کئی روز گزرنے کے باوجود بلوچستان کے علاقے پیر کوہ میں ہیضے کی وبا برقرار ہے اور حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اب تک سات افراد مارے جا چکے ہیں جس پر مبینہ حکومتی غفلت کے خلاف ایک وکیل عمران بلوچ نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
مسئلے کی سنگینی اورعوام کے دکھ درد کو دیکھتے ہوئے بلوچستان ہائی کورٹ کے وکیل عمران بلوچ نے ایک درخواست 16 مئی کو جمع کروائی ہے۔ جس میں انہوں نے وفاقی حکومت، صوبائی حکومت بلوچستان، سیکرٹری صحت بلوچستان، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کمپنی (پی پی ایل)، آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی (او جی ڈی سی ایل)، ڈپٹی کمشنر ڈیرہ بگٹی اور محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کو فریق بنایا تھا۔
عمران نے درخواست کے ساتھ پیرکوہ میں حالیہ وبا اور اس سے قبل یہاں کے پانی کے مسئلے پر تحقیق بھی کر کے درخواست سے منسلک کی جس کی بنیاد پر درخواست کو منظور کیا گیا اور اس کی سماعت چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس روزی خان بڑی کر رہے ہیں۔
عمران نے بتایا کہ چوں کہ ’معاملہ انتہائی حساس اور توجہ طلب تھا اور میں نے جو تحقیق کی تھی اس کی بنیاد پر عدالت نے نہ صرف درخواست کو منظور کر لیا بلکہ اب روزانہ کی بنیاد پر وہ متعلقہ فریقین سے رپورٹ طلب کر رہے ہیں۔ اس کیس کی تین بار سماعت ہوچکی ہے۔‘
بلوچستان ہائی کورٹ کے وکیل عمران بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر کوئی وکیل اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے تو اس سے اچھا انسان اور خدمت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اسی جذبے کے تحت میں نے اس بڑے انسانی المیے کو روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔‘
عمران کہتے ہیں کہ چوں کہ ’یہ ایک پرانا اور حل طلب مسئلہ تھا۔ جس کی بنیادی کو جاننا بھی ضروری تھا۔ اس لیے میں نے کیس فائل کرنے سے پہلے تحقیقات کی کہ مسئلہ کیا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کو حاصل معلومات کے مطابق پیرکوہ کے مقامی افراد اور صحافی دعویٰ کر رہے ہیں کہ وبا نے اب قریبی علاقوں کا رخ کر لیا ہے جہاں پانی کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ حکومت کی طرف سے اب بھی صرف 7 ہلاکتوں کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ جب کہ مقامی لوگ یہ تعداد کئی کنا زیادہ بتاتے ہیں۔
یاد رہے کہ بلوچستان ڈیرہ بگٹی کے قریب واقع پیرکوہ ایک پہاڑی اور پتھریلہ علاقہ ہے جس کی آبادی 40 ہزار کے قریب ہو گی۔ یہاں پانی کی فراہمی کا نظام شروع سے ہی موجود نہیں ہے۔
عمران بلوچ کا کہنا ہے کہ ’گیس کے ذخائر کے باعث بھی یہاں پر زیر زمین پانی نکالنا مشکل ہے۔ یہاں کے لوگ بارشوں کا پانی جو جوہڑوں میں جمع ہو جاتا تھا وہ پیتے تھے۔‘
عمران بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ ’جانور بھی یہی پانی استعمال کرتے تھے۔ اسی وجہ سے یہاں ہیضے کی وبا پھیلی۔‘
