین کو شامل کیا گیا۔ سیاسی معاشیات:اس کا سربراہ کافاریلی تھا۔
اس شعبے میں ماہرین معیشت و ادارہ جاتی امور کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اور آخری شعبے ادب وفنون کا تھا جس میں اس شعبے کے ماہرین کا انتخاب کیا گیا۔ لیکن کچھ اور نام بھی ہیں جو مصر میں سان سیمونین تحریک کی سرگرمیوں کے دوران نمایاں نظر آتے ہیں۔
مستشرقین اور مصوروں کی ایک بڑی تعداد نے ’وصفِ مصر‘ کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا اور بہت سے مصوروں نے بونا پارٹ کے حملے کو بڑے پیمانے پر متعارف کروایا۔
بونا پارٹ بطور ریاضی دان؟
ابتدا ہی سے جنرل بونا پارٹ نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اس ادارے کا حصہ ہوگا اور اس ادارے کا مرکز قصر کاشف میں ہو گا۔
اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ عندیہ دیا کہ ادارے کے اجلاس صالون الحریم میں ہوں گے جس کی ابتدا اسی مہینے کی 23 تاریخ کو کر دی گئی۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اگرچہ اس وقت یہ ادارے بالکل ابتدائی حالت میں تھا اور اس وقت تک تمام کام مشترکہ تھے لیکن ماہرین، محققین اور فن کاروں نے فی الفور اپنے اپنے شعبوں میں کام کی ابتدا کردی۔
یہاں کچھ کاموں اور کچھ شخصیات کا ذکر کردینا مناسب ہوگا۔ مثال کے طور پرمحقق مونج نے نظر کے سراب کے محرکات پر تحقیق شروع کر دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے ساتھ ساتھ وہ قاہرہ کے جس قصر میں رہتے تھے، اس کی پتھروں پر تحقیق شروع کردی کہ انہیں کیسے لگایا گیا ہو گا۔ برتولیہ نے امونیا کی اجزائے ترکیبی پر غور فکر کرنا شروع کر دیا، اسی طرح اندریوس مقامی طور پر بنائے جانے والے جپسم اور بارود پر اپنی تحقیق میں مصروف ہو گیا۔
اس دوران سینٹ ہیلر نے شتر مرغ کے پروں اور اس کی کارکردگی کے بارے میں اپنے مشاہدات کو مرتب کرنا شروع کیا۔ سولکووسکی نے قاہرہ اور صالحہ کے مابین راستے کے بارے میں بتایا، اس نے دیوی ایزیس کی مورتی منگوائی اور اس کے ساتھ ساتھ دو ایسی تختیاں طلب کیں جن پر تصویری لکھائی موجود ہو۔
یوں اس نے فرعونوں کے ادوار کے متون پر باقاعدہ تحقیق کا آغاز کیا اور ان کے مطالب کو بیان کیا۔
ڈیجنٹ نے مصر میں آنکھوں کے امراض پر تحقیق کی اور اس کے ساتھ ساتھ کلر زدہ زمین کا مشاہدہ کیا۔ اسی دوران نوری نے بویسوس کے تختوں کی پیمائش کرنی شروع کی، جس کی نقش گری اس کے دوست لوبیر نے کی تھی۔ کوستاس نے سمندر کے پانی کے مختلف رنگوں کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا اور ڈولومیو نے قدیم اسکندریہ کے بارے میں تحقیق شروع کردی کہ ارضیات کے نقطۂ نظر سے اس کا قدیم جغرافیہ کیا تھا۔
نہر سویز کی کھدائی
ظاہری بات ہے کہ ’مصر اکادمی‘ کے بہت سے کارناموں میں سے یہ چند ایک کارنامے ہیں ۔ البتہ ان میں سے ایک ایسا اہم کارنامہ ہے جسے محققین، ماہرین، ماہرین پیمائش، نقشہ نویسوں اور ماہرین جغرافیہ نے مل کر سرانجام دیا ہے ۔ یہ کارنامہ نہر سویز کی کھدائی ہے۔
اس کے ذریعے سے بحر احمر اور بحر ابیض کو ایک دوسرے سے ملا دیا گیا اور یوں تاریخ میں پہلی بار ایشیا اور یورپ کے مابین سمندری سفر کا راستہ ہموار ہو گیا۔
بعد ازا ں اس پروجیکٹ میں سان سیمونین کے بہت سے اشتراکی محققین شامل ہوئے، اس کے بعد مصری محمد مظہر نے اس میں اپنا حصہ ڈالا اور آخر کار فریڈینڈ لیسبس نے اسے مکمل کیا۔
یہ پروجیکٹ اس وقت مکمل ہوا جب اکثر لوگ یہ بھول چکے تھے کہ اس پروجیکٹ کی داغ بیل بونا پارٹ کے حملے کے دوران رکھی جا چکی تھی۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ نوآبادیاتی پروجیکٹ جرمن فلسفی لائبنز کے افکار سے ماخوذ تھا، جس نے کئی دہائیوں قبل ایسا ہی خیال پیش کیا تھا، لیکن یہ الگ داستان ہے۔
نوٹ: یہ تحریر اس سے قبل انڈپینڈنٹ العریبہ پر شائع ہو چکی ہے۔