پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کی جدید زندگی سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر اسلام آباد کے شمال مغرب میں سیکٹر ڈی 12 سے متصل گاؤں شاہ اللہ دتہ میں ڈھائی ہزار سال پرانے غار موجود ہیں، جہاں ماہرین کے مطابق کبھی بدھ بھکشوں، ہندو راہب، جین مذہب کے پیشوا اور حتیٰ کہ مسلمان بھی رہتے تھے۔
ماہر آثار قدیمہ انصار احمد، جو 20 سال قبل ان غاروں کو دریافت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں نے ایسے تاریخی شواہد کی طرف اشارہ کیا ہے جو سکندر اعظم کے اس مقام سے گزرنے کا ثبوت دیتے ہیں۔
انصار احمد کے مطابق نہ صرف سکندر اعظم بلکہ وسطی ایشیا کی جانب سے ہندوستان آنے والے تمام حملہ آور پہاڑوں سے اترنے کے بعد میدانی علاقوں کا سفر اسی مقام سے گزر کر رکتے رہے ہیں۔
اگرچہ یہ غار اس وقت بری حالت میں ہیں تاہم ماضی کا حال اب بھی بیان کر رہے ہیں اور اسلام آباد کے رہائشی اور باہر سے آنے والے مشینی زندگی سے فرار حاصل کرنے کے لیے شاہ اللہ دتہ کے غار دیکھنے ضرور آتے ہیں۔
یہ غار ایک ہی پہاڑ پر بنے ہوئے ہیں اور سامنے سے دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک دیوار پر کوئی تصویر بنا دی گئی ہو، تاہم بڑے درختوں کے باعث تمام غار پوری طرح نظر نہیں آتے۔
انصار احمد کے مطابق قدرتی عمل سے بننے والے ان غاروں کی چھتوں اور دیواروں پر بڑی بڑی تصاویر موجود تھیں جو وقت گزرنے کے ساتھ تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاہ اللہ دتہ کے غاروں کی دریافت سے متعلق بتاتے ہوئے انصار احمد یاد کرتے ہیں کہ معروف پاکستانی ماہر آثار قدیمہ پروفیسر احمد حسن دانی نے 20 سال قبل انہیں بتایا کہ اس مقام پر کچھ آثار دیکھے گئے ہیں۔
’میں نے ان غاروں تک پہنچنے کے لیے خیبر پختونخوا میں خان پور کی طرف سے پیدل سفر کیا اور کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد یہاں تک پہنچ پایا تھا۔‘
شاہ اللہ دتہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے صحافی راجہ شبیر کے خیال میں ان غاروں کو باقاعدہ تفریحی مقام بنا کر اسلام آباد میں سیاحت کے فروغ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے شاہ اللہ دتہ تک اور گاؤں کے اندر غاروں تک کی سڑکوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ’اس سے زیادہ ملکی و غیر ملکی سیاح یہاں آنے کی طرف راغب ہوں گے۔‘