عمران کا کہنا تھا کہ کہ ’پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ یہاں ہیضے کی وبا پھیلی ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسی صورتحال رہی ہے۔ جس سے کئی لوگ اور کئی جانور ہلاک ہوئے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس بار جو وبا پھیلی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بچوں، بوڑھوں عورتوں سمیت کوئی 50کے قریب لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ جانور تو بے تحاشا مرے ہیں۔ حکومت مرنے والوں کی تعداد کو کم بتارہی ہے۔‘
عمران کہتے ہیں کہ ’اس بار چوں کہ بارشیں نہ ہونے سے پانی کم ہوا اور ایک ہی جگہ سے جانور اور انسان پانی پینے لگے۔ جس سے وائرس لگنے سے پورے علاقے میں وبا نے پنجے گاڑھ دیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہیضے کی وبا پھیلنے کے پہلے ہفتے کے دوران 2574 لوگ اس کا شکار بنے۔ یہ تعداد اب پانچ ہزار سے بھی تجاوز کرگئی ہے۔‘
پانی کی فراہمی
عمران کا ماننا ہے کہ پیرکوہ کو پانی سوئی یا ڈیرہ بگٹی سے چینلوں کے ذریعے فراہم کی جاسکتی ہے لیکن یہ بھی کوئی مستقل حل نہیں ہے۔
عمران بلوچ کو تحقیق کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ 2017 میں جب نواب ثنااللہ زہری کی حکومت تھی اور یہاں سے سرفراز بگٹی ممبر اسمبلی بنے تھے۔ اس وقت پیرکوہ میں پانی کے مستقل حل کے لیے پی ایس ڈی پی میں 72 کروڑ روپے رکھے گئے تھے۔ کوئی اعداد و شمار نہیں کہ یہ پیسےکہاں گئے کیوں خرچ نہیں ہوئے۔
عمران نے بتایا کہ ہم نے ’یہ بھی عدالت کے سامنے اٹھایا ہے کہ پیر کوہ میں انسانی جانوں کا نقصان غفلت کا نتیجہ ہے۔ جو لوگ مرے ہیں یا ان کے جانور مرے ہیں۔ ان کو معاوضہ دیا جائے۔ ہسپتال کو اپ گریڈ کیا جائے۔ ڈاکٹروں، بستروں اور کمروں کے ساتھ ڈاکٹروں کی تعداد بڑھائی جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ چوں کہ ’اس علاقے میں زیر زمین پانی کو بور لگا کر نہیں نکالا جاسکتا ہے۔ اس کو سوئی سے پانی فراہم کرنا ممکن ہے۔‘
دوران تحقیق یہ چیز بھی سامنے آئی کہ جو باہر کے ڈاکٹر یہاں تعینات تھے۔ وہ سکیورٹی کا بہانہ کرکے ڈیوٹی نہیں دیتے تھے۔ مقامی ڈاکٹروں کا رویہ بھی عوام کے ساتھ خراب تھا۔ وہ بھی کوئٹہ میں بیٹھ کر تنخواہیں لیتے تھے۔
پی پی ایل کو فریق بنانا
عمران نے بتایا کہ پی پی ایل کو فریق بنانے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے پاس ڈاکٹروں، ادویات اور پانی کا وافر مقدار میں ذخیرہ موجود ہے۔ لیکن اتنے بڑی تباہی اور وبا کے باوجود انہوں نے کوئی اقدام نہیں کیا۔
انہوں نے بتایا کہ جو کمپنیاں کہیں سے معدنیات نکالتی ہیں۔ صحت اور پانی کی فراہمی معاہدے کاحصہ ہوتی ہے۔ لیکن چوں کہ ہمارے ہاں معاہدات بھی پبلک نہیں ہوتے اس لیے بہت سی چیزوں پر پردہ پڑا رہتا ہے۔
عمران کہتے ہیں ایک دوسری چیز جو سامنے آئی کہ ’یہاں کے لوگ بہت سادہ ہیں۔ بیوروکریسی کرپٹ ہے۔ اور یہ سب ڈیوٹی نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ کوئٹہ میں بیٹھ کر تنخواہیں وصول کر رہے ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پانی اور صحت کا مسئلہ آج کا نہیں بلکہ شروع ہی دن سے موجود ہے۔ ان لوگوں کا گزارا ہی بارش کے پانی پر رہا ہے۔ کسی نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوشش نہیں کی۔ سوئی میں بھی یہ مسئلہ موجود ہے۔‘
