پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی سربراہی میں ایک حقائق جاننے کے لیے قائم مشن نے کوہاٹ میں کشتی حادثے کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جس میں مدرسے کے 53 بچے اور ایک استاد ڈوب کر ہلاک ہوئے تھے۔
لاہور سے کمیشن کی چیئرپرسن حنا جیلانی کے نام سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مشن کو معلوم ہوا ہے کہ حادثہ سنگین غفلت، اداروں کے مابین ناقص رابطہ کاری، کشتی رانی کے قواعد کے غیرمؤثر اطلاق اور دیکھ بھال کے ناکافی قواعد و ضوابط کی وجہ سے رونما ہوا جس سے اتنی زيادہ جانیں ضائع ہوئی ہیں۔
بچے ایک مقامی مدرسے کے طالب علم تھے اور انہیں ایک چھوٹی کشتی میں ٹانڈہ ڈیم پر لے جایا گیا تھا، جو حد سے زیادہ بوجھ کی وجہ سے ڈوب گئی۔ ’ان کی زندگی اور حفاظت کے حق کی یہ خلاف ورزی شدید تشویش کا باعث ہے، خاص طور پر مدرسے کے سربراہ کے غیرمعقول ردِعمل کے پیش نظر جو اپنے نو عمر طالبعلموں کی دیکھ بھال کے ذمہ دار تھے۔‘
اس واقعے پر حکومت کے جانب سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے اور اس تازہ رپورٹ پر بھی کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔
اگرچہ آج جاری ہونے والی مشن کی رپورٹ کسی خاص قصور وار کا تعین نہیں کر سکی، لیکن اس کا اصرار تھا کہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی شواہد ہیں کہ مدرسے کے سربراہ، محکمہ آبپاشی اور سول انتظامیہ سبھی اس حادثے کے ذمہ دار ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درج کی گئی ایف آئی آر اس کی عکاسی کرنے میں ناکام رہی۔ کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے اور تفتیشی عمل میں بھی بہت سے نقائص ہیں۔
اگرچہ ٹانڈہ ڈیم میں کشتی رانی پر 2022 سے پابندی عائد ہے، لیکن پابندی کے غیرمؤثر نفاذ کی وجہ سے سیاح کشتیاں پانی میں لے جانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بیان کے مطابق ان میں بہت سی کشتیاں ایسی ہیں جو اس مقصد کے لیے موزوں نہیں۔
ہلاکتوں کی بڑی تعداد کے پیشِ نظر، ایچ آر سی پی نے ایک اعلیٰ سطح کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا مطالبہ کیا ہے جو حتمی طور پر ذمہ داران کا تعین کرے اور انہیں غفلت کی سنگینی کے تناسب سے سزا کا مستحق قرار دے۔
مشن نے کہا ہے کہ ڈیم کی نگرانی کرنے والے تمام اداروں کے درمیان بہتر رابطہ کاری کی ضرورت ہے اور ہر معاملے میں ذمہ داریوں کا واضح تعین ہونا چاہیے۔
ریسکیو کی کوششوں میں تاخیر نے ہنگامی خدمات میں بہتری لانے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ بروقت ہنگامی مدد کی فراہمی یقینی ہو سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ میں کشتی رانی پر پابندی کے اطلاق کو یقینی بنانے کے لیے مناسب کارروائی اور لوگوں کو اس پابندی کی خلاف ورزی کے نتائج سے آگاہ کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جس مدرسے سے بچے تعلق رکھتے تھے، اس کے مہتمم شاہد اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ انہوں نے خود 50 بچوں کو کشتی میں بٹھایا تھا، جن میں پانچ اور چھ سال کے بچے بھی تھے۔
مدرسے کے مہتمم کے مطابق خود ان کا بیٹا بھی ان طلبہ میں شامل تھا جو پانی میں ڈوب کر جان کی بازی ہار گئے۔
’اپنے ہاتھوں سے میں نے بچوں کو کشتی میں بٹھایا، جو پانی کے وسط میں جا کر آنکھوں کے سامنے ڈوب گئی۔‘
شاہد اللہ کہتے ہیں کہ وہ ہر کچھ عرصے بعد بچوں کو سیر کی غرض سے لے کر جاتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی تاندہ ڈیم گئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے بچوں کو روانہ کیا تو وہ کچھ دیر کھڑے رہے، جیسے ہی کشتی پانی کے بیچ پہنچی تو دیکھتے ہی دیکھتے الٹ گئی۔
’میں بے بس تھا۔ کھڑا سب کچھ دیکھتا رہا۔ بچوں کی چیخیں سنتا رہا۔ میں اڑ کر تو وہاں جا نہیں سکتا تھا۔ ریسکیو کو کال کیا اور وہ 15 منٹ میں ہی پہنچ گئے تھے۔‘
ڈیم کے پاس موجود لوگوں نے بتایا کہ حافظ اللہ نامی ملاح بھی پانی میں ڈوب گیا تھا۔