حل کیا ہے؟
عمران سمجھتے ہیں کہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے جہاں پانی موجود ہے۔ وہاں ٹیوب ویل لگا کر پائپ لائن کے ذریعے پانی یہاں تک لانا ہوگا۔ جو قریب کی آبادیاں ہیں۔ وہاں سیمنٹ کے ٹینک بنائے جائیں اور جانوروں کے لیے الگ سے جگہ بنائی جائے۔
چیف سیکرٹری بلوچستان بھی عمران بلوچ کے کیس میں فریق ہیں وہ ابھی تک عدالت میں پیش نہیں ہوئے تاہم انہوں نے گذشتہ روز کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ پیر کوہ میں ہیضے کی وبا قابو میں ہے۔
چیف سیکرٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی نے بتایا کہ ’سیکرٹری صحت اور سیکرٹری آب پاشی سمیت سنیئر افسران چار دن وہاں رہے۔ بروقت اقدام سے جانی نقصان زیادہ نہیں ہوا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پیر کوہ میں چھ لاکھ لیٹر پانی یومیہ دیا جارہا ہے۔ جب کہ پیرکوہ اور زین کوہ میں دو سے تین ماہ کے اندر پانی کی اسکیم فعال کردی جائے گی۔‘
دوسری جانب حکومت بلوچستان کے ترجمان فرح عظیم شاہ نے بھی پیرکوہ کےحوالے سے ایک پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ 14 اپریل کو پیر کوہ میں سامنے آنے والی ہیضے کی وبا سے اب تک 7 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہیضے کی وبا پر قابو پانے کے لیے سینٹر قائم کیا گیا ہے۔ ڈیرہ بگٹی سے پیر کوہ کو پانی کی فراہمی کے لیے فنڈز جاری کر دیے گئے ہیں۔‘
فرح عظیم شاہ نے بتایا کہ ’محکمہ صحت کا عملہ اور ڈاکٹرز وہاں موجود ہیں۔ پیر کوہ میں دو ماہ کے دوران دو پانی کی سکیموں کو مکمل کیا جائے گا۔ پتھر نالہ مکمل سیل کیا گیا تھا۔ جس کو صاف کرکے فعال کردیا گیا۔ لیکن اس کا پانی صرف صفائی کے لیے استعمال ہوگا۔‘
فرح عظیم شاہ بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ پیرکوہ میں پانی کی ترسیل کا کوئی نظام موجود نہیں تھا اور وزیراعلیٰ بلوچستان کی ہدایت پر یہ نظام ترتیب دیا جارہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہیضے سے متاثرہ افراد کی تعداد 3 ہزار 300 ہے۔ چیف سیکرٹری بلوچستان ایمرجنسی کی بنیاد پر پیر کوہ کی نگرانی کر رہے ہیں۔ 30 کروڑ کا فنڈ بھی جاری کیا گیا ہے۔‘
19 مئی کو وفاقی وزیر اینٹی نارکوٹکس شاہ زین بگٹی نے ڈبلیو ایچ او کے کنٹری ڈائریکٹر کے ہمراہ بھی پیر کوہ کا دورہ کیا۔ انہوں نے ہیضے کی وبا پر قابو پانے کے لیے صوبائی حکومت کے اقدامات کاجائزہ لیا۔
پیر کوہ کے مقامی صحافی پلہان بگٹی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صورتحال بہتر نہیں ہے۔ کل کے روز بھی 200 سے زائد مریض رپوٹ ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’پیرکوہ سے ملحقہ علاقے چیدر میں بھی 30 مریضوں کے سامنے آنے کی اطلاع ہے۔ جنہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لے جایا گیا ہے۔ جب کہ تین لوگوں کی موت کی بھی ہمیں اطلاع ملی ہے۔‘